مغربی ممالک میں کتوں کو بہت پسند کیا جاتا ہے وہاں کتے گھر کے ایک فرد کی طرح ہیں ان کے کھانے پینے سونے جاگنے کا اتنا ہی خیال رکھا جاتا ہے جتنی گھر کے فرد پر توجہ دی جاتی ہے گھر کے فرد سے آپ کی توجہ بٹ سکتی ہے۔کتوں سے لمحہ بھی غافل نہیں رہا جاتا کتوں سے ان کی محبت لازوال ہے۔ کتوں کو گلے لگانا ساتھ سلانا چومنا اور نہ۔جانے کیا کیا کرنا انگریزوں کی سرشت میں شامل ہے گویا انگریزوں اور(معاف کیجئے گا) کتوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں کتوں کو وہ حرز جاں رکھتے ہیں، لیکن کتے انگریزوں سے اتنی محبت نہیں کرتے جتنی۔انگریز کتوں سے کرتے ہیں اس لئے کہ کتے بعض اوقات کتوں والی حرکتیں بھی کرجاتے ہیں۔ کتوں کی محبت میں مبتلا کچھ لوگ ہمارے ہاں بھی پائے جاتے ہیں، لیکن ان کی تعداد اس قدر نہیں ہمارے ہاں تو کتوں کی خوراک تک یورپ سے آتی ہے اس لئے بڑی معذرت کے ساتھ ہم میں بھی کچھ ”کتیانہ“ خصلتیں پائی جاتی ہیں، لیکن انگریزوں کی طبیعت میں یہ عادتیں راسخ ہوچکی ہیں ہم کتوں کی نفسیات کے ماہر نہیں۔کتوں کی تو نسلوں تک کے نام بھی لوگوں کو ازبر ہیں خیر کتے جانیں اور انگریز ہمیں اس سے کچھ غرض نہیں البتہ کتوں کے بارے اتنا علم ضرور رکھتے ہیں کہ بھونکنے والے کتے اکثر کاٹتے نہیں اور کاٹنے والے کتے بھی آپکی بے خبری میں کاٹ جائیں تو الگ ہے بظاہر آپکا ان سے سامنا ہو جائے اور وہ بھونکنے لگیں تو آپ ڈر کر بھاگنے کی بجائے ان کے سامنے ڈٹ جائیں تو انہیں پیش قدمی سے روک سکتے ہیں یا دنیا کے بہت خطرناک کتے جو خونخوار ہیں ان سے بھی آپکا واسطہ پڑنے پر آپ ان سے لڑ جائیں تو انہیں شکست دے سکتے ہیں۔ اگر چہ آپ گھائل ہو جائیں۔کچھ کتے ایسے بھی ہوتے ہیں، جنہیں آپس میں لڑایا جاتا ہے تاکہ جیتنے والے کتوں کو انعام و اکرام سے نوازا جائے اعزازات عطا کئے جائیں یہ خواہش بھی ویسے عجب ہے کہ کتوں کو لڑا کر طمانیت پانا، لیکن شائد انگریز کتوں کو لڑانا مناسب نہیں سمجھتے یہ لوگوں کو آپس میں لڑاکر خوش رہتے ہیں لوگوں کو آپس میں لڑانے کے لئے انگریز بڑی دانش سے کام لیتے ہیں اور کچھ بے وقوف ان کی چال میں آجاتے ہیں اور ان کی چال میں آنے والے بے وقوف ہم ہیں ہمارے مسلم ممالک ہیں آپ انگریزوں کی تاریخ دیکھئے اس میں جابجا آپ کو انگریزی چالیں بکھری ملیں گی، جن چالوں میں آکر ایک دوسرے کے خیر خواہ جانی دشمن بن گئے ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے اور ایک دوسرے کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہا دیں۔ پہلے انگریز ایک چال چلتے ہوئے سازش کر کے دو دوستوں کو آپس میں لڑاتے تھے پھر یہ اتنے بہادر ہو گئے کہ خود ہی جہاں چاہا یلغار کرنے لگ گئے، لیکن مذکورہ بالا سطور میں کتوں کی جو بہادری بیان کی گئی ہے کہ آپ ان کے سامنے ڈٹ جائیں یہ بھاگنے میں عافیت جانیں گے۔

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ایک اور آزاد امیدوار دوبارہ گنتی میں ہار گئے

جیسے ویت نام یا افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے بھاگنے کے مناظر آپ نے دیکھے ہوں گے۔ہمارے بچپن کا ایک ڈرامہ تھااس میں علی اعجاز جس پروفیسر دوست کے ساتھ رہتا ہے اس پروفیسر کو اتفاق سے ایک روز آنے میں تاخیر ہو جاتی ہے اور علی اعجاز پڑھنے آئے طلباء کو خود پڑھانا چاہتا ہے اور کہتا ہے بچو آپ پڑھو میں یہیں ہوں بچے علی اعجاز سے کچھ تعلیمی سوال کرتے ہیں اور علی اعجاز انہیں ٹالتے ہوئے دروازے کو دیکھتا ہے کہ پروفیسر کہاں رہ گیا۔ بچے علی اعجاز سے غیرت کی انگریزی پوچھتے ہیں علی اعجاز دروازے کی طرف دیکھتا بچے پوچھے جاتے ہیں تو علی اعجاز زچ ہو کر کہتا ہے کہ غیرت کی انگریزی نہیں ہوتی بچے پوچھتے ہیں کیوں؟تو علی اعجاز کہتا ہے، کیونکہ انگریزوں میں غیرت نہیں ہوتی۔یہ درست ہے کہ انگریز غیرت جیسی دولت سے اپنا دامن خالی رکھتے ہیں وگرنہ کیا یہ دنیا کا امن ایسے تباہ کرتے؟یہ مغربی تہذیب ہے کہ ایک بیوی کے بیڈ روم سے اس کے شوہر کے سامنے اس کا بوائے فرینڈ نکل رہا ہے اور شوہر کو کوئی اعتراض بھی نہیں ایسی تباہ کن تہذیب سے آپ کیا توقع رکھیے گا؟ اور پھر بھی ہم بھاگے ہوئے ادھر کو ہی جاتے ہیں، حالانکہ ہمارا ”مسلمانوں“ کا ایک شاندار ماضی ہے۔ہم باوقار لوگ ہیں ہمارے کمالات کی دنیا معترف ہے ہم نے۔کون سا ایسا علم ہے، جس میں انمٹ نقوش نہیں چھوڑے،بلکہ انگریزوں کی ترقی ہماری ہی رہین منت ہے پھر بھی ہم کتوں کی دلدادہ قوم سے خائف ہوچکے ہیں۔اسرائیل نے امن پسند اور معصوم فلسطینیوں پر ظلم کے کیا کیا طریقے نہیں اپنائے کن کن زاویوں سے غزہ پر آگ اور باروود کی بارش نہیں کی امریکہ برطانیہ فرانس سب اسرائیل کا ساتھ دینے دوڑے آئے اور ہم جو پہاڑوں کا سینہ چیر دینے والے ہیں۔دریاؤں کا رخ بدلنے والے ہیں لیکن ہم اپنے ان مسلمان بھائیوں بیٹوں ماؤں بہنوں کو بچا بھی نہیں سکے جو اسرائیلیوں کی وحشت اور دہشت کا شکار ہو گئے۔اسرائیلیوں نے فلسطین کے ہسپتال تک نہیں چھوڑے زخمیوں پر گولیاں برسائیں ڈاکٹرز اور ہسپتال کا عملہ تک ان کی بربریت سے محفوظ نہ رہا۔سکولز یونیورسٹیاں، مساجد،چرچ،مہاجر کیمپ ہر جگہ سوور کھانے والی قوم انسانی خون کی پیاسی رہی۔سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کردیا۔اسرائیل تو عالمی عدالت کو خاطر میں نہیں لارہا اور ہم پھر بھی خاموش ہیں یہ خامشی ہی تو ہے کہ آپ صرف مذمتوں سے آگے نہ بڑھیں بعض معاملات مذمتوں سے آگے بڑھ جاتے ہیں وہاں عملی اقدامات ناگزیر ہوجاتے ہیں آج دنیا کے سوا ارب مسلمان غزہ کی بستی کو اسرائیلی بموں سے چٹیل میدان ہوتا دیکھ رہے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ بھی نہیں کرپارہے۔

بڑی خوشخبری ، پنجاب کابینہ نے طلبہ کو بلا سود الیکٹرک بائیکس دینے کی منظوری دیدی

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کا جوان بیٹا حازم ہنیہ اسرائیلی فوج کے ایک فضائی حملے میں شہید ہوچکا ہے فضائی حملوں کے بعد اسرائیل دنیا کی تمام تر مخالفت کے باوجود رفح جو جنگ سے بے گھر ہونے والوں کی آخری پناہ گاہ ہے پر زمینی حملے کا اعلان کرتا ہے،جہاں ایک ملین سے زائد لوگ آباد ہیں جو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچ کر یہاں آبسے تھے۔ اسلامی ممالک اسرائیل کے اس حملے کی مخالفت کر رہے ہیں،لیکن اسرائیل نے مانی کس کی ہے؟ اسرائیلی جارحیت پر لکھتے ہوئے شائد میں یہ بات چوتھی بار لکھ رہا ہوں کہ مسلمانوں کے پاس اپنا پر امن ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔اسرائیل رفح پر زمینی حملے کی تیاری کررہا تھا تو مسلم ممالک کو چاہئے تھا کہ مذمتوں سے بڑھتے اور اسرائیل کے سامنے ڈٹ جاتے اور جیسے کتے کے بھونکنے پر اس کے سامنے کھڑے ہو جانے سے وہ بھونکتا ہوا پسپائی پر مجبور ہو جاتا ہے ایسے اسرائیلی جارحیت کے سامنے مسلم ممالک ڈٹ جائیں تو اسرائیلی سورما بھی پسپا ہو سکتے ہیں اسرائیل کو تو ایک حماس نے ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں اور اگر عالم اسلام ایک ہو جائے تو سوچئے دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کا کچھ بگاڑ سکے گی؟

جنسی ہراسانی کا الزام‘ علی ظفر نے میشا شفیع کو معاف کردیا

QOSHE -          غیرت سے خالی دامن  - ندیم اختر ندیم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         غیرت سے خالی دامن 

23 0
14.02.2024

مغربی ممالک میں کتوں کو بہت پسند کیا جاتا ہے وہاں کتے گھر کے ایک فرد کی طرح ہیں ان کے کھانے پینے سونے جاگنے کا اتنا ہی خیال رکھا جاتا ہے جتنی گھر کے فرد پر توجہ دی جاتی ہے گھر کے فرد سے آپ کی توجہ بٹ سکتی ہے۔کتوں سے لمحہ بھی غافل نہیں رہا جاتا کتوں سے ان کی محبت لازوال ہے۔ کتوں کو گلے لگانا ساتھ سلانا چومنا اور نہ۔جانے کیا کیا کرنا انگریزوں کی سرشت میں شامل ہے گویا انگریزوں اور(معاف کیجئے گا) کتوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں کتوں کو وہ حرز جاں رکھتے ہیں، لیکن کتے انگریزوں سے اتنی محبت نہیں کرتے جتنی۔انگریز کتوں سے کرتے ہیں اس لئے کہ کتے بعض اوقات کتوں والی حرکتیں بھی کرجاتے ہیں۔ کتوں کی محبت میں مبتلا کچھ لوگ ہمارے ہاں بھی پائے جاتے ہیں، لیکن ان کی تعداد اس قدر نہیں ہمارے ہاں تو کتوں کی خوراک تک یورپ سے آتی ہے اس لئے بڑی معذرت کے ساتھ ہم میں بھی کچھ ”کتیانہ“ خصلتیں پائی جاتی ہیں، لیکن انگریزوں کی طبیعت میں یہ عادتیں راسخ ہوچکی ہیں ہم کتوں کی نفسیات کے ماہر نہیں۔کتوں کی تو نسلوں تک کے نام بھی لوگوں کو ازبر ہیں خیر کتے جانیں اور انگریز ہمیں اس سے کچھ غرض نہیں البتہ کتوں کے بارے اتنا علم ضرور رکھتے ہیں کہ بھونکنے والے کتے اکثر کاٹتے نہیں اور کاٹنے والے کتے بھی آپکی بے خبری میں کاٹ جائیں تو الگ ہے بظاہر آپکا ان سے سامنا ہو جائے اور وہ بھونکنے لگیں تو آپ ڈر کر بھاگنے کی بجائے ان کے سامنے ڈٹ جائیں تو انہیں پیش قدمی سے روک سکتے ہیں یا دنیا کے بہت خطرناک کتے جو خونخوار ہیں ان سے بھی آپکا واسطہ پڑنے پر آپ ان سے لڑ جائیں تو انہیں شکست دے سکتے ہیں۔ اگر چہ آپ گھائل ہو جائیں۔کچھ کتے ایسے بھی ہوتے ہیں، جنہیں آپس میں لڑایا جاتا ہے تاکہ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play