دشوار راستے
شہر کا رخ کئے کچھ عرصہ ہو چلا تھا گھر یا آفس تک محدود رہے کسی مشفق کے بلانے پر جانا پڑگیا تو دیکھا کہ شہر میں جیسے انتخابی امیدواروں کے گلابی۔عنابی اور مختلف رنگوں سے مزین اشتہارات کی بہار اتری ہوئی ہے۔ جس طرف دیکھئے پوسٹرز سے سجی گاڑیاں اپنے امیدواروں کی تصاویر آویزاں کئے شہر میں گھوم رہی ہیں اور گاڑیوں میں سوار متوالے جھوم رہے ہیں جیسے ان کے ہاتھ کوئی نعمت غیر مترقبہ لگ گئی ہے گلی گلی آتی جاتی دھول اڑاتی گاڑیاں شہر کے ماحول کو اور بھی گدلا کرتی چیختی چنگھاڑتی بھاگ رہی ہیں جیسے یہ گاڑیاں کسی کے تعاقب میں ہوں لیکن یہ جس کے تعاقب میں ہیں وہ نظر بھی نہیں آرہا تو سوچتا ہوں یہ اپنے اس مقصد کے تعاقب میں ہیں جس کے لئے یہ پانچ سال بعد باہر نکلے ہیں عوام کو اپنے دیدار سے سرفراز کرنے۔ورنہ بڑے لوگوں کے نیاز حاصل کرنا بھی تو جوئے شیرلانے کے مترادف ہے۔ یہ امیدوار ہر اس شخص سے ہاتھ ملاتے دکھائی دے رہے ہیں جن کے پاس یہ ایک لمحہ ٹھہرنا بھی قبول نہیں کرتے نہ جانے کس دل سے یہ ان مفلوک الحالوں کو گوارا کئے ہوئے ہیں اگرچہ عارضی طور پر ہی سہی۔ اس وقت امیدوار عام آدمی کو گلے لگانے کو بھی منظور کئے ہوئے ہے۔ امیدوار کسی خاتون کو اپنی ماں اور کسی کو خالہ سے کم رشتوں پر فائز نہیں کررہے۔آپ تو میرے باپ کی جگہ ہیں۔ آپ تو میرے بھائی ہیں بیٹے ہیں۔امیدوار جس عمر کے شخص کو دیکھتے ہیں اس کے مطابق رشتہ۔بنا کر اسے........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website