ہمارے ملک میں اِس بات پر اتفاقِ رائے ہے کہ ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہے اور یہ زوال ہمہ جہت ہے، بعض دفعہ تو ایسے لگتا ہے کہ ملک میں کوئی حکومت نہیں اور کوئی اخلاقی پابندیاں نہیں، ہر کوئی آزاد ہے، جو کوئی ہمت رکھتا ہے وہ ہر کام کر سکتاہے، پوچھنے والا کوئی نہیں۔ بعض حرکتیں ایسی ہیں جن کا ذکر کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ پچھلے دِنوں کراچی میں مزار ِقائد پر متعین سٹاف کی حرکتوں کو جسے ایک ٹی وی چینل کے اینکر نے بے نقاب کیا ہے اُس کی تفصیل میں نہیں جایا جا سکتا۔ چوری، ڈکیتی، قبضہ مافیا، چور بازاری، ملاوٹ اور امتحانات میں نقل، غرض کس کس جرم کا ذکر کریں اور بازار میں ذرا سی بات پر بدتمیزی، گالیاں اور غنڈہ گردی دیکھ کر آدمی لرز جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں میرٹ اور کردار کی بات کچھ عجیب سی لگتی ہے۔ اِس کے باوجود کچھ لوگ ایسے میں جن کے وجود سے کچھ حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور یہی لوگ معاشرے کا بھرم ہوتے ہیں۔ سرتاج عزیز ایسے ہی انسان تھے جن کے وجود سے عام آدمی کی سوچ میں کچھ ٹھہراؤ آ جاتا ہے۔ افسوس وہ دو ہفتے پہلے یہ دنیا چھوڑ گئے۔ انہوں نے اپنی اننگز اگرچہ خوب کھیلی، وہ 94 سال زندہ رہے لیکن پھر بھی اُن کی کمی قومی سطح پر محسوس ہوتی رہے گی کیونکہ ہم بحیثیت معاشرہ اہلیت اور ایمانداری کے بحران سے دوچار ہیں۔

الیکشن 2024ء، پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر حکومت نہ بنانے کا اعلان کردیا

سرتاج عزیز ہر لحاظ سے پاکستان کا اثاثہ تھے۔ وہ طالب علمی کے زمانے سے پاکستان کے نظریے سے جڑے ہوئے تھے، اُنہوں نے پاکستان میں اعزاز کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر بیوروکریسی میں شامل ہوئے تو ہارورڈ میں بھی پڑھنے کا موقع ملا پھر 1971ء میں اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر میں شامل ہو گئے، وہ اگرچہ بہت اچھی پوزیشن پر کام کر رہے تھے لیکن اپنے دوست جمیل نشتر کے اصرار پر پاکستان آ گئے، یہاں کئی دفعہ وزیر خزانہ رہے، وزیر خارجہ رہے، دو دفعہ سینیٹر منتخب ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) میں اُنہوں نے بہت عرصہ اور بہت سے اہم عہدوں پر کام کیا تاہم میاں نواز شریف نے وعدے کے باوجود انہیں صدر نہ بنایا جس کا گلہ انہوں نے اپنی کتاب "Between Dreams and Realities" میں کیاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ صدارت کے لئے بہت موزوں تھے تاہم مسلم لیگ نے اُن کی خدمات سے بھرپور فائدہ اُٹھایا، کئی دفعہ وزیر بنایا۔ قبائلی علاقے کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے لئے بنائی گئی کمیٹی کا چیئرمین بنایا لیکن حقیقت میں اگر مسلم لیگ نے اُن کو عزت دی اور اُن سے کام لیا تو دراصل یہ مسلم لیگ کے لئے ایک کریڈٹ تھا۔ میری رائے میں مسلم لیگ(ن) کو دوسری تمام پارٹیوں پر اِس معاملے میں برتری حاصل ہے کہ اِس کے پاس قابل اور تجربہ کار افراد کا ایک بڑا پول موجود ہے۔ سرتاج عزیز جیسے کتنے لوگ قومی سطح پر نظر آتے ہیں،جو قابلیت اور تجربے کے علاوہ اِس گئے گزرے دور میں ہر قسم کی آلائشوں سے بلند ہوں جن کا دامن ہر قسم کی بددیانتی سے پاک ہو،اگرچہ اور لوگ بھی ہیں لیکن فوری طور پر مجھے یہاں راجہ محمد ظفرالحق کا نام یاد آ رہا ہے جنہوں نے سرتاج صاحب کی طرح لمبی سیاسی اننگز کھیلی ہے لیکن آج تک کسی نے اُن کے کریکٹر پر انگلی نہیں اُٹھائی،یہ ہمارے معاشرے میں خصوصاً سیاست میں غیرمعمولی بات ہے۔

بھاگیاشری اور سلمان خان کی گہری دوستی کے پیچھے چھپا واقعہ منظرعام پر آگیا

میری سرتاج عزیز مرحوم سے کوئی ذاتی واقفیت تو نہیں رہی لیکن پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سلسلے میں کئی دفعہ اُن سے ملنے کا اتفاق ہوا، دو بار اُن کا انٹرویو کیا، ظاہر ہے وہ ٹو دی پوائنٹ بات کرتے تھے، موضوع پر جو گرفت اُنہیں ہوتی تھی اور انگریزی اور اُردو جس روانی سے بولتے تھے وہ چیز کم لوگوں میں دیکھنے میں آتی ہے۔ ایک دفعہ میں نے اُن کا انٹرویو کیا جس میں انہوں نے زرعی ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا پروگرام بنایا۔ اِس کام کا آغاز پنجاب میں ہوا جو بہت اہم منصوبہ تھا، باقی صوبوں میں ابھی تک شاید یہ نہیں ہو سکا۔ مسلم لیگ کا شاید دوسرا دور تھا، سرتاج عزیز صاحب نے قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیا، میں اُن دنوں پی ٹی وی کے لئے پارلیمنٹ کی کوریج پر مامور تھا، ہمیشہ سے یہ ہوتا آیا ہے کہ نئے بجٹ میں کئی نئے ٹیکس لگائے جاتے تھے اور یوں کئی چیزوں کی قیمتیں فوری طور پر بڑھ جایا کرتی تھیں لیکن سرتاج عزیز صاحب نے پہلی دفعہ بجٹ میں یہ اعلان کیا کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا،ایسا پہلی بار ہو رہا تھا اِس لئے ایوان میں خوب ڈیسک بجائے گئے اورمکّرر مکّرر کی آوازیں آنے لگیں۔سرتاج صاحب نے مسکراتے ہوئے دہرایا کہ اِس مرتبہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا لیکن آپ کو یہ سُن کر حیرانی ہو گی کہ بعد میں پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں وزیر خزانہ حفیظ شیخ صاحب پہلی دفعہ بجٹ میں نیا ٹیکس نہ لگانے کا کریڈٹ لے رہے تھے۔ میں نے انہی دنوں ایک کالم میں صورتحال کی وضاحت کر دی تھی کیونکہ میں اِس معاملے کا عینی شاید تھا۔

زویا ناصر نے اپنی موت سے متعلق افواہوں پر لب کشائی کردی

QOSHE -        سرتاج عزیز۔ایک قومی اثاثہ - اے خالق سرگانہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       سرتاج عزیز۔ایک قومی اثاثہ

9 0
20.01.2024

ہمارے ملک میں اِس بات پر اتفاقِ رائے ہے کہ ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہے اور یہ زوال ہمہ جہت ہے، بعض دفعہ تو ایسے لگتا ہے کہ ملک میں کوئی حکومت نہیں اور کوئی اخلاقی پابندیاں نہیں، ہر کوئی آزاد ہے، جو کوئی ہمت رکھتا ہے وہ ہر کام کر سکتاہے، پوچھنے والا کوئی نہیں۔ بعض حرکتیں ایسی ہیں جن کا ذکر کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ پچھلے دِنوں کراچی میں مزار ِقائد پر متعین سٹاف کی حرکتوں کو جسے ایک ٹی وی چینل کے اینکر نے بے نقاب کیا ہے اُس کی تفصیل میں نہیں جایا جا سکتا۔ چوری، ڈکیتی، قبضہ مافیا، چور بازاری، ملاوٹ اور امتحانات میں نقل، غرض کس کس جرم کا ذکر کریں اور بازار میں ذرا سی بات پر بدتمیزی، گالیاں اور غنڈہ گردی دیکھ کر آدمی لرز جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں میرٹ اور کردار کی بات کچھ عجیب سی لگتی ہے۔ اِس کے باوجود کچھ لوگ ایسے میں جن کے وجود سے کچھ حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور یہی لوگ معاشرے کا بھرم ہوتے ہیں۔ سرتاج عزیز ایسے ہی انسان تھے جن کے وجود سے عام آدمی کی سوچ میں کچھ ٹھہراؤ آ جاتا ہے۔ افسوس وہ دو ہفتے پہلے یہ دنیا چھوڑ گئے۔ انہوں نے اپنی اننگز اگرچہ خوب کھیلی، وہ 94 سال زندہ رہے لیکن پھر بھی اُن کی کمی قومی سطح پر محسوس ہوتی رہے گی کیونکہ ہم بحیثیت معاشرہ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play