پی ٹی آئی کے وکلاء اس لئے کبھی لاہور ہائیکورٹ اور کبھی پشاور ہائیکورٹ میں عدالتی ”شاپنگ“ کرتے پھر رہے ہیں کیونکہ وہاں ابھی تک ان کی باقیات ہیں اور وہ اسی طرح پی ٹی آئی کو ریلیف دیتی نظر آتی ہیں جس طرح کبھی چیف جسٹس ثاقب نثار، چیف جسٹس آصف سعیدی کھوسہ اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور ان کے ہم خیال جج صاحبان دیتے نظر آتے تھے کہ خود سے پی ٹی آئی کے وکلاء کو نقطے سمجھایا کرتے تھے اور نہ بننے والا ریلیف بھی خوشی خوشی دے دیا کرتے تھے۔ پی ٹی آئی کے چیمپین وکیل علی ظفر کی تو اس قدر گڈی چڑھی کہ انہیں سینیٹر بنادیا گیا اور حامد میر ان اکیلے سے پورا پورا پروگرام کرتے پائے جاتے تھے۔ آج جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ان سے قانونی نقاط پر بات کرتے ہیں تو یہ صاحب بغلیں جھانکنا شروع کر دیتے ہیں اور پی ٹی آئی کا گالم گلوچ بریگیڈ سوشل میڈیا پر ٹرولنگ شروع کر کے اپنے حامیوں کو پارٹی کے ساتھ جوڑنے کا جتن کرتا پایا جاتا ہے۔

’اب تحریک انصاف کا نام تو رہے گا لیکن ۔ ۔ ۔‘ سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا موقف بھی آگیا

جسٹس اعجاز الاحسن کے اچانک استعفے سے نون لیگ کو انتخابی بیانیہ مل گیا ہے۔ یہ استعفیٰ نون لیگ کے بیانئے کی تائید ثابت ہوا ہے کہ انصاف کے اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے جج صاحبان ان کے خلاف ناانصافی میں جتے ہوئے تھے اور 2018میں انہیں دھکا دے کر اقتدار سے نکال باہر کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پونیز کو چپ لگی ہوئی ہے، یوں لگتا ہے جیسے ان کی ماں مرگئی ہے جبکہ نون لیگ کی مریم اورنگ زیب ہوں یا خواجہ آصف، ہر ایک کا لہجہ بتاتا ہے کہ بات یہاں ختم نہیں ہوگی اور معاملہ ایسے ججوں کے احتساب تک جائے گا۔ لیکن اگر ایسا نہ بھی کیا گیا تو انتخابی مہم کے دوران اس کا ڈھنڈورا ضرور پیٹا جائے گا اور اگر نون لیگ نے 2018کا انتخاب مجھے کیوں نکالا کے بیانئے پر لڑا تھا تو 2024کا انتخاب ججوں کو کیوں نکالا کے بیانئے پر لڑے گی اور لوگوں کو بتاتی نظر آئے گی کہ ان کی عوامی مقبولیت کے ساتھ کس طرح جبری زیادتی کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کے لئے کی جانے والی سہولت کاری کا بھی خوب تذکرہ ہو گا۔ نواز شریف پہلے ہی اس حوالے سے پارٹی کے پارلیمانی بورڈوں کے اجلاس میں کرتے رہے ہیں اورجوں جوں ان کا خطاب براہ راست نشر ہوا ہے، توں توں نون لیگ مخالف حلقوں کے دل پر چھریاں چلی ہیں۔

بلے کے نشان سے متعلق فیصلے پر پیپلزپارٹی کا ردعمل بھی آگیا

چاقو تو یوں بھی کھل چکے ہیں، خاص طور پر سپریم کورٹ سے جس طرح دو ججوں کی رخصتی ہوئی ہے اور اس کے بعد ان کی مراعات واپس لینے کی جس طرح بحث شروع ہوئی ہے اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ کیسے متحارب گروہ ایک دوسرے کے خلاف خون آشام نظروں سے دیکھ رہے ہوں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کے استعفے کو ان کا اصولی موقف بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی لیکن پھر دوسرا گروپ متحرک ہوا اور انہوں نے جب مستعفی جج کے کرتوتوں سے کچھ پردہ ہٹایا تو اصولی موقف کا چورن بیچنے والوں کو چپ سادھے بغیر چارہ نہ تھا۔ ممکن ہے 8فروری سے قبل اس سے بھی بڑا دھماکہ کیا جائے اور انتخابات کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کی جائے لیکن چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور انتخابات کے حق میں سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ اس کوشش کو بھی ناکام بنانے میں کامیاب رہیں گے اور عوام کے ووٹ کے حق کو یقینی بنائیں گے۔

لاہور بارایسوسی ایشن کے انتخابات کے نتائج سامنے آگئے

نون لیگ سپریم کورٹ کے ججوں کی 2018ء میں کی جانے والی ناانصافی کو کھول کھول کر بیان کرے گی اور جب یہ راگ ختم ہوا کرے گا تو نواز شریف اپنا ترقی کا ایجنڈا پیش کرنا شروع کر دیا کریں گے۔ اس حوالے سے عوام کو لبھانے کے لئے نون لیگ کی زنبیل میں بہت کچھ پڑا ہوا ہے اوروہ اپنے شاندار ماضی کی بنیاد پر عوام کو باور کرواسکتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں ان سے بہتر کوئی اور چوائس نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو کو 300میگاواٹ بجلی مفت فراہم کرنے کا اعلان کرنے کے باوجود ڈاکٹر طاہرالقادری کو اپنا گمشدہ چاچا ماننا پڑا ہے کیونکہ طاہرالقادری عمران خان کے ساتھ ساتھ آصف زرداری کے بھی کزن تھے اور ایک موقع پر مال روڈ پر ان دونوں نے طاہرالقادری کی قیادت میں سٹیج بھی شیئر کیا تھا۔

سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملہ، 5 جوان شہید، 3 دہشتگرد بھی مارے گئے

لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی ہے کہ جسٹس اعجازالاحسن نے چیف جسٹس مقرر ہونے سے نو ماہ قبل کیونکر استعفیٰ دے دیا تو اگر آپ کو آئی ایس پی آر کی جانب سے 9 مئی کے بعد جاری ہونے والی پریس ریلیز یاد ہو تو اس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ فوج اس سانحے کو بھولے گی اور نہ کسی کو بھولنے دے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ نہ صرف ذمہ داروں کو بلکہ ان کے سہولت کاروں کو بھی کیفر کردار تک پہنچائے گی۔ اب دیکھا جائے تو خود فوج کے اندر تو یہ کام ہو چکا، کچھ جرنیل اور بریگیڈیئر لیول کے آفیسرز کا کورٹ مارشل ہو چکا اور انہیں نوکریوں سے برخاست کیا جا چکا جبکہ کچھ پہلے ریٹائرڈ افسران کے تمغے واپس لے لئے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو حاصل مراعات بھی چھین لی گئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب عدلیہ کی باری ہے اور اس بات کو برداشت نہیں کیا جا رہا کہ کرپٹ ہونے کے باوجود وہ کسی ایک سیاسی جماعت کے سہولت کار بنے رہیں اور عوام کو اس کے حق حکمرانی سے محروم رکھیں۔دیکھنا یہ ہے ججوں کے بعد کس کی باری آتی ہے، میڈیا میں بھی ایسی بہت سی کالی بھیڑیں ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف اور تحریک انصاف نظریاتی کےدرمیان معاہدے کا انکشاف، تفصیلات سامنے آگئیں

خیر یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی ذرا صدر علوی کو دیکھیں جو مزے سے دوسروں کے استعفے پکڑتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ اب تک انہیں خود بھی مستعفی ہو جانا چاہئے تھا۔

QOSHE -       تحریک انصاف کی عدالتی شاپنگ - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      تحریک انصاف کی عدالتی شاپنگ

6 1
14.01.2024

پی ٹی آئی کے وکلاء اس لئے کبھی لاہور ہائیکورٹ اور کبھی پشاور ہائیکورٹ میں عدالتی ”شاپنگ“ کرتے پھر رہے ہیں کیونکہ وہاں ابھی تک ان کی باقیات ہیں اور وہ اسی طرح پی ٹی آئی کو ریلیف دیتی نظر آتی ہیں جس طرح کبھی چیف جسٹس ثاقب نثار، چیف جسٹس آصف سعیدی کھوسہ اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور ان کے ہم خیال جج صاحبان دیتے نظر آتے تھے کہ خود سے پی ٹی آئی کے وکلاء کو نقطے سمجھایا کرتے تھے اور نہ بننے والا ریلیف بھی خوشی خوشی دے دیا کرتے تھے۔ پی ٹی آئی کے چیمپین وکیل علی ظفر کی تو اس قدر گڈی چڑھی کہ انہیں سینیٹر بنادیا گیا اور حامد میر ان اکیلے سے پورا پورا پروگرام کرتے پائے جاتے تھے۔ آج جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ان سے قانونی نقاط پر بات کرتے ہیں تو یہ صاحب بغلیں جھانکنا شروع کر دیتے ہیں اور پی ٹی آئی کا گالم گلوچ بریگیڈ سوشل میڈیا پر ٹرولنگ شروع کر کے اپنے حامیوں کو پارٹی کے ساتھ جوڑنے کا جتن کرتا پایا جاتا ہے۔

’اب تحریک انصاف کا نام تو رہے گا لیکن ۔ ۔ ۔‘ سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا موقف بھی آگیا

جسٹس اعجاز الاحسن کے اچانک استعفے سے نون لیگ کو انتخابی بیانیہ مل گیا ہے۔ یہ استعفیٰ نون لیگ کے بیانئے کی تائید ثابت ہوا ہے کہ انصاف کے اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے جج صاحبان ان کے خلاف ناانصافی میں جتے ہوئے تھے اور 2018میں انہیں دھکا دے کر اقتدار سے نکال باہر کیا گیا تھا۔........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play