میرے پاکستانیو السلام علیکم، جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ اگلی جمعرات یعنی 8 فروری 2024 ء کو پاکستان بھر میں جنرل انتخابات ہو رہے ہیں۔ کہنے کو یہ جنرل انتخابات ہی ہیں، لیکن ان کو عام انتخابات نہ سمجھا جائے جس میں عام آدمی اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے کہ ملکی نظام کا بندوبست کرنے یا ملک کا کاروبار چلانے کے لئے میں اپنے حلقے سے فلاں امیدوار کو اختیار دے رہا ہوں۔ ویسے تو پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ جن کو ہم ملکی کاروبار چلانے کے لئے منتخب کرتے رہے وہ لوگ اپنے ذاتی کاروبار بڑھاتے رہے، لیکن اب پاکستانیوں کو کافی حد تک سمجھ آ چکی ہے کہ کون کون سی جماعتیں یا آزاد امیدوار ایسے ہیں جن کا مقصد صرف ذاتی کاروبار ہے اور انہوں نے سیاست کو بھی منافع بخش کاروبار بنا رکھا ہے۔

نواز شریف کی این اے 130 سے سیٹ غیر محفوظ ہے, صحافی منصور علی خان کا دعویٰ

جمہوریت کو مضبوط کرنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ ہر بندہ اپنی رائے کا استعمال کرے اور ریاست تسلسل کے ساتھ وقت مقررہ پر عوام کو اظہار رائے کا موقع فراہم کرنے کے لئے انتخابات کا انعقاد کرے۔ ہمارے ملک جیسے ممالک جہاں آج بھی اڑھائی کروڑ سے زیادہ بچے تعلیم سے مرحوم ہیں اور ووٹرز میں بھی نصف تعداد ناخواندہ کی ہے، میں جمہوریت سے پورا استفادہ نہیں کیا جا سکتا، لیکن بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے اور جمہوریت کی پختگی بھی جمہوریت کے تسلسل سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ بعض قوتوں نے ہمارے ملک میں جمہوریت کو مضبوط نہیں ہونے دیا، ان قوتوں کو یا تو عوام پر اعتماد نہیں یا پھر وہ عوام کو اس قابل ہی نہیں سمجھتی ہیں۔ دنیا کو اور دنیا کی تاریخ کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہی ممالک کامیابی سے چل رہے ہیں اور ترقی کر رہے ہیں جہاں جمہوریت مضبوط ہے اور ملک چلانے کا اختیار عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کی راہ میں ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت بھی رکاوٹ ہیں۔ ملک میں تمام بڑی سیاسی جماعتیں خاندانی لمیٹڈ کمپنیوں کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ جماعتوں کے بانیان ہی جماعتوں پر قبضہ کر لیتے ہیں اور تاحیات سربراہ بن جاتے ہیں اور پھر ان کے بعد ان کی اولاد مالک بن جاتی ہے۔ اس طرح یہ سیاسی کی بجائے وراثتی جماعتوں کا روپ دھار چکی ہیں، لیکن ہم امید رکھتے ہیں کہ جیسے جیسے عوام کے شعور میں اضافہ ہوتا جائے گا اور سیاسی کارکنوں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوگا تو وہ وقت دور نہیں جب سیاسی قیادت کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانا پڑے گی۔ جوں جوں جمہوریت مضبوط ہو گی سیاسی جماعتیں شخصیات کے چنگل سے نکل کر نظریات پر چلنا شروع ہو جائیں گی۔

برطانوی بادشاہ چارلس سوئم موڈی مرض میں مبتلا ہوگئے

اس وقت پاکستان گوناگوں مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ اور پچھلے دو سال میں عوام پر پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس سمیت تمام اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر کے اتنا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ کہ عوام دو وقت کی روٹی سے بھی مرحوم ہو چکے ہیں۔ نجی کاروبار تباہ ہو گئے ہیں۔ صنعت کا پہیہ جام ہو چکا اور بیروزگاری عروج پر پہنچ چکی ہے۔ اوپر سے تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت ان مسائل کا حل بتانے کی بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے اور عوام کو نت نئے خواب دکھا کر ووٹ ہتھیانے پر لگی ہے۔ اب عوام کو کیا کرنا چاہئے؟ سب سے پہلے یہ کرنا ہے کہ اپنی رائے کا اظہار ہر صورت میں کریں، اپنے ووٹ کے استعمال کو قومی فریضہ سمجھیں اور اپنے ووٹ کی طاقت کا بھرپور استعمال کر کے تمام جمہوریت مخالف قوتوں کے ہتھکنڈوں کو ناکام بنا دیں۔ ووٹ دیتے وقت اپنی نسلوں کے مستقبل اور پاکستان کے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھیں،جو لوگ آپ کا ووٹ خریدنا چاہتے ہیں اور آپ کو پیسوں کا لالچ دے رہے ہیں ذرا خود سوچیں کہ وہ ووٹ خرید کر کیوں جیتنا چاہتے ہیں؟ اگر وہ عوام اور ملک کے لیے سیاست کرتے ہیں تو انہیں ووٹ خریدنے کی ضرورت کیوں کر پیش آ سکتی ہے؟ وہ ووٹ اس لئے خرید رہے ہیں کہ الیکشن میں کامیاب ہو کر پھر وہ آپ کے معمولی قیمت پر خریدے گئے ووٹ کی بھاری قیمت وصول کریں گے اور اس کا نقصان ملک اور آپ عوام کو ہی پہنچائیں گے۔ اس لئے ہمیں کسی بھی حال میں اپنے ووٹ کا سودا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کوئی غریب بہت ہی مجبور ہے وہ پیسے لے کر بھی ووٹ ڈالتے وقت اپنے ضمیر کے مطابق جسے چاہے ووٹ ڈال سکتا ہے۔

جماعت اسلامی نے الیکشن کے حوالے سے نیا ترانہ جاری کر دیا

آپ جس جماعت کو پسند کرتے ہیں جس امیدوار پر آپ کو اعتماد ہے صرف اسی کو ووٹ دیں، مگر ووٹ کا استعمال فرض سمجھ کر کریں۔ ایک اور بات قابل غور ہے۔ ہمارے ہاں عام لوگوں کا ذہن اس طرح بنا دیا جاتا ہے کہ وہ جس کی مخالفت کرتے ہیں اس کی کسی اچھی بات پر غور ہی نہیں کرتے اور جس کے ساتھ چلتے ہیں اس کی خامیوں کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ کوئی بھی انسان غلطیوں سے مبرا نہیں ہوتا، ووٹ دینے سے پہلے سیاسی جماعتوں کی قیادت اور اپنے حلقے کے امیدوار کے کردار پر پورا غور کریں، سوچیں اپنی ایمانداری کو سامنے رکھ کر تقابل کریں کہ کس کا منشور یا کس کا کردار دوسرے سے بہتر ہے۔ کس نے کتنی بار حکومت کی ہے اور اس میں کتنی کرپشن کی ہے۔ کس نے ملک کی بہتری کی کوشش کی ہے۔ کون ہے جو زیادہ سچ اور کم جھوٹ بولتا ہے۔ کون ہے جو پاکستان میں رہتا ہے اور کون ہیں جو اپنے مسکن، اپنی اولادیں اور جائیدادیں بیرون ملک رکھتے ہیں اور حکومت کرنے پاکستان آتے ہیں۔ ان تمام باتوں کو سوچ کر اپنے ضمیر کے مطابق قومی مفاد میں اپنے حق رائے دہی کا درست استعمال کریں۔اِس وقت پاکستان میں ایک جماعت کو عملی طور پر انتخابات سے باہر رکھا گیا ہے، لیکن بظاہر عوام کی اکثریت اسی جماعت سے ہمدردی رکھتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمدردی رکھنے والے کس طرح تمام مشکلات کا مقابلہ کر کے اپنی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا لیڈر اہل ہے تو پھر اس کو اہل ثابت کرنے کے لئے اپنا ووٹ لازمی استعمال کریں۔ ورنہ آپ کی خالی ہمدردی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE -         قوم کے نام انتخابات سے پہلے آخری پیغام - مختار چودھری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        قوم کے نام انتخابات سے پہلے آخری پیغام

8 37
06.02.2024

میرے پاکستانیو السلام علیکم، جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ اگلی جمعرات یعنی 8 فروری 2024 ء کو پاکستان بھر میں جنرل انتخابات ہو رہے ہیں۔ کہنے کو یہ جنرل انتخابات ہی ہیں، لیکن ان کو عام انتخابات نہ سمجھا جائے جس میں عام آدمی اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے کہ ملکی نظام کا بندوبست کرنے یا ملک کا کاروبار چلانے کے لئے میں اپنے حلقے سے فلاں امیدوار کو اختیار دے رہا ہوں۔ ویسے تو پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ جن کو ہم ملکی کاروبار چلانے کے لئے منتخب کرتے رہے وہ لوگ اپنے ذاتی کاروبار بڑھاتے رہے، لیکن اب پاکستانیوں کو کافی حد تک سمجھ آ چکی ہے کہ کون کون سی جماعتیں یا آزاد امیدوار ایسے ہیں جن کا مقصد صرف ذاتی کاروبار ہے اور انہوں نے سیاست کو بھی منافع بخش کاروبار بنا رکھا ہے۔

نواز شریف کی این اے 130 سے سیٹ غیر محفوظ ہے, صحافی منصور علی خان کا دعویٰ

جمہوریت کو مضبوط کرنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ ہر بندہ اپنی رائے کا استعمال کرے اور ریاست تسلسل کے ساتھ وقت مقررہ پر عوام کو اظہار رائے کا موقع فراہم کرنے کے لئے انتخابات کا انعقاد کرے۔ ہمارے ملک جیسے ممالک جہاں آج بھی اڑھائی کروڑ سے زیادہ بچے تعلیم سے مرحوم ہیں اور ووٹرز میں بھی نصف تعداد ناخواندہ کی ہے، میں جمہوریت سے پورا استفادہ نہیں کیا جا سکتا، لیکن بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے اور جمہوریت کی پختگی بھی جمہوریت کے تسلسل سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ بعض قوتوں نے ہمارے ملک میں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play