میں نے اپنی زندگی میں وطن عزیز سمیت کئی ممالک کے الیکشن کو بطور صحافی سٹڈی کیا ملائشیا کے گزشتہ الیکشن جب ڈاکٹر مہاتیر محمد وزیراعظم منتخب ہوئے تھے، میں وہیں تھا، تمام سیاستدان اپنے اپنے ووٹر سپورٹرز کے ساتھ انتہائی پرامن ریلیاں جلسے جلوس کرتے اور انہیں اپنے منشور سے آ گاہ کرتے اور گزشتہ ادوار میں اپنی کارکردگی بیان کرتے ان کی تقریروں کا ترجمہ جتنا میں سمجھ سکا اس میں کہیں بھی مد مقابل جماعتوں کے لیے گالم گلوچ الزامات تضحیک یا نفرت نہیں تھی کسی امیدوار کو اللہ رسول اور مذہب کا نام استعمال کر کے ووٹ مانگتے نہیں دیکھا ان کے عوام اس قدر باشعور ہیں کہ وہ اپنے لیڈروں کے جلسوں میں حد ادب میں رہتے ہوئے سوال پوچھتے ہیں اور ان کے لیڈر جواب دیتے ہیں اگر کوئی سیاست دان اپنی تقریر کو اسلامی ٹچ دیتا نظر آ ئے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اس کے پاس اپنی کارکردگی بیان کرنے کو کچھ نہیں اگر کوئی مخالف جماعت کے لیے نفرت یا جھوٹے پراپیگنڈے کا سہارا لیتا ہے نظر آ ئے تو اسی کے حامی اسے خاموش کروا دیتے نہ ووٹوں کی خرید و فروخت ہوتی نہ امیدوار سے پیسے مانگ مانگ کر اسے زچ کیا جاتا نہ وہاں کے نوجوان الیکشن کے دنوں کا فائدہ اٹھاتے کسی ٹورنامنٹ کا اہتمام کرتے ہیں نہ کوئی اپنی بیٹی کی شادی کے قصے سناتا نظر آ تا ہے نہ کوئی بجلی گیس کے میٹر کی ڈیمانڈ کرتا نہ کوئی اپنی نالی سڑک بنوانے کے عوض ووٹ دینے کا وعدہ کرتا ہے بس یہی وجہ ہے کہ آ ج وہ فرسٹ ورلڈ کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں

این اے 130 ، نوازشریف کامیاب ہوئے یا یاسمین راشد؟ سب سے بڑا غیر سرکاری نتیجہ آ گیا

بطور صحافی میں نے سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال کے گزشتہ الیکشن بھی سٹڈی کیے ان کے عوام ہم سے بھی زیادہ غریب ہیں لیکن کوئی اپنے ووٹ اور ضمیر کا سودا کرتا نظر نہیں آ یا اس کا نتیجہ دیکھ لیں کہ آج بنگلہ دیش نیپال یہاں تک کہ معاشی تباہی کے باوجود سری لنکا بھی ہم سے بہتر ہے

ہمارے علماء کرام ہر نماز کے بعد حضرت عمر فاروق جیسا حکمران مانگتے ہیں لیکن میرے رب کا فیصلہ ہے کہ جیسی قوم ہوگی ان پر ویسے ہی حکمران مسلط کر دیے جائیں گے میرے رب کا فیصلہ بالکل درست ہے ہم نے ماضی کی بربادی سے کچھ نہیں سیکھا آج بھی ہماری سیا سی جماعتیں الیکشن ایک جنگ کی طرح لڑ تی ہیں ہمارے لیڈر ہماری سیاسی تربیت کے ذمہ دار ہیں آ پ خود ہی ملاحظہ فرما لیں کہ ہمارے لیڈروں نے عوام کے رویے میں کس قدر نفرت بھردی ہے کہ انہیں اپنے مد مقابل ہر جماعت کا لیڈر کرپٹ، چور، ڈاکو لٹیرا نظر آ تا ہے دوسری جماعت کا مطالعہ کریں تو وہ مذہب کو اپنے مفادات کے لیے بے در یغ استعمال کر رہے تھے الیکشن کمپین کے دوران میں نے خود سنا ہے کہ ایک مذہبی سیاسی جماعت کے امیدوار اپنی تقریر میں فرما رہے تھے کہ مجھے ووٹ دینا ایسا ہی ہے جیسے آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ووٹ دے دیا اور اگر آ پ مجھے ووٹ نہیں دیں گے تو قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوجواب دہ ہوں گے(استغفر اللہ)اللہ کریم ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے

اسد قیصر جیتے یا ہارے؟ مکمل غیر سرکاری نتیجہ آ گیا

خدارا بس کر جائیے میں پاکستانی عوام سے ہاتھ جوڑ کر گزارش کرتا ہوں کہ اپنے رویے کو بدل لیں اپنے آ پ کو اتنا سستا نہ بیچیں، اگر آپ پانچ ہزار روپے کے بدلے میں اپنا ووٹ بیچ دیتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی آ پ نے سیاست دان پر تنقید کا حق بھی فروخت کر دیا ہے پھر آپ کو بالکل زیب نہیں دیتا کہ آ پ ان کی کارکردگی پر کوئی سوال اٹھائیں آپ کا ووٹ اور آپ کا ضمیر خریدنے کے بعد وہ اگلے پانچ سال آ پ سے جو بھی سلوک کریں خاموشی سے برداشت کرتے جائیں اگر وہ آپ کی گلی ،نالی یا سڑک بنا دیتے ہیں تو یہ ان کا شکریہ!

میں گزشتہ ایک ماہ الیکشن کمپین میں رہا ہوں یقین کریں جو سلوک پاکستان کا غریب ہمارے ساتھ کرتا رہا ہے وہ قابل بیان نہیں اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ ہمارا ساتھ دینے کے بدلے میں روزانہ خرچے کے ساتھ ہمارے کپڑے گاڑی گھڑی یہاں تک کہ ہمارا گھر بھی چھین لیں ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ کسی بھی سیاست دان کا ساتھ دینے کے لیے سب سے پہلے دفتر بنائے جہاں اسے کم از کم بیس ہزار روزانہ چائے پانی کے لیے ادا کیے جائیں اور پھر اس کے لیے مزید مراعات کا انتظام بھی امیدوار کے ذمے ہو میں دعا گو ہوں کہ اللہ میری قوم کو ہدایت دے یا پاکستان سے جمہوریت کا خاتمہ کر دے تاکہ ہر پانچ سال بعد جس اذیت سے سیاستدان گزرتے ہیں انہیں چھٹکارا حاصل ہو سکے

ٹیکسلا این اے 54؛پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ امیدوار عذرا مسعود کو واضح برتری، چودھری نثار کا تیسرا نمبر

میرے پاکستانیو! خدا کے لیے بس کر دو، اگر آپ کو عمر فاروق کا انتظار ہے تو پھر اپنی زندگی کو بھی صحابہ کرام کی زندگی کی طرح گزارنے کی کوشش کریں اگر آپ سیاست دانوں سے عزت اور ترقی کے خواہاں ہیں تو برائے کرم چند ٹکوں کی خاطر اپنے آپ کو بیچنا بند کر دیں اگر آ پ بحیثیت مسلمان اللہ کریم کی رضا پر توکل کرتے ہیں تو میں گارنٹی دیتا ہوں کہ پھر عمر فاروق سے مماثلت رکھنے والے حکمران بھی آ ئیں گے اور ہم ایک ہجوم سے قوم بھی بن جائیں گے جس سے وطن عزیز کی ترقی کی راہیں ہموار ہو جائیں گی

این اے 182 کا بھی مکمل غیر حتمی و غیر سرکاری نتیجہ آ گیا

آ پ نے اپنے ووٹ سے اپنا لیڈر چنا ہے اب اس کا ساتھ دیں انہیں بار بار ان کے کیے ہوئے وعدے یاد دلائیں مجھے یقین ہے کہ جن لوگوں نے ان کی کمپین کے لیے خرچہ وصول نہیں کیا ہوگا وہ دوسروں کی نسبت زیادہ معتبر مقام پر ہوں گے میں نئے منتخب اراکین کو خلوص دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان سے گزارش کرتا ہوں کہ برائے کرم اپنا دن رات ایک کر دیں

ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے بھرپور کوشش کریں عوام مہنگائی اور مشکلات کی چکی میں پس چکے ہیں، ان کی زندگی میں خوشیاں لانے اور معیشت کی بحالی کے لیے پہلے دن سے ہی سرگرم ہو جائیں اللہ کریم آپ کا حامی و ناصر ہو۔

این اے 81 گوجرانوالہ ، ن لیگ یا پی ٹی آئی کا آزاد امیدوار کامیاب؟ غیر حتمی نتیجہ آ گیا

QOSHE -    باخدا ہم اسی قابل ہیں  - سہیل بشیر منج
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

   باخدا ہم اسی قابل ہیں 

11 0
09.02.2024

میں نے اپنی زندگی میں وطن عزیز سمیت کئی ممالک کے الیکشن کو بطور صحافی سٹڈی کیا ملائشیا کے گزشتہ الیکشن جب ڈاکٹر مہاتیر محمد وزیراعظم منتخب ہوئے تھے، میں وہیں تھا، تمام سیاستدان اپنے اپنے ووٹر سپورٹرز کے ساتھ انتہائی پرامن ریلیاں جلسے جلوس کرتے اور انہیں اپنے منشور سے آ گاہ کرتے اور گزشتہ ادوار میں اپنی کارکردگی بیان کرتے ان کی تقریروں کا ترجمہ جتنا میں سمجھ سکا اس میں کہیں بھی مد مقابل جماعتوں کے لیے گالم گلوچ الزامات تضحیک یا نفرت نہیں تھی کسی امیدوار کو اللہ رسول اور مذہب کا نام استعمال کر کے ووٹ مانگتے نہیں دیکھا ان کے عوام اس قدر باشعور ہیں کہ وہ اپنے لیڈروں کے جلسوں میں حد ادب میں رہتے ہوئے سوال پوچھتے ہیں اور ان کے لیڈر جواب دیتے ہیں اگر کوئی سیاست دان اپنی تقریر کو اسلامی ٹچ دیتا نظر آ ئے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اس کے پاس اپنی کارکردگی بیان کرنے کو کچھ نہیں اگر کوئی مخالف جماعت کے لیے نفرت یا جھوٹے پراپیگنڈے کا سہارا لیتا ہے نظر آ ئے تو اسی کے حامی اسے خاموش کروا دیتے نہ ووٹوں کی خرید و فروخت ہوتی نہ امیدوار سے پیسے مانگ مانگ کر اسے زچ کیا جاتا نہ وہاں کے نوجوان الیکشن کے دنوں کا فائدہ اٹھاتے کسی ٹورنامنٹ کا اہتمام کرتے ہیں نہ کوئی اپنی بیٹی کی شادی کے قصے سناتا نظر آ تا ہے نہ کوئی بجلی گیس کے میٹر کی ڈیمانڈ کرتا نہ کوئی اپنی نالی سڑک بنوانے کے عوض ووٹ دینے کا وعدہ کرتا ہے بس یہی وجہ ہے کہ آ ج وہ فرسٹ ورلڈ کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play