ہر طرف سیاست کا بازار گرم ہے اور خواب فروش ملک کے طول و ارض پرعوام کو سپنے بیچ رہے ہیں۔ان خوش نُما خوابوں کی ایک مکمل کہکشاں ہے، اس قدر بہتات ہے کہ بعض اوقات یہ فکرلاحق ہو جاتی ہے کہ اتنے خواب ہم کہاں رکھیں گے؟

آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں تقریباً ڈیڑھ ہفتہ باقی رہ گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ الیکشن 2024ء میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتیں اور اُن کے قائدین کی انتخابی مہم عروج پر پہنچ چکی ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کھڑے ہونے والے تمام امیدوارسر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ان کی انتخابی مہم میں ہر وہ نفسیاتی حربہ استعمال کیا جا رہا ہے جس سے ووٹر کی توجہ حاصل کی جا سکتی ہو۔سوشل میڈیا پر تو جیسے رنگ برنگی ”ریلز“ کی بہار آئی ہو۔ کانٹینٹ تخلیق کرنے والے ”ماہرین“ اپنے اپنے امیدوار کوایسے ایسے انداز میں ”پروجیکٹ“ کر رہے ہیں جیسے وہ پاکستان کے روایتی سیاستدان نہیں،بلکہ کوئی دیو مالائی کردار ہیں۔ظاہر ہے الیکشن سے قبل عوامی رابطہ مہم زور پکڑتی ہے اور اس موسم میں آپ کو وہ سیاستدان بھی ترلے منتیں کرتے نظر آئیں گے جو منتخب ہو کر دوبارہ مُڑ کر کبھی اپنے حلقوں میں نہیں گئے، لیکن اس وقت گلی محلے سے لے کر سیاسی جماعتوں کے صدر دفاتر تک عہدو پیما اور وعدوں، قسموں کی رُت چھائی ہوئی ہے۔

پاکستان کاغزہ جنگ سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیرمقدم

روایتی طور پر الیکشن سے قبل سیاستدانوں کی گھر گھر عوامی رابطہ مہم انتخابات کا حسن ہے، تاہم فیس، بُک، ٹک ٹاک، یو ٹیوب، انسٹاگرام اور ٹویٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے سیاستدانوں کی جانب سے عوام کو ورغلانے کا کام آسان کر دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف ملک کی وہ پہلی سیاسی جماعت تھی جو سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال کے ذریعے نوجوانوں کے دل و دماغ پر حاوی ہوئی۔ الیکشن 2018 ء میں پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا کو بطور موثر ہتھیار استعمال کیا،بلکہ گزشتہ انتخابات سے بہت عرصہ قبل جب عمران خان نے بطور اپوزیشن لیڈر دھرنے شروع کئے تب سے ہی ان کا سوشل میڈیا کی طرف خاص فوکس تھا۔ تاہم آئندہ انتخابات کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جیسی تمام سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کی اہمیت کو تسلیم کر چکی ہیں اور ان جماعتوں کی بھی اس محاذ پر کی جانیوالی دن رات کی محنت نظر آ رہی ہے۔سیاستدانوں کی سوشل میڈیا ٹیمیں چوبیس گھنٹے ”کانٹینٹ کیریشن“ میں مصروف ہیں جن میں سیاستدانوں کو فلموں کے ہیروکی طرح اٹھتا، بیٹھتا، چلتا، پھرتا اور کھاتا پیتا دکھایا جا رہا ہے۔ جاڑے کے موسم کی مناسبت سے کوئی اپنے حلقے میں عوامی مجمعے کے درمیان کشمیری چائے پی رہا ہے، کوئی گرما گرم سموسوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے، جبکہ کوئی نمک پارے اور کوئی آلو کی چپس سے منہ سلونا کرتا نظر آتا ہے۔یہ ”کانٹینٹ“ بھی عوام کی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ”کیریٹ“ کیا جا رہا ہے تا کہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ فلاں سیاست دان عوامی آدمی ہے اور عوام میں ”گھُل مل“ جاتا ہے۔

اسلام آباد پولیس نے الیکشن کیلئے 30 کروڑ روپے مانگ لیے

اگر آپ دُنیا کی ترقی یافتہ اقوام کے رہن سہن اور طور طریقوں کا جائزہ لیں تو آپ با آسانی اس بات کا اندازہ لگا سکتے کہ ہیں کہ وہ کون سی خوبیاں یا خامیاں ہیں جس کے نتیجے میں کوئی قوم دنیا کے نقشے پر ابھری یا پھر کوئی خطہ اپنی عوام کی کن عادات کی وجہ سے باقی دنیا سے پیچھے رہ گیا۔میری ذاتی رائے میں پاکستانیوں کو سب سے زیادہ جس چیز نے مروایا ہے وہ ان کی ”معصومیت“ ہے۔اسی معصومیت کی وجہ سے ہر تھوڑے عرصے کے بعد سیاستدان عوام کو بدھو بنا جاتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر آپ عوامی جلسوں میں سیاستدانوں کی تقریریں سُنیں توآپ کو اندازہ ہو جائیگا کہ یہ کس قدر گمراہ کن ہیں، اتنی ڈھٹائی سے جھوٹ بولنا پڑتا ہے جس کا عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا۔انتخابی جلسوں میں سیاستدان اپنے اپنے شہروں اور حلقوں میں سکول، کالج، یونیورسٹیاں، بنیادی صحت کے مراکز، طبی سہولتیں، ہسپتال، سڑکیں اور انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سمیت دیگر عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے ”ریوڑیوں“ کی طرح بانٹ رہے ہیں۔ظاہر ہے عوام کو بہلانے کا یہ پہلا موقع نہیں ہے، ملکی تاریخ میں جب بھی الیکشن ہوئے عوام سیاستدانوں کے ان بہکاوے میں آتے رہے جنہوں نے جیت کر ان بلند و بانگ اعلانات کو رتی برابر بھی عملی شکل نہیں دی،آپ کسی ایک دن کا اخبارا اٹھا کر تمام مین سٹریم پارٹیوں کے چیدہ چیدہ قائدین کی تقریریں پڑھ لیں جن پر اش اش کرنے والی عوام کی ”معصومیت“ کا اندازہ آپ کو بخوبی ہو جائیگا۔یہ خواب فروش عوام میں اتنی ”فراغدلی“ کے ساتھ خواب بانٹ رہے ہیں،یہ محسوس ہوتا ہے کہ اتنے خواب ہم کہاں رکھیں گے؟؟ بقول امجد اسلام امجد۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (ہفتے) کا دن کیسا رہے گا؟

آنکھوں کے بازار میں تو اب تل دھرنے کی جگہ نہیں

میں اتنے خواب کہاں رکھوں گا

ہاتھوں میں پھولوں کے گجرے

پیروں میں خوشبو کی جھانجھر

شام کا تارا پھر آیا ہے

امیدوں کی دنیا لے کر

اس کا نام گماں رکھوں گا

اتنے خواب کہاں رکھوں گا

آہٹ آہٹ، دستک دستک

پھیلے گی جھنکار وفا کی

تتلی تتلی کوئل کوئل

بکھرے کی مہکار صبا کی

تُجھ کو ساتھ جہاں رکھوں گا

آنکھوں کے بازار میں اب تو تل دھرنے کی جگہ نہیں

میں اتنے خواب کہاں رکھوں گا؟؟؟

انتخابات کے لیے تحریک انصاف کو بیرون ملک سے بڑی رقم موصول ہوئی، نجی ٹی وی کا الزام

بہرحال، پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا واحد راستہ جمہوریت ہے، ووٹرز سے یہی امید ہے کہ وہ اس جمہوری عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور 8 فروری کو اپنے گھروں سے نکل کر اپنی بہترین عقل اور سمجھ کو استعمال کرتے ہوئے اپنا لیڈر چنیں گے۔

QOSHE -          اتنے خواب کہاں رکھوں گا؟ - صبغت اللہ چودھری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         اتنے خواب کہاں رکھوں گا؟

12 0
27.01.2024

ہر طرف سیاست کا بازار گرم ہے اور خواب فروش ملک کے طول و ارض پرعوام کو سپنے بیچ رہے ہیں۔ان خوش نُما خوابوں کی ایک مکمل کہکشاں ہے، اس قدر بہتات ہے کہ بعض اوقات یہ فکرلاحق ہو جاتی ہے کہ اتنے خواب ہم کہاں رکھیں گے؟

آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں تقریباً ڈیڑھ ہفتہ باقی رہ گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ الیکشن 2024ء میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتیں اور اُن کے قائدین کی انتخابی مہم عروج پر پہنچ چکی ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کھڑے ہونے والے تمام امیدوارسر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ان کی انتخابی مہم میں ہر وہ نفسیاتی حربہ استعمال کیا جا رہا ہے جس سے ووٹر کی توجہ حاصل کی جا سکتی ہو۔سوشل میڈیا پر تو جیسے رنگ برنگی ”ریلز“ کی بہار آئی ہو۔ کانٹینٹ تخلیق کرنے والے ”ماہرین“ اپنے اپنے امیدوار کوایسے ایسے انداز میں ”پروجیکٹ“ کر رہے ہیں جیسے وہ پاکستان کے روایتی سیاستدان نہیں،بلکہ کوئی دیو مالائی کردار ہیں۔ظاہر ہے الیکشن سے قبل عوامی رابطہ مہم زور پکڑتی ہے اور اس موسم میں آپ کو وہ سیاستدان بھی ترلے منتیں کرتے نظر آئیں گے جو منتخب ہو کر دوبارہ مُڑ کر کبھی اپنے حلقوں میں نہیں گئے، لیکن اس وقت گلی محلے سے لے کر سیاسی جماعتوں کے صدر دفاتر تک عہدو پیما اور وعدوں، قسموں کی رُت چھائی ہوئی ہے۔

پاکستان کاغزہ جنگ سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیرمقدم

روایتی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play