پی ٹی آئی کے دوست ان دنوں لمبے لمبے سانس بھر کر اداروں کو کوستے پائے جاتے ہیں ۔دیکھا جائے تو اب ان کی قسمت میں ہوکے تے ہاواں ہی رہ گئی ہیں۔ کبھی یہی پی ٹی آئی ان اداروں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتی تھی۔ خرابی تو یہ ہے کہ آج بھی اگر یہ ادارے عمران خان سے بات کرنے کے لئے تیار ہو جائیں تو یہی ادارے بہت اچھے ہو جائیں گے جیسے ان دنوں نون لیگ والوں کے لئے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور ان کے ووٹروں سپورٹروں کی لڑائی اداروں میں بیٹھی شخصیات سے رہتی ہے، اداروں سے نہیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی نے تو اداروں سے بھی لڑ کر دیکھ لیا اور اداروں نے بغیر لڑائی کئے پی ٹی آئی کو شکست دے دی۔ برطانیہ میں بادشاہ کی وفات پر کہا جاتا ہے کہ بادشاہ مرگیا، بادشاہت زندہ باد! اسی طرح ہمارے ہاں بھی یہی وتیرہ بن چکا ہے ، ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص چلا گیا، اس لئے فلاں ادارہ زندہ باد! حالانکہ اہمیت شخصی فیصلوں کی نہیں ادارہ جاتی پالیسی کی ہوتی ہے۔ مگر ہم نے اس اصول کا بھی تیا پانچہ کر رکھا ہے۔ جیسے کہ پی ٹی آئی والوں کا خیال ہے کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ اداروںنے خود کروایا تھا، اب پکڑ دھکڑ بھی انہی کے کہنے پر ہوئی ہے اور آئندہ سزائیں بھی وہی کروائیں گے۔ ایسے میں اگر کہیں کوئی ریلیف مل جاتا ہے تو نون لیگ شور ڈال دیتی ہے کہ اداروں میں ابھی تک پی ٹی آئی کے سہولت کار بیٹھے ہیں جو 9 مئی کے باوجود سہولت کاری کر رہے ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

ادارہ جاتی پالیسی کے خلاف نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت کر کے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی تو ادارے نے عمران خان کی مقبولیت میں ہوا بھر لی اور کیا نون لیگ، کیا پیپلز پارٹی سب کو آگے لگا لیا۔ آج اداروں سے وہ لوگ چلے گئے جنھیں نواز شریف کے خلاف سمجھا جاتا تھا تو وہ لوگ آگئے جنھیں عمران خان کے خلاف سمجھا جا رہا ہے۔ اداروں سے اس لڑائی میں بھٹو نے جان کھوئی تھی تو نواز شریف نے اپنے قریب ترین رشتوں کو کھو دیا، دیکھتے ہیں عمران خان کیا کھوتے ہیں؟

سوال یہ ہے کہ ریاست اور ریاست کے عوام کے ساتھ یہ مذاق شروع کس نے کیا تھا؟ یہ کام ایک سول بیوروکریٹ غلام محمد نے کیا تھا جو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے تھے۔ انہی کے حق میں عدلیہ کا پہلا فیصلہ آیا اور انہی کی کابینہ میں ایوب خان اور اسکندر مرزا شامل تھے۔ لیکن غلام محمد کو گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے بنوایا تھا۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مذاق شروع تو بیوروکریسی نے کیا مگر اب یہ کھیل ان کے ہاتھ سے نکل کر فوج اور عدلیہ کے پاس جا چکا ہے۔ یہ کھیل ختم کرنے کے لئے عوام کو ووٹ کی طاقت کو استعمال کرنا ہوگا۔ اس لئے ووٹ ضرور دیجئے گا۔ ووٹ دینا کس کو ہے؟ یہ اپنے آپ سے پوچھئے!

محکمہ صحت نے 9 سیرپس کے استعمال پر پابندی عائد کردی

نواز شریف نے شہر لاہور کا سیاسی دورہ کیوں کیا؟ کیا میاں صاحب لاہور شہر میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کا خطرہ بھانپ گئے ہیں؟ کیا پی ٹی آئی لاہور میں نون لیگ کو ٹف ٹائم دینے جا رہی ہے؟ ایسا ہے تو نون لیگ شہر لاہور میں کتنی سیٹیں ہارنے جا رہی ہے؟ کیا مریم نواز ملک کی آئندہ وزیر اعظم بننے جا رہی ہیں؟ یہ ہیںوہ سوالات جو 23 جنوری کی دوپہر کو نواز شریف کے لاہور شہر میں اپنے انتخابی حلقے میں نواز شریف کے ہمراہ نکلنے پر سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہیں۔ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ابھی تک لاہور شہر میں رائے عامہ پی ٹی آئی کے حق میں ہے اور نون لیگ لاہور شہر کی 14 میں سے صرف 8 نشستیں جیت پائے گی ۔ ایسے میں اگر نواز شریف اپنے حلقے میں نہ نکلتے اور ان کا استقبال نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ نون لیگ 14 میں سے 6 کی بجائے 7 سیٹیں ہارجائے ۔اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے نواز شریف نے اپنے حلقے کے دورے کا فیصلہ کیا تاکہ پارٹی کی مقبولیت میں کمی کے تاثر کو زائل کر سکیں۔

خود کو سرکاری افسر ظاہر کرکے نوعمر لڑکوں سے بد فعلی کرنیوالا ملزم گرفتار

سوال یہ ہے کہ بلاول چیف منسٹر سندھ کیوں نہیں بنتے؟ اپنا سفر اپنے ہوم گرا_¶نڈ سے کیوں نہیں شروع کرتے؟ وہ اپنے نانا اور والدہ کے نقش قدم پر کیوں چل رہے ہیں؟ وہ نواز شریف کے رستے پر کیوں نہیں چلتے، شہباز شریف اور مریم نواز کے رستے پر کیوں نہیں چلتے؟اگر نواز شریف صوبے کی وزارت اعلیٰ سے اوپر جا سکتے ہیں، شہباز شریف جا سکتے ہیں اور اب مریم نواز بھی ایسا ہی کرنے جا رہی ہیں تو بلاول بھٹو کو کیا مسئلہ ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ بن کر کام کر کے دکھائیں اور پورے پاکستان کو اپنی کارکردگی سے متاثر کرتے ہوئے وفاق میں آئیں اور خالی دعووں سے کام نہ چلائیں کہ میں نے سندھ میں یہ کر دیا، وہ کر دیا۔ پیپلز پارٹی کو خدا جانے کیا گمان ہے کہ بلاول کو وفاق سے نیچے لانے کے لئے تیار ہی نہیں ہو پاتی؟ اس کے پیچھے کیا دانش ہے یا کیا بے وقوفی ہے، ہماری سمجھ سے تو باہرہے۔ جتنے سال بلاول نے وزیر اعظم بننے میں ضائع کئے اس دوران وہ کم از کم تین نہیں تو دو مرتبہ ضرور سندھ کے وزیر اعلیٰ بن سکتے تھے اور اب تک ان کے کریڈٹ پر بہت کچھ ہوتا۔ مگر کیا کہنے ہیں پیپلز پارٹی کی دانش کے کہ شہباز شریف کی حکومت میں بلاول بھٹو کو وزیر خارجہ تو بنوالیا مگر اپنی راجدھانی میں ایک مرتبہ بھی سندھ کا وزیر اعلیٰ نہیں بنایا۔ بلاول کے ہاتھ کی لکیر کو پڑھنا چاہئے کہ آیا اس میں ملک کی بادشاہت لکھی بھی ہے یا نہیں!

ایمازون کے 10 ارب ڈالر کے حصص فروخت کردیےگئے

QOSHE -  بادشاہ مر گیا، بادشاہت زندہ باد! - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 بادشاہ مر گیا، بادشاہت زندہ باد!

9 0
28.01.2024

پی ٹی آئی کے دوست ان دنوں لمبے لمبے سانس بھر کر اداروں کو کوستے پائے جاتے ہیں ۔دیکھا جائے تو اب ان کی قسمت میں ہوکے تے ہاواں ہی رہ گئی ہیں۔ کبھی یہی پی ٹی آئی ان اداروں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتی تھی۔ خرابی تو یہ ہے کہ آج بھی اگر یہ ادارے عمران خان سے بات کرنے کے لئے تیار ہو جائیں تو یہی ادارے بہت اچھے ہو جائیں گے جیسے ان دنوں نون لیگ والوں کے لئے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور ان کے ووٹروں سپورٹروں کی لڑائی اداروں میں بیٹھی شخصیات سے رہتی ہے، اداروں سے نہیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی نے تو اداروں سے بھی لڑ کر دیکھ لیا اور اداروں نے بغیر لڑائی کئے پی ٹی آئی کو شکست دے دی۔ برطانیہ میں بادشاہ کی وفات پر کہا جاتا ہے کہ بادشاہ مرگیا، بادشاہت زندہ باد! اسی طرح ہمارے ہاں بھی یہی وتیرہ بن چکا ہے ، ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص چلا گیا، اس لئے فلاں ادارہ زندہ باد! حالانکہ اہمیت شخصی فیصلوں کی نہیں ادارہ جاتی پالیسی کی ہوتی ہے۔ مگر ہم نے اس اصول کا بھی تیا پانچہ کر رکھا ہے۔ جیسے کہ پی ٹی آئی والوں کا خیال ہے کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ اداروںنے خود کروایا تھا، اب پکڑ دھکڑ بھی انہی کے کہنے پر ہوئی ہے اور آئندہ سزائیں بھی وہی کروائیں گے۔ ایسے میں اگر کہیں کوئی ریلیف مل جاتا ہے تو نون لیگ شور ڈال دیتی ہے کہ اداروں میں ابھی تک پی ٹی آئی کے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play