ریڈیو ڈرامے کے پچھتر سال۔ یہ کتاب محمد جاوید پاشا کی ہے۔ پاشا صاحب کا تعلق ایک علمی، ادبی اور فلمی گھرانے سے ہے۔وہ نامور گیت نگاراور کہانی نویس ناظم پانی پتی کے فرزند ہیں۔ جاوید پاشا گزشتہ چھبیس سال سے ریڈیو پر ڈرامے اور فیجر لکھ رہے ہیں۔ انہیں ایک سو پچاس اردو اور پنجابی ڈرامے، فیچر اور دستاویزی پروگرام لکھنے اور نشر کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ریڈ یو پاکستان پر انہیں بطور ڈرامہ نگار Out Standing کیٹگری میں شمار کیا جاتا ہے۔ پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل محمد طاہر حسن لکھتے ہیں کہ جاوید پاشا کاسب سے اہم کارنامہ ریڈیو ڈراموں پر کتاب لکھنا ہے۔ اسٹیشن ڈائر یکٹر لاہور مہراظہر علی لکھتے ہیں کہ پاشا صاحب گزشتہ پچیس سال سے ریڈیو ڈرامے سے وابستہ ہیں،انہوں نے بطور خاص قومی اور ملی موضوعات، تحریک پاکستان، مقبوضہ کشمیر کے حالات و واقعات کو موضوع بنایا۔جاوید پاشا اپنی کتاب کے پہلے باب میں ریڈیو کی ایجاد کے حوالے سے لکھتے ہیں ہوا کی لہروں پر پیغام بھیجنے کا تجربہ یوں تو مار کونی نے 1895ء میں کیا تھا، لیکن میں بحری جہازوں کو پیغام رسانی کا کام 1897ء میں شروع ہو گیا تھا۔تاہم عالمی سطح پر دو ملکوں کے مابین آواز کا رابطہ بذریعہ ریڈیو 1899ء میں برطانیہ اور فرانس کے مابین ہوا تھا۔ 1920ء میں پہلی مرتبہ یڈیو پر اشتہار چلایا گیا۔1932ء میں پہلا ریڈیو اسٹیشن بی بی سی وجود میں آیا۔1937ء میں مارکونی کا انتقال ہوگیا۔اس دن پوری دنیا میں تمام ریڈیو اسٹیشن سے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ 1957ء میں پہلا ریڈیو سیٹلائٹ خلا میں چھوڑا گیا۔ 1992ء میں ایف ایم چینلز کی ابتداء ہوئی اور 1998ء میں ڈیجیٹل براڈ کاسٹنگ شروع ہوئی۔ اس طرح ریڈیو 116 سال کی عمر کوپہنچ چکا ہے۔ جاوید پاشا ایک جگہ لکھتے ہیں کہ 1935ء میں دوسری جنگ عظیم کے آثار نمودار ہونا شروع ہوگئے تھے۔اس جنگ کے خوف سے ہندوستان میں ریڈیو اسٹیشن قائم کیا گیا، یہاں ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کا وہی مقصد تھا جو جولائی 1800ء میں کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کی بنیاد رکھنے کا تھا، یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی کے انتظامی امور میں زبان کی رکاوٹ کو دور کیا جائے۔ برصغیر پاک وہند میں ڈاک کا نظام، ریلوے کی ابتداء اور ریڈیو کی بنیاد بھی انہی مقاصد کی تکمیل کے لئے رکھی گئی تھی۔ہندوستان میں ریل کی پٹڑی بچھانے اور ٹرین چلانے کی ابتداء 1853ء میں کی گئی۔

علی ظفر نےپی ایس ایل سیزن 9 کے ترانے کا نام بتا دیا

دراصل انگریز حکمرانوں نے محسوس کر لیا تھا کہ برصغیر میں بغاوت کے آثار پیدا ہونے لگے ہیں،چنانچہ ضروری تھا کہ پولیس اور انگریز فوج کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جہاں بلوہ یا بغاوت ہو، فوری طور پر پہنچایا جا سکے۔قیام پاکستان کے وقت ہمارے حصے میں تین ریڈیو اسٹیشن آئے، ان میں ریڈیو لاہور،ریڈیو پشاور اور ریڈیو ڈھاکہ شامل تھے۔ اس وقت وطن عزیز میں 36ریڈیو اسٹیشن کام کررہے ہیں۔1998ء میں ایف ایم اسٹیشن بھی شروع ہوگئے، جسے ایک خوشگوار اضافہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ریڈیو سننے والوں کو یاد ہوگا کسی زمانے میں ریڈیو پر”جمہور دی آواز“ بہت مشہور پروگرام ہوا کرتا تھا جس میں مرزا سلطان بیگ ”نظام دین“ کے نام سے اور عبداللطیف مسافر ”چودھری صاحب“ کے نام سے عوامی پروگرام پیش کیا کرتے تھے۔پہلے پہل اس پروگرام کا نام ”دیہاتی بھائیوں کا پروگرام“ تھا، بعد میں اسے”جمہور دی آواز“ میں تبدیل کر دیا گیا۔ آج کل یہ پروگرام سوہنی دھرتی کے نام خالد عباس ڈار، مہتاب دین پیش کرتے ہیں۔ان کے ساتھ اکثر خورشید علی یا د اوریگر میزبان بھی ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ مرزا سلطان بیگ ایک ہمہ صفت کے حامل انسان تھے۔ جگت بازی میں ان کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا تھا حالانکہ وہ اس کام کے پیشہ ور نہ تھے۔ اے حمید ایک جگہ لکھتے ہیں کہ مرزا سلطان بیگ کا تعلق بیگ قبیلے سے تھا جوایک باوقار اوربہادر قبیلہ شمار جاتا تھا۔نظام دین پنجاب کے انسائیکلوپیڈیا تھے۔ کوئی گاؤں،کوئی شہر ایسا نہ تھا جہاں کے رہنے والے نظام دین کو نہ جانتے ہوں۔اپنی بھاری آواز میں السلام علیکم کہتے اور پھر کسی کے روکے بھی نہ رکتے، اس پروگرام کے آخر میں پاکستان زندہ باد کہہ کر پروگرام کا اختتام کرتے۔انہوں نے 44سال تک ریڈیو پاکستان لاہور پر اپنی شگفتہ اور پُرمغز گفتگو سے سامعین کو محظوظ کیے رکھا۔ریڈیو اسٹیشن لاہور کا ایک اور معروف پروگرام اشفاق احمد کا ”تلقین شاہ“ بھی تھا۔ اشفاق احمد ایک بڑا نام ہے،وہ اپنی ذات میں مکمل ادارہ تھے۔ انہوں نے ایک ادیب، افسانہ نگار،ڈرامہ نگار، صدا کار اور دانشور کی حیثیت سے ریڈیو،ٹیلی ویژن اور ادبی دنیا پر نصف صدی تک حکمرانی کی۔ان کی تحریروں کا موضوع معاشرہ اور معاشرے کے انوکھے اور دلچسپ کردار، اخلاقیات،وطن سے محبت اور نیکی کا پرچار رہا، تاہم اس مقصد کے لئے انہوں جو اسلوب اور طرز تحریر اور طرزِ گفتگو اپنایا وہ بالکل نیا، مختلف اور دلچسپ تھا۔

خاتون کو شوہر سے جھگڑے کے بعد 2کم عمر لڑکوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا مہنگا پڑ گیا

بالخصوص آخری عمر میں ان کا پروگرام ”زاویہ“ایک جدید سکالر کی دانشوارانہ گفتگو کا حسین گلدستہ تھا۔اشفاق احمد کی بطور براڈ کاسٹر خدمات سب سے زیادہ قابل تحسین ہیں۔ انہیں ریڈیو سے خاص لگاؤ تھا۔ریڈیو کے لئے لکھنے کا فن جو اشفاق احمد کے پاس تھا وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آسکا،ایک ”تلقین شاہ“کی مثال ہی کافی ہے۔ 46سال سے زیادہ عرصہ پر محیط یہ فیچر پروگرام ریڈیو پاکستان لاہور سے ہر ہفتے باقاعدگی سے نشر ہوا کرتاتھا اور ان کی وفات تک جاری رہا۔اس پروگرام کو وہ نہ صرف لکھتے بلکہ اس کے اصل ہیرو، روح رواں اور مرکزی کردار ”تلقین شاہ“کا کردار بھی وہ خود ادا کرتے رہے، جبکہ ”ہدایت اللہ“کا کردار نذیر حسینی،سلیمان کا کردار ایوب خاں ادا کیا کرتے تھے۔اس پروگرام کو دنیا کا ایک شاہکار پروگرام تسلیم کیا جاتا ہے۔اس کی مقبولیت کے پیش نظر اس پروگرام کو گینز بک آف ورلڈ میں بھی شامل کیا گیا ہے۔مو ہنی حمید (آپا شمیم) کی آواز تو میری بھی پسندید ہ تھی، ایک بینڈ کا ریڈیو بھی ہمارے گھر آگیا۔ گیتوں بھری کہانی، نظام دین اور تلقین شاہ کے پروگرام باقاعدگی سے تمام گھر والے بہت شوق سے سنتے تھے، لیکن شام ڈھلے ریڈیوکو میں اپنے سینے پر رکھ کر آپا شمیم کی زبانی کہانی سن کرسو جایا کرتا تھا،بہت دل کرتا تھا کہ میں ان سے بالمشافہ مل بھی سکوں لیکن قسمت نے بارآوری نہ کی۔ بہرکیف بچپن کے وہ تمام پروگرام جنہیں میں شوق سے سنا کرتا تھا اب بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔بہرکیف جاوید پاشا کی اس کتاب میں ریڈیو ڈرامے کی اقسام،مضمون نگاری سے ڈرامہ نگاری تک،ریڈیو ڈرامہ لکھنے کا فن اور اس کے لوازمات،پنجابی ڈرامے،ڈرامے کی ریکارڈنگ،آواز سے آہنگ تک،ریڈیو ڈرامے کا مستقبل بھی شامل ہیں۔اس کتاب کا انتساب انہوں نے اپنے والد ناظم پانی، روحانی استاد اشفاق احمد اور حقیقی استاد ایم شریف کے نام کیا ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس سٹیشن پر دہشتگردوں کا حملہ، 10 اہلکار شہید

QOSHE -           ریڈیو ڈرامے کے پچھتر سال  - اسلم لودھی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

          ریڈیو ڈرامے کے پچھتر سال 

8 0
05.02.2024

ریڈیو ڈرامے کے پچھتر سال۔ یہ کتاب محمد جاوید پاشا کی ہے۔ پاشا صاحب کا تعلق ایک علمی، ادبی اور فلمی گھرانے سے ہے۔وہ نامور گیت نگاراور کہانی نویس ناظم پانی پتی کے فرزند ہیں۔ جاوید پاشا گزشتہ چھبیس سال سے ریڈیو پر ڈرامے اور فیجر لکھ رہے ہیں۔ انہیں ایک سو پچاس اردو اور پنجابی ڈرامے، فیچر اور دستاویزی پروگرام لکھنے اور نشر کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ریڈ یو پاکستان پر انہیں بطور ڈرامہ نگار Out Standing کیٹگری میں شمار کیا جاتا ہے۔ پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل محمد طاہر حسن لکھتے ہیں کہ جاوید پاشا کاسب سے اہم کارنامہ ریڈیو ڈراموں پر کتاب لکھنا ہے۔ اسٹیشن ڈائر یکٹر لاہور مہراظہر علی لکھتے ہیں کہ پاشا صاحب گزشتہ پچیس سال سے ریڈیو ڈرامے سے وابستہ ہیں،انہوں نے بطور خاص قومی اور ملی موضوعات، تحریک پاکستان، مقبوضہ کشمیر کے حالات و واقعات کو موضوع بنایا۔جاوید پاشا اپنی کتاب کے پہلے باب میں ریڈیو کی ایجاد کے حوالے سے لکھتے ہیں ہوا کی لہروں پر پیغام بھیجنے کا تجربہ یوں تو مار کونی نے 1895ء میں کیا تھا، لیکن میں بحری جہازوں کو پیغام رسانی کا کام 1897ء میں شروع ہو گیا تھا۔تاہم عالمی سطح پر دو ملکوں کے مابین آواز کا رابطہ بذریعہ ریڈیو 1899ء میں برطانیہ اور فرانس کے مابین ہوا تھا۔ 1920ء میں پہلی مرتبہ یڈیو پر اشتہار چلایا گیا۔1932ء میں پہلا ریڈیو اسٹیشن بی بی سی وجود میں آیا۔1937ء میں مارکونی کا انتقال ہوگیا۔اس دن پوری دنیا میں تمام ریڈیو اسٹیشن سے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ 1957ء میں پہلا ریڈیو سیٹلائٹ خلا میں چھوڑا گیا۔ 1992ء میں ایف ایم چینلز کی ابتداء ہوئی اور 1998ء میں ڈیجیٹل براڈ کاسٹنگ شروع ہوئی۔ اس طرح ریڈیو 116 سال کی عمر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play