نون لیگ پنجاب میں اکثریتی پارٹی بن گئی ہے۔ اسی طرح مرکز میں بھی آزاد امیدواروں کے بعد وہ سب سے زیادہ سیٹیں لینے والی پارٹی ہے اس لئے اس کا پہلا حق بنتا ہے کہ وہ حکومت سازی کے لئے دیگر سیاسی جماعتوں سے بات چیت کرے۔ اگر وہ انہیں اپنا حکومتی حلیف بننے پر قائل کر لیتی ہے تو حکومت بنانا اس کا حق ہے ، وگرنہ دوسری بڑی سیاسی جماعت کو موقع ملنا چاہئے ، چنانچہ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہونی چاہئے۔

2018 میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت بنانے کے لئے جہانگیر ترین کے جہاز کو رکشے کی طرح استعمال کیا گیا تھا کیونکہ پنجاب میں اگر نون لیگ کو حکومت بنانے دی جاتی تو مرکز میں پی ٹی آئی کے لئے چلنا اسی طرح مشکل ہو جاتا جس طرح 1988 میں پیپلز پارٹی کو پنجاب میں نون لیگ کی حکومت کی وجہ سے چلنا مشکل ہو گیا تھا کیونکہ صوبہ پنجاب کی پاکستان کی سیاست میں ایک خاص اہمیت ہے اور یہاں اکثریت حاصل کرنے کا مطلب آدھے پاکستان کی حکومت حاصل کرلینا ہوتا ہے۔ چنانچہ جو پارٹی تن تنہا آدھے پاکستان پر حکومت بنانے کی اہلیت رکھتی ہو، مرکز میں حکومت سازی کا پہلاحق اسی کا بنتا ہے جو کہ نون لیگ کو حاصل ہو گیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے مکمل نتائج کا اعلان کردیا

اب فرض کرتے ہیں کہ نون لیگ کو مرکز میں حکومت بنانے کی پہلی کوشش کا حق نہیں ملتا اور وہ پنجاب میں اپنی حکومت بنا کر بیٹھ جاتی ہے تو مرکزمیں جس کی بھی حکومت بنے گی ، وہ پنجاب کے تعاون کے بغیر کسی طور بھی ڈیلیورنہیں کر سکے گا ۔یہاں یہ بات بھی واضح ہے کہ نون لیگ نے انتخابات سے قبل ہی ایم کیو ایم، مولانا فضل الرحمٰن اور باپ پارٹی کے ساتھ بعد از انتخابات تعاون کے لئے مذاکرات مکمل کر لئے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور آزاد اراکین مل بھی جائیں تو ان کے لئے سندھ، پنجاب اور کے پی میں عملداری قائم کرنا آسان نہ ہو گا۔

کراچی میں بھتہ خوروں کو مسلط نہیں ہونے دیں گے، حافظ نعیم الرحمان کا قانونی جنگ لڑنے کا اعلان

اب لمحہ بھر کے لئے پیچھے مڑ کر دیکھئے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اگر پچھلے سال مئی میں انتخابات ہو جاتے تو کیا ہوتا جب عمران خان نے ضمنی انتخابات میں 8 نشستیں اکیلے جیت لی تھیں؟ اس کے پس پردہ اسباب کے حوالے سے ہونے والی باتوں پر یقین کر لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ ابھی تک پرانی اسٹیبلیشمنٹ کے ہتھکنڈوں کا توڑ کر رہی ہے۔ حتیٰ کہ اب بھی انتخابات کے روز پولنگ کے بعد سوشل میڈیا کھلا تو پہلے دو گھنٹوں میں پی ٹی آئی کو 150 سیٹوں پر برتری کا دعویٰ کردیا گیا ۔اگر یہ سوشل میڈیا سارا دن کھلا رہتا تو پی ٹی آئی آدھا ہندوستان بھی فتح کر چکی ہوتی ۔

زرتاج گل نے انتخاب جیتنے کے بعد کس کے حق میں بیان دیا؟

بدقسمتی سے الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھے نام نہاد تجزیہ کاروں کا کردار انتہائی مایوس کن رہا جو قوم کو جوڑنے کی بجائے تقسیم کرنے کے جتن کرتے رہے۔ ایک وقت تھا جب انتخابات کے نتائج صرف پاکستان ٹیلی وژن پر نشر ہوتے تھے جہاں نتائج کے ساتھ ساتھ انٹرٹینمنٹ بھی چلتی رہتی تھی، معروف شوبز شخصیات علیحدہ سے ان نشریات کا حصہ بنا کرتی تھیں جس سے ماحول بوجھل نہیں ہوتا تھا اور عوام کو خبر ہی نہ ہوتی تھی کہ کب پورے نتائج ان کے سامنے پیش کر دیئے گئے۔ اب ایک یہ وقت ہے کہ کرنٹ افیئرز پر مشتمل ٹی وی چینلوں کی بھرمار لگی ہوئی ہے اور کہیں بھی انتخابی نتائج کو انٹرٹینمنٹ کے ساتھ ملا کر نہیں دکھایا جا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر بریکنگ نیوز کے ساتھ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ جاتا ہے، بلڈ پریشر علیحدہ سے کم زیادہ ہوتا ہے اور کمزور دل حضرات تو ویسے ہی اوسان خطا کئے بیٹھے نظر آئے۔ انتخابی نتائج بھی صورت خورشید ادھر ڈوبے ادھر نکلے کی تصویر بنے رہے۔ اوپر سے اس مرتبہ خواتین اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کیا اور یہ دونوں طبقات ہی جذبات اور جوش کو سنبھالنے میں کمزور واقع ہوتے ہیں اور اس مرتبہ ان دونوں طبقوں کو ہی انتظار کی سولی پر چڑھایا گیا۔ ان کا خیال تھا کہ پانچ بجے کے بعد فوری فوری نتائج مل جائیں گے اور وہ اونچی آواز میں پارٹی کے ترانے لگائے کھڑکیوں میں سے جھنڈے لہراتے پھریں گے مگر اس کے برعکس انہیں ایک ایک لمحے کی بنیاد پر ترسایا گیا، پرائیویٹ ٹی وی چینلوں پر چلنے والی بال ٹو بال کمنٹری علیحدہ سے خلجان پیدا کرتی رہی۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

ہماری رات میں ٹی وی بہت ہے

ہماری صبح اخباروں میں ہوتی ہے

کرنٹ افیئرز کے پروگراموں نے ہماری زندگیوں سے نہ صرف انٹرٹینمنٹ چھین لی ہے بلکہ ہمیں غیر ضروری طور پر سیاسی کر دیا ہے ،ہماری زندگیوں سے لطافت چھین لی ہے اور اس کی جگہ ایک خوامخواہ کی ٹینشن دے دی ہے کہ دیکھیں کیا بنتا ہے، اب کیا ہوتا ہے۔ انتخابات بے یقینی کو ختم کرنے کے لئے منعقد ہوئے تھے لیکن یہ تو نتائج کے موقع پر ہی پوری قوم کو بے یقینی کا شکار کر گئے ہیں، آگے چل کر کیا ہو گا،ابھی تو بہت سا توڑ جوڑ ہونا ہے!....الیکشن کمیشن کو انتخابی نتائج کی فیڈ خود دینی چاہیئے جس طرح ایوان صدر کی تقریبات کی فیڈ پی ٹی وی دیتا ہے اور باقی سارے چینل اس کو فالو کرتے ہیں۔ اس سے غیر حتمی غیر سرکاری کی بک بک ختم ہو گی۔ ٹی وی مذاکرے تو محلوں کے تھڑے ہیں جہاں ہر تھڑے پر ہم خیالوں کا جمگٹھا ہوتا ہے اور ہر کوئی بات بڑھا چڑھا کر کر رہا ہوتا ہے۔

اہم مذہبی جماعت نے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کردیا

QOSHE -      بعد از انتخابات - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

     بعد از انتخابات

10 1
11.02.2024

نون لیگ پنجاب میں اکثریتی پارٹی بن گئی ہے۔ اسی طرح مرکز میں بھی آزاد امیدواروں کے بعد وہ سب سے زیادہ سیٹیں لینے والی پارٹی ہے اس لئے اس کا پہلا حق بنتا ہے کہ وہ حکومت سازی کے لئے دیگر سیاسی جماعتوں سے بات چیت کرے۔ اگر وہ انہیں اپنا حکومتی حلیف بننے پر قائل کر لیتی ہے تو حکومت بنانا اس کا حق ہے ، وگرنہ دوسری بڑی سیاسی جماعت کو موقع ملنا چاہئے ، چنانچہ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہونی چاہئے۔

2018 میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت بنانے کے لئے جہانگیر ترین کے جہاز کو رکشے کی طرح استعمال کیا گیا تھا کیونکہ پنجاب میں اگر نون لیگ کو حکومت بنانے دی جاتی تو مرکز میں پی ٹی آئی کے لئے چلنا اسی طرح مشکل ہو جاتا جس طرح 1988 میں پیپلز پارٹی کو پنجاب میں نون لیگ کی حکومت کی وجہ سے چلنا مشکل ہو گیا تھا کیونکہ صوبہ پنجاب کی پاکستان کی سیاست میں ایک خاص اہمیت ہے اور یہاں اکثریت حاصل کرنے کا مطلب آدھے پاکستان کی حکومت حاصل کرلینا ہوتا ہے۔ چنانچہ جو پارٹی تن تنہا آدھے پاکستان پر حکومت بنانے کی اہلیت رکھتی ہو، مرکز میں حکومت سازی کا پہلاحق اسی کا بنتا ہے جو کہ نون لیگ کو حاصل ہو گیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے مکمل نتائج کا اعلان کردیا

اب فرض کرتے ہیں کہ نون لیگ کو مرکز میں حکومت بنانے کی پہلی کوشش کا حق نہیں ملتا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play