ایک طرف جموں کشمیر کے پہاڑوں اور آزاد کشمیر کی بالائی وادیوں پر برف جمی ہے اس پر ہوائیں ان کی یخ بستگیاں یہاں تک لے آئی ہیں۔ ایک تو موسم ہی سرد ہے دوسرے پہاڑوں نے بھی ہواؤں سے نہ جانے کیا ساز باز کرلی ہے۔ موسم سرد ہے لیکن خشک بھی تھاگویا۔ ماحول میں خنکی اور خشکی تھی اور سیاسی ماحول بھی سرد مہری سے اٹا ہوا ہے اس سردی میں امیدواروں کے مزاج کی خشکی بھی شامل ہوچکی ہے حالانکہ سیاست تو کسی اصول ضابطے اور قاعدے کی پابند ہوتی ہے جس میں امیدوار اپنے انتخاب کیلئے لوگوں کو قائل اور مائل تو کرتے ہیں لیکن یہ کیا کہ آپ دوسروں کو قابل تعزیر ہی سمجھ لیں۔ شائد ہمارے سیاستدان اصول سیاست سے نابلد ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہر کوئی دوسرے کو عوام کے سامنے کسی معاشرتی اور اجرتی قاتل کے طور پر پیش کررہا ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ سیاستدان اپنے انتخابی جلسوں میں اپنی خدمات گنوائیں نہ کہ دوسروں پر لفظی محاذ کھول دیں یہاں یہی چلن رہا ہے کہ آپ اقتدار کے لیے تو دوسروں کا ہر ستم بھلا کر ایک ہو جائیں لیکن انتخابی موسم کے آتے ہی اپنے اسی اتحادی کو الزامات کی گہری کھائیوں میں پھینک دینا چاہیں اور چاہیں کہ صرف آپ ہی ”چندا ماموں“ ہوں اور باقی انگارے ہیں جنکی لو ایک فریب ہے جو سب کا مستقبل جلا کر راکھ کردے گی اور آپ ستارے ہیں جنکی روشنی آپکا آنے والا کل چمکا دے گی۔ ہم تاریخ میں پڑی سیاسی شخصیات کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے بلند و بانگ دعووں کی بجائے عمل کو ترجیح دی اور اپنے عملی اقدامات سے نہ صرف ملک کی خدمت کی بلکہ تاریخ میں اہم جگہ پائی لیکن پاکستان میں یہ چلن عام ہو چلا ہے کہ کیجئے کچھ بھی نہ بس شور مچائیے اتنا شور مچائیے کہ عوام کی آوازیں اس شور میں دب کررہ جائیں۔

حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق خبر کو حقائق کے مفافی قرار دے دیا

دیکھئے صاحب! پاکستان کب آزاد ہوا؟ اور سوچئیے کہ ان سے کم سالوں میں اگر چائنہ نے ترقی کرکے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکے؟چائنہ کے نہ صرف حکمران بلکہ عوام نے بھی جب اپنے ملک کے حالات بدلنا چاہے تو وہاں کے حکمرانوں نے کرپشن کے معاملے میں کسی اپنے پرائے میں تمیز نہ رکھی جو بھی ملوث پایا گیا اسے عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑا وہاں حکمرانوں نے ایسی پالیسیاں وضع کیں کہ جن سے چائنہ دفاعی معاشی بلکہ ہر حوالے سے ناقابل تسخیر بن چکا ہے چائنہ تو اس قدر ترقی کرتا جاتا ہے کہ بعض اوقات اسے اپنی ترقی کے آگے بند باندھنا پڑتا ہے تاکہ غیر ضروری ترقی اسکی معاشرتی پالیسیوں کو نقصان نہ دے ایسے ہی وہاں کے عوام نے بھی سادہ غذائیں کھانا شروع کردیں تاکہ حالات بہتر ہوں۔دکھلاوے سے گریز کیا اور اپنے ملک کی ترقی کے لیے اپنے حکمرانوں کا بھرپور ساتھ دیا ایسا نہیں ہوا کہ سالہاسال سے ایک ہی سیاستدان سے دھوکے کھانے والے عوام انتخابات آتے ہی پھر اسکی لچھے دار باتوں میں آکر اپنے ووٹ کی دولت اسکی جھولی میں ڈال کر اسے مالامال کردیں اور خود اسکے حالات ویسے ہی خستہ اور شکستہ رہیں۔ جہاں ہمارے سیاستدان قصور وار ہیں وہاں ہم عوام بھی برابر کے ذمہ دار ہیں ہم نے بھی ان سیاستدانوں کو خود ہی مواقع فراہم کئے ہیں کہ وہ ہم پر مسلط ہو کر ہمیں لوٹ کر چلتے بنیں ہمارے حکمرانوں کا ماضی اور کردار تو رہا ایک طرف ہم عوام نے بھی کبھی اپنا وہ کردار ادا نہ کیا جسکی پاکستان کو ضرورت ہے۔ہم ایک سیاستدان کو پانچ سال کے لئے منتخب کرکے اسکی کج روی پر آئندہ انتخابات میں ووٹ نہ دینے کا اعادہ کرتے ہیں اور پانچ سال بعد پھر اسکے جھانسے میں آکر اس کو لائق بھروسہ سمجھ لیتے ہیں یہی سلسلہ اب تک چلا آرہا ہے۔

حامد میر نے سابق صدر آصف زرداری کے حوالےسے تہلکہ خیز قصہ سنا دیا

جرمنی میں ایک ڈرائیونگ لائسنس کا ملنا بڑی ڈگری ملنے کے مترادف ہے لوگ ڈرائیونگ لائسنس ملنے پر مبارکبادیں دیتے ہیں ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے باقاعدہ ایک تعلیم ہے جسے حاصل کرکے کوئی ڈرائیونگ لائسنس لینے کے اہل ہوتا ہے اور ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے بعد اسکا استعمال بھی بڑی احتیاط سے کرنا پڑتا ہے لائسنس کے کچھ پوائنٹ ہوتے ہیں مثلاً گاڑی چلانے میں کسی غلطی پر ایک پوائنٹ ختم کردیا جاتا ہے اور اگر سارے پوائینٹ ختم ہوگئے تو سمجھئے لائنسنس ختم۔ جرمنی میں ایک ڈرائیونگ لائسنس کے لئے اس قدر جدوجہد یا محنت کرنا پڑتی ہے جتنی ہماری یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنے اور تعلیمی ڈگری لینے میں ہو۔

7 فروری شروع ہوتے ہی ملک بھر میں انتخابی مہم کا وقت ختم ، ووٹنگ ڈے تک سیاسی سرگرمیوں پر پابندی

ایسے ہی دنیا کے دوسرے ممالک ہیں جنہوں نے ترقی کی بنیاد محنت امانت دیانت اور صداقت کے اصولوں پر رکھی ہے اور ہم ہنوز ان ہی راستوں میں بھٹک رہے ہیں جہاں ہم پچاس سال پہلے تھے ہمارا امیدوار آج بھی اپنے ووٹرز سے وہی وعدے کررہا ہے جو وعدے آج سے پچاس سال قبل کئے جاتے تھے یعنی پچاس سالوں سے انتخابات کے موسم میں امیدواروں کے وعدے ہی نہیں بدلے مثلاً۔میں علاقے کی تقدیر بدل دوں گا۔نوجوانوں کو نوکریاں ملیں گی۔سڑکیں بنائیں گے۔فیکٹریاں لگائیں گے۔ سکولز۔ ہسپتال بنائیں گے وغیرہ وغیرہ جب پچاس سالوں سے لے کر آج تک انتخابی نعرے اور وعدے ہی نہیں بدلے تو پھر یہ روائیتی سیاستدان ملک کو کیسے بدلیں گے؟ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ تک ان سیاستدانوں کے جلسوں میں ڈھولک کی تھاپ پر دھمال ڈال رہا ہوتا ہے۔صرف انتخابی موسم میں نکلنے والے سیاستدانوں کو ہم پھولوں کے ہار پہنا رہے ہوتے ہیں حالانکہ پانچ سال ہم انکے دیدار سے محروم رہتے ہیں بالفرض انکی کہیں زیارت ہو بھی جائے تو اتنی کہ وہ اپنی گاڑی میں بیٹھے جاتے دکھائی دیتے ہیں اور ہم انکا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ نہ ہمارے سیاستدان ہی بدلے ہیں اور نہ ہی ہم۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حالات بھی نہیں بدل رہے حالات کے بدلنے کیلئے تو لازم ہے کہ ہمارے معاملات بھی بدلیں وگرنہ وہی بے ڈھنگی چال ہے جو ہم ہمیشہ سے چل رہے ہیں ایسے تو ہم راستوں میں کھو کر رہ جائیں گے اور منزل ہم سے پہلے ہی بہت دور ہوچکی ہے منزل تو کیا ہم نشان منزل تک نہیں پا سکے ہمارے راستوں میں ایسے موڑ آچکے ہیں جہاں سے گزرنا محال ہوا جاتا ہے اور یہ وہ موڑ ہیں جن سے آگے ہماری منزلوں کے نشان ملتے ہیں بس ابھی انتخابات کے اس موڑ سے ہمیں ذرا احتیاط سے گزرنا ہوگا۔

ڈسکہ میں الیکشن میں آزاد امیدوار چودھری توحید خالد سندھو کی دھوم

QOSHE -          چندا ماموں  - ندیم اختر ندیم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         چندا ماموں 

16 0
07.02.2024

ایک طرف جموں کشمیر کے پہاڑوں اور آزاد کشمیر کی بالائی وادیوں پر برف جمی ہے اس پر ہوائیں ان کی یخ بستگیاں یہاں تک لے آئی ہیں۔ ایک تو موسم ہی سرد ہے دوسرے پہاڑوں نے بھی ہواؤں سے نہ جانے کیا ساز باز کرلی ہے۔ موسم سرد ہے لیکن خشک بھی تھاگویا۔ ماحول میں خنکی اور خشکی تھی اور سیاسی ماحول بھی سرد مہری سے اٹا ہوا ہے اس سردی میں امیدواروں کے مزاج کی خشکی بھی شامل ہوچکی ہے حالانکہ سیاست تو کسی اصول ضابطے اور قاعدے کی پابند ہوتی ہے جس میں امیدوار اپنے انتخاب کیلئے لوگوں کو قائل اور مائل تو کرتے ہیں لیکن یہ کیا کہ آپ دوسروں کو قابل تعزیر ہی سمجھ لیں۔ شائد ہمارے سیاستدان اصول سیاست سے نابلد ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہر کوئی دوسرے کو عوام کے سامنے کسی معاشرتی اور اجرتی قاتل کے طور پر پیش کررہا ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ سیاستدان اپنے انتخابی جلسوں میں اپنی خدمات گنوائیں نہ کہ دوسروں پر لفظی محاذ کھول دیں یہاں یہی چلن رہا ہے کہ آپ اقتدار کے لیے تو دوسروں کا ہر ستم بھلا کر ایک ہو جائیں لیکن انتخابی موسم کے آتے ہی اپنے اسی اتحادی کو الزامات کی گہری کھائیوں میں پھینک دینا چاہیں اور چاہیں کہ صرف آپ ہی ”چندا ماموں“ ہوں اور باقی انگارے ہیں جنکی لو ایک فریب ہے جو سب کا مستقبل جلا کر راکھ کردے گی اور آپ ستارے ہیں جنکی روشنی آپکا آنے والا کل چمکا دے گی۔ ہم تاریخ میں پڑی سیاسی شخصیات کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے بلند و بانگ دعووں کی بجائے عمل کو ترجیح دی اور اپنے عملی اقدامات سے نہ صرف ملک کی خدمت کی بلکہ تاریخ میں اہم جگہ پائی لیکن پاکستان میں یہ چلن عام........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play