پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پہلے پولیس کی وردی میں تبدیلی کی گئی،پھر حوالاتوں اور پولیس افسران کے کمروں میں کیمرے لگائے گئے اور اب تھانوں کی اپ گریڈیشن کی گئی ہے۔یہ سب کچھ عوام کی نظر میں پولیس کے محکمے کے تشخص میں بہتری لانے کی ایک کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔پنجاب پولیس کی کالی قمیض اور خاکی پتلون والی وردی کی جگہ موجودہ زیتونی رنگ کی وردی لے لے گی۔ پنجاب پولیس کی موجودہ وردی بھی زیادہ پرانی نہیں اورچند سال قبل پاکستان مسلم لیگ نواز کے گذشتہ دورِ حکومت میں صوبے میں 60 برس سے زیادہ عرصے سے رائج خاکی پتلون اور سیاہ قمیض پر مشتمل یونیفارم کو زیتونی رنگ کی وردی سے تبدیل کر دیا گیا۔تقریباً سات آٹھ سال قبل جب پنجاب پولیس کی وردی تبدیل کرنے کا مرحلہ وار آغاز ہوا تھا اور صوبے کے 36 اضلاع میں اس منصوبے پر عملدرآمد ایک سال میں مکمل ہوا۔مقصد اس وقت بھی یہی تھا کہ عوام کی نظر میں پولیس کے تشخص کو بہتر بنایا جائے۔اب عوام کے خیال میں پولیس کا تشخص کتنا بدلا اس بارے میں شہریوں کا موقف ہے کہ جب تک پولیس اہلکار خود قانون کا احترام نہیں کرتے اس وقت تک یونیفارم کے رنگ تبدیل کرنے،تھانوں میں کیمرے اور ان کی اپ گریڈیشن کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔شہریوں کے مطابق پنجاب پولیس کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں پر اس محکمے کے اہلکار سنگین مقدمات میں ملوث رہے ہیں۔شہریوں کہنا ہے کہ اگر پولیس میں اتنا بگاڑ ہے تو پھر معاشرے میں اس محکمے کے تشخص کو بہتر بنانے کے لیے وردی کا رنگ تبدیل کرنے،کیمرے اور تھانے کی اپ گریڈیشن کی کوشش بے سود ہو گی۔پنجاب پولیس کے حکام کا کہنا ہے کہ پولیس کو عوام دوست بنانے کے لیے پہلے یونیفارم کا رنگ تبدیل کیا گیا،کرپشن اور تھانوں میں تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے تھانوں میں کیمرے لگائے گئے اور اب تھانوں کی اپ گریڈیشن کی گئی ہے۔انسپکٹرجنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور کی جانب سے یہ تمام اقدامات انتہائی خوش آئند اور قابل ستائش ہیں مگرضرورت اس امرکی ہے کہ عوام کا جس پولیس سے پالا پڑتا ہے دیکھا جائے کیا اس کا رویہ ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب ان کے رویے ٹھیک ہونے چاہیں عوام سب سے زیادہ جس بات کا شکوہ کرتے نظر آتی ہے وہ پولیس کی بدتمیزی اور ان کے رویوں کا ہے۔اگر دیکھا جائے گزشتہ عشرے کے دوران وردی کی طاقت کے بہیمانہ استعمال کے واقعات سے ماحول پر لرزہ طاری ہو گیا جو شائد وردی کی طاقت استعمال کرنے والوں کے آقاؤں نے محسوس نہ کیا ہو۔کہتے ہیں، انصاف وہ ہے جو نظر آئے۔

فراڈ کیس، اماراتی شہری اور اہلیہ کو 66 سال قید اور 39 ملین درہم جرمانے کی سزا

ہمارے بد نصیب ملک میں انصاف تو نیست و نامود ہے لیکن اس کا تسلسل نا انصافی اور لاقانونیت کی صورت میں بڑے آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔جس کے نتیجے میں احساس عدم تحفظ اور محرومی تھانوں میں جنم لیتی اور یہیں محروم طبقے کے خلاف ظلم و بربریت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔تاہم ملک بھر میں ایک سیاسی جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑکا معاملہ ہو یا پھر ساہیوال میں مبینہ دہشت گردوں کی آڑ میں خواتین سمیت پانچ افراد کی ہلاکت کا واقعہ ہو یا سانحہ ماڈل ٹاؤن پولیس کی عوام دوستی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔پنجاب پولیس کے سابق سربراہ کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے دور میں پنجاب پولیس کے اہلکاروں کی مجموعی تعداد کا دس سے پندرہ فیصد حصہ اندرون اور بیرون ممالک تربیت حاصل کر رہے تھے تاکہ ان کی استعداد کار کو بڑھایا جا سکے۔اْنھوں نے کہا کہ صوبہ بھر کے تھانوں کے ایس ایچ او صاحبان کے کمرے میں کلوز سرکٹ کیمرے لگائے گئے ان کے دور میں ہی تھانوں کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ میانوالی سے شروع کیا گیا تاکہ پولیس افسران کے عوام کے ساتھ رویے کی نگرانی کی جا سکے۔پنجاب پولیس کے سابق سربراہ عارف نواز کے مطابق انہوں نے صوبے بھر کے 710 تھانوں کے حوالات میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کے احکامات جاری کیے تھے تاکہ دوران حراست ملزمان کی ہلاکتوں کے واقعات کو روکا جا سکے۔امن وامان کی صورت حال پر نظر رکھنے والے لاہور کے ایک سینئر کرائم رپورٹر آصف چوہدری کے مطابق پنجاب پولیس میں سخت مزاج پولیس افسروں کی موجودگی بھی پنجاب پولیس کو عوام دوست پولیس نہیں بنا سکی۔اسی طرح ایک اور سینئر کرائم رپورٹر سید مشرف شاہ کا کہنا ہے کہ پولیس کے محکمے میں بگاڑ اس قدر زیادہ ہے کہ صرف وردیوں کے رنگ تبدیل کرنے،تھانوں میں کیمرے اور ان کی اپ گریڈیشن سے پنجاب پولیس کا رویہ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔انھوں نے کہا کہ ’جہاں پولیس درخواست گزار کو گاہک سمجھنا شروع کر دے تو وہاں بہتری کے آثار کم اور بگاڑ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پولیس میں اصلاحات ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے ہر حکومت نے پولیس کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے حیرت انگیز طور پر سول سروس اور فوج سے پولیس میں جانے والے افسر بھی تھانہ کلچر اور پولیس میں تبدیلی لانے میں ناکام رہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا سول سروس اور فوج سے پولیس میں جانے والے بھی پولیس کے رنگ میں رنگتے گئے۔

بھارتی گلوکارہ کانسرٹ میں شرکت سے چند گھنٹے قبل دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک

آج محکمہ پولیس پر ایک سوالیہ نشان لگا ہوا ہے ہر آنے والی حکومت نے،محکمہ پولیس سے سیاسی مداخلت ختم کرنے اور کالی بھیڑوں کا صفایا کرنے کے دعوے اور اعلانات بہت کیے، لیکن آج تک عملی طور پر کوئی اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔ جمہوریت پسند معاشروں میں پولیس کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، ترقی یافتہ ممالک میں پولیس کے کردار اور پولیس کے اندر پیشہ وارانہ اصلاحات کے لیے باقاعدہ کام کیا جاتا ہے، اس کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور اسے مکمل طور پر غیر سیاسی رکھا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ ان کے فرائض کے راستے میں کوئی سیاسی، مذہبی رہنما یا جماعت اور یا بااثر شخصیت حائل نہ ہوسکے۔ کوئی بھی شہری چاہے وہ کتنے بھی اثررسوخ کا حامل کیوں نہ ہو، اگر قانون شکنی کرے تواس کے خلاف بلا امتیاز کارروائی عمل میں لائی جائے، جو جماعتیں انتخابات میں حصہ لیتی ہیں۔ ان میں متعدد جماعتوں کے انتخابی منشور میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ تھانہ اور پٹواری کلچر کو تبدیل کریں گے۔ اسے کرپشن سے پاک اور عوام دوست بنائیں گے، پولیس کو سیاسی دباؤسے آزاد کرائیں گے۔لیکن جب یہ جماعتیں انتخابات جیت کراقتدار میں آتی ہیں تو سب سے پہلے محکمہ پولیس میں تبادلے اور تقرریاں کی جاتیں ہیں۔پنجاب پولیس میں اصلاحات لانے کی بجائے غیر ضروری تجربات کیے جاتے ہیں۔ سابق صدر جنرل پرویزمشرف کے دور میں پولیس آرڈر 2002 کا نفاذعمل میں لایا گیامگر کسی بھی جمہوری حکومت نے اس کی روح کے مطابق آج تک اس پر عملدرآمد نہیں کیا۔

نواب شاہ ، آصف زرداری کے مقابلے میں جی ڈے اے سمیت 2 امیدوار دستبردار

QOSHE -       تھانوں کی اپ گریڈیشن کیساتھ رویہ بدلنے کی ضرورت ہے - یونس باٹھ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      تھانوں کی اپ گریڈیشن کیساتھ رویہ بدلنے کی ضرورت ہے

5 0
15.01.2024

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پہلے پولیس کی وردی میں تبدیلی کی گئی،پھر حوالاتوں اور پولیس افسران کے کمروں میں کیمرے لگائے گئے اور اب تھانوں کی اپ گریڈیشن کی گئی ہے۔یہ سب کچھ عوام کی نظر میں پولیس کے محکمے کے تشخص میں بہتری لانے کی ایک کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔پنجاب پولیس کی کالی قمیض اور خاکی پتلون والی وردی کی جگہ موجودہ زیتونی رنگ کی وردی لے لے گی۔ پنجاب پولیس کی موجودہ وردی بھی زیادہ پرانی نہیں اورچند سال قبل پاکستان مسلم لیگ نواز کے گذشتہ دورِ حکومت میں صوبے میں 60 برس سے زیادہ عرصے سے رائج خاکی پتلون اور سیاہ قمیض پر مشتمل یونیفارم کو زیتونی رنگ کی وردی سے تبدیل کر دیا گیا۔تقریباً سات آٹھ سال قبل جب پنجاب پولیس کی وردی تبدیل کرنے کا مرحلہ وار آغاز ہوا تھا اور صوبے کے 36 اضلاع میں اس منصوبے پر عملدرآمد ایک سال میں مکمل ہوا۔مقصد اس وقت بھی یہی تھا کہ عوام کی نظر میں پولیس کے تشخص کو بہتر بنایا جائے۔اب عوام کے خیال میں پولیس کا تشخص کتنا بدلا اس بارے میں شہریوں کا موقف ہے کہ جب تک پولیس اہلکار خود قانون کا احترام نہیں کرتے اس وقت تک یونیفارم کے رنگ تبدیل کرنے،تھانوں میں کیمرے اور ان کی اپ گریڈیشن کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔شہریوں کے مطابق پنجاب پولیس کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں پر اس محکمے کے اہلکار سنگین مقدمات میں ملوث رہے ہیں۔شہریوں کہنا ہے کہ اگر پولیس میں اتنا بگاڑ ہے تو پھر معاشرے میں اس محکمے کے تشخص کو بہتر بنانے کے لیے وردی کا رنگ تبدیل کرنے،کیمرے اور تھانے کی اپ گریڈیشن کی کوشش بے سود ہو گی۔پنجاب پولیس کے حکام کا کہنا ہے کہ پولیس کو عوام دوست بنانے کے لیے پہلے یونیفارم کا رنگ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play