جب ہم چھوٹے تھے۔ تو ہماری والدہ محترمہ کہا کرتی تھیں، آپ لولے ہو، آپ کو دوسرے لوگ ٹھگ لیتے ہیں۔ ہمیں لولے کے معانی کا تو علم نہیں تھا۔ لیکن سمجھ جاتے تھے کہ ہم میں کسی چیز کی کمی ہے۔ ہم کم عقل یا سادے ہیں جب ہم بھائیوں کی شادیاں ہو گئیں تو پھر والدہ صاحبہ کہا کرتی تھیں کہ آپ لولے ہو آپ کی بیویاں آپ کو اپنے پیچھے لگا لیتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں "تھلے " لگا لیتی ہیں۔ تب تک ہمیں یہ بھی پتا چل چکا تھا کہ لولے یا لولی کا مطلب سادگی ہوتا ہے۔ یعنی ہماری ماں جی کے خیال سے ہم بہت سادے ہیں۔ جب ہم نے پہلی بار لولی پاپ کو دیکھا تو دل للچایا اور ساتھ ہی خیال آیا کہ اصل میں اس لولی پاپ سے ہی لفظ لولے یا لولی نکلا ہوگا۔ یعنی جو بندہ ایک ٹافی پر مر مٹے وہ سادہ ہی تو ہے۔ لولی پاپ پاکستان میں پہنچ کر پاپ سے پاک بن گئی ہوگی کیونکہ یہاں پاک چیزوں کو بھاگ لگتا ہے۔لیکن اب ہم سوچتے ہیں کہ صرف ہم نہیں بلکہ ہماری پوری قوم ہی لولی ہے۔ اسی لیے 76 برس سے اس قوم کو مقتدرہ اور سیاستدان ہر بار لولی پاپ دکھا کر اپنا مطلب نکالتے ہیں۔

انڈیا میں کام کرنے سے پاکستانی فنکاروں کی شہرت بڑھتی ہے، علی خان

ہمیں شروع دن سے لولی پاپ پر لگا دیا گیا تھا۔ بس ہر دور میں لولی پاپ کا رنگ بدلتا ہے۔ کوئی سوشلزم والا سرخ لولی پاپ دکھاتا ہے تو کوئی دائیں بازو والا سبز لولی پاپ کا اشارہ دے دیتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ بھی ہے کہ لولی پاپ بھی نہیں دیتے بس دکھاتے ہیں۔ ورنہ لولی پاپ میں بھی کچھ میٹھا رس تو ہوتا ہی ہے۔ ہماری مقتدرہ، سیاستدانوں، مذہبی راہنماؤں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سمیت تمام طاقتور شخصیات کے ہاتھ میں لولی پاپ ہوتا ہے۔ اور وہ غریبوں کو دکھا کر پیچھے لگا لیتے ہیں۔ اور یہ لولی پاک قوم ہر بار لولی پاپ دیکھ کر للچا جاتی ہے اور اپنا سب کچھ لٹا کر لولی کہلاتی ہے۔ اس قوم کو یہ سب دیکھ سن کر بھی سمجھ نہیں آئی کہ ہمیں لولی پاپ دکھانے والوں نے اسی ملک سے پیسہ اکٹھا کر کے اپنی اولادیں اور جائیدادیں سب ترقی یافتہ ممالک میں رکھی ہوئی ہیں۔ تقریبا" تمام بڑے افسران ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، یورپ اور دوبئی میں جا بستے ہیں۔ اسی طرح سیاستدان بھی پاکستان میں صرف حکومت کرنے آتے ہیں۔ حکومت سے نکلتے ہی بیرون ممالک جا بیٹھتے ہیں۔ اور قوم پھر بھی لولی ہے۔ اس وقت جب پاکستان میں نئے عام انتخابات یا جنرل چناؤ ہو رہا ہے تو کسی بھی سیاسی جماعت یا سیاسی قیادت نے کوئی ڈھنگ کا منشور پیش کیا ہے نہ پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کا کوئی قابل عمل منصوبہ ظاہر کیا ہے بلکہ چننے والوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے رنگ برنگی پھلجھڑیاں بکھیر رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے یا پھر یہ کہہ رہے ہیں کہ ہماری بات ہو گئی ہے۔ اس بار تو سیاستدان عوامی رابطہ مہم کی بھی زحمت نہیں کر رہے۔ بلکہ عوام سے فاصلہ رکھے ہوئے ہیں۔ لندن سے آئی سرکار اپنے حلقہ انتخاب میں عوامی ریلی نکالتے ہیں لیکن خود بڑی رعونیت کے ساتھ عوام سے دور فاصلے پر بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھے رہتے ہیں۔ کیونکہ یا تو ان کو عوام پر اعتبار نہیں یا پھر عوام کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر سیاستدان اٹھتے بیٹھتے کہتا ہے کہ پاکستان کو ہم بچائیں گے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ بچانا کس سے ہے۔

ہمیں کراچی میں امن قائم کرنے کی سزا مل رہی ہے: مصطفیٰ کمال

یا پاکستان کو خطرے میں کس نے ڈالا ہے؟ اگر کوئی سیاستدان عوامی اجتماع میں جاتا بھی ہے تو کوئی مستقبل کا منصوبہ پیش کرنے یا نظام کی بہتری کا پروگرام بتانے کی بجائے کوئی 300 یونٹ مفت بجلی کا لولی پاک دکھا رہا ہے۔ تو کوئی خیرات کا لولی پاک دکھاتا ہے۔ جیسے بجلی اور خزانہ ان سیاستدانوں کے باپ کی جاگیر ہے۔ عوام بھی خوشی سے نڈھال ہیں کہ اب ہمیں مفت بجلی اور شاید مفت گھر ملیں گے۔ حالانکہ اس دنیا میں کوئی بھی چیز مفت میں نہیں ملتی ہے۔ آپ جتنا کماتے ہو، جتنی پیدوار کرتے ہو اتنا ہی آپ کا حق ہوتا ہے۔ سیاستدانوں کا کام ملکی پیداوار بڑھانا اور اس کی درست تقسیم کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ انہیں ملکی نظام کو بہتر بنانے اور ملکی نظام چلانے کے بندوبست کے حوالے سے اپنا اپنا منشور پیش کرنا ہوتا ہے اور حکومت ملنے کی صورت میں اپنے منشور پر مکمل عملدرآمد کرنا ہوتا ہے۔ نظام کو ٹھیک کرنے کی جتنی ضرورت ہمارے ملک میں ہے اتنی شاید ہی کسی اور ملک کو ضرورت ہوگی۔ ہمارے ہاں عام آدمی (جو 80 فیصد سے زائد ہیں) کی کہیں کوئی شنوائی ہے نہ کوئی پرسان حال ہے۔ ہم روزانہ کی بنیاد پر کچہریوں کے باہر، ڈی سیز دفاتر کے دروازوں پر، محکمہ مال، سوئی گیس کے دفاتر کے پاس اور تمام دوسرے ریاستی دفاتر کے باہر عام لوگوں کو خوار ہوتے دیکھتے ہیں۔ کہیں بھی کوئی کام بغیر رشوت کے نہیں ہوتا۔

مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی آرٹیکل ون ایف کے خاتمے پر متفق

افسر اپنی مرضی کے مطابق جب چاہیں دفاتر میں آتے ہیں۔ ججز جب چاہتے ہیں عدالت سے اٹھ جاتے ہیں۔ سیشن عدالت سے سپریم کورٹ تک تمام عدالتوں کو سیاسی مقدمات میں الجھا کر رکھا گیا ہے اور عام عوام انصاف کے لیے دہائیوں سے دھکے کھا رہے ہیں۔ تمام سرکاری ہسپتالوں کی حالت جیلوں سے بھی بدتر ہے۔ تمام سرکاری افسر اور ملازمین جو عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہیں لیتے ہیں۔ وہ عوام کے اوپر فرعون بنے بیٹھے ہیں۔ تمام محکموں کے افسران کو سرکاری گاڑیاں دی جاتی ہیں جن کا بے جا اور ذاتی کاموں میں اندھا دھند استعمال ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ اس ملک کے مالک اسٹیبلشمنٹ یا سرکاری افسر ہیں اور عوام آج بھی غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ سیاستدانوں کی ساری دوڑ مقتدرہ کا لاڈلہ بننے اور مقتدرہ کی خوشنودی حاصل کرنے پر لگی ہوئی ہے۔ عوام کو بھی اپنی حالت بدلنے کا خیال ہے نہ انہیں یقین کہ وہ بھی کچھ کر سکتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے بار بار کے بدلتے بیانیوں اور بار بار عوام کو دئیے گئے دھوکوں نے جہاں ملک کو دیوالیہ کر رکھا ہے وہی عوام کو ذہنی مفلوج بنا کر دو وقت کی روٹی تک محدود کر رکھا ہے۔ ان حالات میں نہ تو قوم کو حقیقی سیاسی قیادت مل سکتی ہے۔ نہ عوام کی حالت بدل سکتی ہے۔ اس لیے سب لولی پاک کی طرف لپک رہے ہیں۔ سیاستدانوں کو مقتدرہ لولی پاپ دیتی ہے اور سیاستدان عوام کو لولی پاک دکھاتے ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE -        لولی پاک قوم!! - مختار چودھری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       لولی پاک قوم!!

14 1
30.01.2024

جب ہم چھوٹے تھے۔ تو ہماری والدہ محترمہ کہا کرتی تھیں، آپ لولے ہو، آپ کو دوسرے لوگ ٹھگ لیتے ہیں۔ ہمیں لولے کے معانی کا تو علم نہیں تھا۔ لیکن سمجھ جاتے تھے کہ ہم میں کسی چیز کی کمی ہے۔ ہم کم عقل یا سادے ہیں جب ہم بھائیوں کی شادیاں ہو گئیں تو پھر والدہ صاحبہ کہا کرتی تھیں کہ آپ لولے ہو آپ کی بیویاں آپ کو اپنے پیچھے لگا لیتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں "تھلے " لگا لیتی ہیں۔ تب تک ہمیں یہ بھی پتا چل چکا تھا کہ لولے یا لولی کا مطلب سادگی ہوتا ہے۔ یعنی ہماری ماں جی کے خیال سے ہم بہت سادے ہیں۔ جب ہم نے پہلی بار لولی پاپ کو دیکھا تو دل للچایا اور ساتھ ہی خیال آیا کہ اصل میں اس لولی پاپ سے ہی لفظ لولے یا لولی نکلا ہوگا۔ یعنی جو بندہ ایک ٹافی پر مر مٹے وہ سادہ ہی تو ہے۔ لولی پاپ پاکستان میں پہنچ کر پاپ سے پاک بن گئی ہوگی کیونکہ یہاں پاک چیزوں کو بھاگ لگتا ہے۔لیکن اب ہم سوچتے ہیں کہ صرف ہم نہیں بلکہ ہماری پوری قوم ہی لولی ہے۔ اسی لیے 76 برس سے اس قوم کو مقتدرہ اور سیاستدان ہر بار لولی پاپ دکھا کر اپنا مطلب نکالتے ہیں۔

انڈیا میں کام کرنے سے پاکستانی فنکاروں کی شہرت بڑھتی ہے، علی خان

ہمیں شروع دن سے لولی پاپ پر لگا دیا گیا تھا۔ بس ہر دور میں لولی پاپ کا رنگ بدلتا ہے۔ کوئی سوشلزم والا سرخ لولی پاپ دکھاتا ہے تو کوئی دائیں بازو والا سبز لولی پاپ کا اشارہ دے دیتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ بھی ہے کہ لولی پاپ بھی نہیں دیتے بس دکھاتے ہیں۔ ورنہ لولی پاپ میں بھی کچھ میٹھا رس تو ہوتا ہی ہے۔ ہماری مقتدرہ، سیاستدانوں، مذہبی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play