یہ کہنا تو ممکن نہیں کہ وہ میری اپنی ماں تھیں، ماں تو وہ استاد محترم بیرسٹر فرخ کریم قریشی ہی کی تھیں،پر میں اُنہیں اپنی دوسری ماں ہی سمجھتا ہوں اور اب وہ 12 جنوری کو حلقہ ہائے زنجیر صبح و شام توڑ کر وسعت گردوں کے چمکیلے نورانی ہالے میں کہیں گم ہو گئیں۔ 40 سال پچھواڑے کا مذکور ہے۔ بیرسٹر فرخ ہم طلبا سے آنکھیں چار کیے بغیر پڑھاتے تھے۔ راستے، رہگزر میں سامنا ہو تو سلام کا جواب کچھ ایسے لٹھ مار ہو کر دیتے کہ و علیکم السلام کا ترجمہ ہمارا ذہن یوں کرتا تھا: ”ٹھیک ہے، لیکن جاؤ اپنے کام سے کام رکھو“ تب بیرسٹر فرخ ڈنڈے سے مسلح سکول ماسٹر کا جدید ایڈیشن تھے جسے یونیورسٹی میں ڈنڈا لانے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ اپنے طرزِ عمل سے ڈنڈے کا کام لیا کرتے تھے۔

ایران نے ملکی ساختہ نئے ڈرونز فوج کے حوالے کردیے

31 مئی 1985ء کو ایل ایل بی کا آخری پرچہ دیتے ہی ذرا دم لے کر اُلٹے پاؤں گھوما ہی تھا کہ سامنے ایک نیا بیرسٹر فرخ کھڑا پایا۔ بولے تو یقین نہ آیا:”ہاں بھئی! کیسے رہے پرچے“؟ زمین آسمان گھومتے دکھائی دیئے پڑے، قبل اس کے کہ منجمد زبان پگھلتی، ہاتھ پکڑ کر دفتر لے گئے، چائے کے ساتھ مکھن زدہ فرنگی بسکٹ بھی کھلائے۔ یا للعجب! یہ کیا دیکھ رہا ہوں بہت بعد میں ہماری پرتیں کھلیں تو استفسار پر بولے: ”دیکھو، استاد کا شاگرد اور افسر کا ماتحت سے وہی تعلق ہونا چاہیے جس کا تقاضا یہ پیشے کرتے ہیں“ درست کہ اپنے تمام استادوں سے آج بھی میں مثل ایلفی چپکا ہوں، چاہے بحر اوقیانوس کے ادھر ڈاکٹر شریف صاحبزادہ ہوں یا جوہر آباد میں پروفیسر عطا اللہ چودھری ہوں، لیکن اصل خوبی ان جوہر شناسوں کی ہے جو حد ادراک عبور کرتے ہی مجھے اپنے دامن الفت میں لے لیتے ہیں اور لئے ہوئے ہیں۔خوش قسمتی اور کیا ہوتی ہے؟

پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار کیا جیتنے کے بعد پارٹی میں شامل ہو سکتے ہیں ؟اہم انکشاف ہو گیا

دو ہی ماہ میں ہمارے تعلقات زقندیں بھر کر بلا جواز کہیں سے کہیں نکل گئے۔ اس سال روزے جولائی اگست میں تھے۔ میں روزہ کھولتا۔ فیصل مسجد سے دو گاڑیاں بدل کر اپرنٹس شپ کے تقاضے پورے کرنے کو راولپنڈی (جسٹس) سردار اسلم مرحوم کے ہاں تین گھنٹے گزارتا۔ 11 بجے واپس سپر جناح کے مرحوم تاج محل ریسٹوران میں داخل ہوتا تو فرخ صاحب ڈنر کے لئے میرا انتظار کر رہے ہوتے۔ سحری سے پہلے مجھے فیصل مسجد چھوڑ کر خود ایف 8 اپنے گھر چلے جاتے۔ یہ معمول تین چار دن فی ہفتہ کا تھا۔ پھر مجھے لیکچر شپ مل گئی۔ تب انہوں نے گفتگو کو یوں وسعت دی:”ہاں میاں، اب شادی کے کیا ارادے ہیں“؟ شرمانے کی عمر تھی، شرما گیا. فرمان ہوا: ”اپنی والدہ لے آؤ جو امی سے مل کر تمہارے لیے لڑکی دیکھیں گی“ اندھے کو دو آنکھیں، لیکن مجھے دلہنیا درکار تھی جو ان آسان شرطوں پر مل رہی تھی کہ تلاش کنندگان ایک نہیں دو مائیں تھیں۔ فرخ صاحب کا ایک گھر راولپنڈی کی مشہور گراٹو جلیبی والا ہے۔ وہاں سے ہم چاروں سر شام نکلتے۔ شادی تو ہونا ہی تھی جو بالآخر ہو گئی۔

نارووال سے تحریک انصاف کے 4 آزاد امیدوار الیکشن سے دستبردار

پھر ایک دن انہوں نے یہ کہہ کر اول اول تو افسردہ کر دیا: ”امی سب کی یونہی مدد کیا کرتی ہیں“ لیکن تفصیل سنی تو افسردگی شادمانی بن گئی۔ہماری وہ مرحومہ ماں برطانوی شہری تھیں۔ کثرت سے آنا جانا تھا۔ ایک دفعہ جہاز میں ساتھ نشست پر بیٹھی خاتون نے انہیں اپنا دکھڑا سنا ڈالا۔ خاتون کی بیٹی برطانیہ میں بیاہی تھیں، لیکن ناچاقی تھی۔ میری یہ دوسری مرحومہ ماں اجنبی خاتون کی اس بیٹی کو بریڈ فورڈ اپنے گھر لے گئیں۔ مدتوں اپنے ساتھ بیٹیوں کی طرح رکھ کر اس کی کفالت کرتی رہیں، تا وقتیکہ مسئلہ حل ہو گیا۔ 12 جنوری کو بیرسٹر فرخ کی والدہ اور مجھ جیسے جانے کتنوں کی وہ جنتی ماں بالآخر زندانی تقدیر ہو کر اپنی ابدی جولان گاہ میں بسیرا کرنے نکل گئیں۔

کرکٹ کرپشن ،پی سی بی نے شکیل شیخ پر تاحیات پابندی عائد کردی

اللہ کے نزدیک اسلام ہی دین ہے۔ یہی دین فطرت ہے فطرت کیا ہے؟ محرم راز خالق کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا کہنا ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ گویا ہر نوزائیدہ اپنے انگ انگ میں، ہر خلیے میں، ہر جین میں اور اپنے ہر ڈی این اے میں فطرت لے کر آتا ہے، فطرت سے ہم آہنگ (aligned) ہوتا ہے۔ پھر ماں باپ اور ماحول اسے آلودہ کر دیتے ہیں، ورنہ انسان کی فطرت (کمپیوٹر کی زبان میں پروگرامنگ) عالمگیر طور پر تمام انسانوں میں ہم آہنگ ہی رہتی ہے۔ مثلاً سورہ النساء کی آیت 36 کا حکم ہے کہ ”اپنے پہلو کے ساتھی (ساتھ نشست پر بیٹھے شخص، صاحب الجنب) سے اچھا سلوک کیا کرو“ تو کیا فرخ صاحب کی والدہ اور میری یہ دوسری ماں جہاز پر ساتھ بیٹھی اجنبی خاتون کی مجبور بیٹی کو یہ آیت پڑھ کر اپنے گھر لے گئی تھیں؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ تو پھر یہ سب کیا ہے؟

پی ٹی آئی والے الیکشن جیت کر ہمارے ساتھ ہونگے، علیم خان کا دعویٰ

بات اتنی سی ہے کہ ان کو ودیعت کردہ فطری پروگرامنگ کو نہ تو ماحول، نہ برطانوی معاشرت کی خود غرضیاں اور نہ پاکستانی افراتفری آلودہ کر سکیں۔ وہ آخری سانس تک اپنی اسی فطرت پر رہیں جو ان کی تعمیر میں مضمر تھی۔ آج میں آنکھیں بند کر کے انہیں ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کرتا ہوں کہ توجہ کسی اور جانب بٹے تو نور میں لت پت وہی مقدس چہرہ حواس پر سایہ فگن ہو کر پھر آسودہ کر دیتا ہے۔ تجلیات سے لدے کسی وجود سے ایک ہی ملاقات ہمیں مدتوں اس کا اسیر رکھتی ہے۔ تفصیل سلسلہ ہائے نقشبندیہ، قادریہ، سہروردیہ اور چشتیہ سے لیجئے۔ میں تو محض اپنی اس دوسری ماں سے جڑی واردات قلبی بیان کر رہا تھا۔ سال چھ ماہ تک ہم چاروں ایک گاڑی میں سر شام نکل کر رات گئے مقصد کو ایک قدم آگے بڑھاتے واپس آتے تو انہیں بھولنا کیسے ممکن ہو؟

سعودی عرب نے عمرہ زائرین کیلئے ماسک کا استعمال لازمی قرار دے دیا

زندگی یہی پڑھتے سنتے گزر گئی کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے۔ وہ ہر کام کر سکتا ہے۔ کسی زمانے میں چند ملحدین میں بھی اٹھنا بیٹھنا رہا۔ ایک دفعہ ایک ملحد نے پوچھا:”یہ بتاؤ کہ کیا تمہارا اللہ کوئی اتنا بڑا۔۔۔اتنا بڑا۔۔۔ اتنا بڑا پتھر بنا سکتا ہے جسے وہ خود بھی نہ اٹھا سکے“ جواب دینے میں ذرا تامل نہ ہوا، عرض کیا:اللہ خود اپنے بارے میں کہتا ہے: ”اللہ ہر شے پر قادر ہے“ اس ملحد کو تو میں نے لاجواب کر دیا، لیکن خود یہ نہیں سمجھ سکا کہ اگر اللہ ہر شے پر قادر ہے تو ہماری مائیں مر کیوں جاتی ہیں۔ اللہ انہیں زندہ رکھنے پر قادر ہے تو میری ان دونوں ماؤں کو اس نے اپنے پاس کیوں بلا لیا۔ میرے، فرخ صاحب اور یقینا آپ سب کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ دُعا کیجیے کہ اللہ کریم ان کی قبر کو نور سے بھر دے، امین۔

QOSHE -          اور اب دوسری ماں کی رحلت - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         اور اب دوسری ماں کی رحلت

16 0
24.01.2024

یہ کہنا تو ممکن نہیں کہ وہ میری اپنی ماں تھیں، ماں تو وہ استاد محترم بیرسٹر فرخ کریم قریشی ہی کی تھیں،پر میں اُنہیں اپنی دوسری ماں ہی سمجھتا ہوں اور اب وہ 12 جنوری کو حلقہ ہائے زنجیر صبح و شام توڑ کر وسعت گردوں کے چمکیلے نورانی ہالے میں کہیں گم ہو گئیں۔ 40 سال پچھواڑے کا مذکور ہے۔ بیرسٹر فرخ ہم طلبا سے آنکھیں چار کیے بغیر پڑھاتے تھے۔ راستے، رہگزر میں سامنا ہو تو سلام کا جواب کچھ ایسے لٹھ مار ہو کر دیتے کہ و علیکم السلام کا ترجمہ ہمارا ذہن یوں کرتا تھا: ”ٹھیک ہے، لیکن جاؤ اپنے کام سے کام رکھو“ تب بیرسٹر فرخ ڈنڈے سے مسلح سکول ماسٹر کا جدید ایڈیشن تھے جسے یونیورسٹی میں ڈنڈا لانے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ اپنے طرزِ عمل سے ڈنڈے کا کام لیا کرتے تھے۔

ایران نے ملکی ساختہ نئے ڈرونز فوج کے حوالے کردیے

31 مئی 1985ء کو ایل ایل بی کا آخری پرچہ دیتے ہی ذرا دم لے کر اُلٹے پاؤں گھوما ہی تھا کہ سامنے ایک نیا بیرسٹر فرخ کھڑا پایا۔ بولے تو یقین نہ آیا:”ہاں بھئی! کیسے رہے پرچے“؟ زمین آسمان گھومتے دکھائی دیئے پڑے، قبل اس کے کہ منجمد زبان پگھلتی، ہاتھ پکڑ کر دفتر لے گئے، چائے کے ساتھ مکھن زدہ فرنگی بسکٹ بھی کھلائے۔ یا للعجب! یہ کیا دیکھ رہا ہوں بہت بعد میں ہماری پرتیں کھلیں تو استفسار پر بولے: ”دیکھو، استاد کا شاگرد اور افسر کا ماتحت سے وہی تعلق ہونا چاہیے جس کا تقاضا یہ پیشے کرتے ہیں“ درست کہ اپنے تمام استادوں سے آج بھی میں مثل ایلفی چپکا ہوں، چاہے بحر اوقیانوس کے ادھر ڈاکٹر شریف صاحبزادہ ہوں یا جوہر آباد میں پروفیسر عطا اللہ چودھری ہوں، لیکن اصل خوبی ان جوہر شناسوں کی ہے جو........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play