چودھری شجاعت حسین نے اگست 2019ء کو اپنی جٹکی وزڈم کا استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ مہنگائی اور بے روز گاری کے یہی حالات رہے تو پاکستان میں کسی نے وزیراعظم بننے کے لئے تیار نہیں ہونا،پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری کا عروج کورونا کے زمانے سے شروع ہوا تھا۔ آج بھی بہت سے اداروں میں وقت پر تنخواہیں دینا ایک مصیبت سے کم نہیں، کئی ایک جگہ تو کئی کئی ماہ کی تنخواہیں زیر التوا ہیں،یہی نہیں ایسے ادارے جنہوں نے اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے سٹیٹ بینک آف پاکستان سے کم شرح سود قرضہ لیا تھا آج اپنے ملازمین کی تنخواہوں کی کٹوتیاں کر کے ادائیگی کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اکثر اداروں میں سالانہ انکریمنٹ ایک خواب بن چکا ہے۔

این اے 15مانسہرہ سے نوازشریف کی انتخابی عذرداری کی درخواست منظور ، سماعت 20فروری کو ہوگی

چودھری شجاعت نے جٹکی بات پانچ سال قبل کہی تھی اور آج ان کا کہا ایک ایک حرف سچ ثابت ہوتا ہے جب پیپلز پارٹی کے بعد نون لیگ بھی پچھلے قدم پر کھڑی معلوم ہوتی ہے اور چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی اپنا وزیراعظم بنا لے۔ اسلام آباد سے وزیراعظم ہاؤس سے چیخ چیخ کر صدائیں لگائی جا رہی ہیں کہ وزیراعظم حاضر ہو اور کوئی اگلا قدم اٹھانے کے لئے تیار نظر نہیں آ رہا۔

2018ء میں جو کچھ نواز شریف کے ساتھ ہوا، 2024ء میں وہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہو گیا۔ تب نون لیگ پنجاب میں اکثریتی پارٹی تھی، اب پی ٹی آئی کے پی میں اکثریتی پارٹی ہے۔ تب عمران خان وزیراعظم بنے تھے، اب مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب بن رہی ہیں۔ نواز شریف اپنے بعد مریم سے خطاب اِسی لئے کرواتے رہے کہ عمران خان کا سیاسی میدان میں مقابلہ بھی مریم نواز نے ہی کیا تھا۔ اگلا مقابلہ مریم اور بلاول کا ہوگا، نواز شریف کی طرح عمران خان بھی اصولی موقف پر گھر بیٹھیں گے۔

پی ٹی آئی کا آزاد امیدواروں کو اپنی پارٹی ہی جوائن کرانے کا فیصلہ

تب نواز شریف کو جیل میں رکھا گیا تھا۔ اب عمران خان کو رکھاہوا ہے۔ تب کی اسٹیبلشمنٹ مزے کر رہی ہے، اب کی بھی مزے کرے گی۔ تب بھی میڈیا استعمال ہوا تھا، اب بھی میڈیا استعمال ہوا ہے، تب بھی عدلیہ کے فیصلے متنازع تھے، اب بھی عدلیہ کے فیصلے متنازع قرار دیئے جا رہے ہیں اِسی لئے مولانا فضل الرحمٰن نے کھل کر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کی ہے، کوئی دوسرا سیاستدان اگر ایسا کرسکتا ہے تو وہ میاں نواز شریف ہیں اور سچ پوچھئے تو مولانا نے میاں صاحب کی ترجمانی کی ہے، کیونکہ تواتر سے کہا جا رہا ہے کہ سارے فیصلے سی آئی ایف سی کی شکل میں ہوں گے اس لئے میاں صاحب اور مولانا اس بات پر راضی دکھائی دیتے ہیں کہ ایسا ہے تو پھر کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا کرنے کی کیا ضرورت ہے، اس سے کہیں بہتر ہے کہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو مل کر حکومت بنانے دی جائے۔ نون لیگ کے سروائیول کے لئے پنجاب کی حکومت ہی کافی ہے۔

سپریم کورٹ میں 8 فروری کے انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

نواز شریف کے انکار نے سب کو مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ سب کا خیال تھا کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کا موقع کسی صورت ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے جس طرح آصف زرداری دوسری مرتبہ صدر بننے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے، لیکن نواز شریف نے اس کے برعکس کیا اور اپنی دستبرداری کا اعلان کر وا دیا۔ اس کے بعد تو سیاسی صورتحال ہی تبدیل ہو گئی ہے۔ نواز شریف نے ایسا اس لئے کیا کہ پیپلز پارٹی بدنیتی پر اتر آئی ہے اور اپنی طرف سے نون لیگ سے بدلا لے رہی ہے اور اسے ذلیل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہتی جس پر نواز شریف نے بھی ہاتھ کھڑے کر لئے ہیں اور مولانا فضل الرحمن بھی سیدھے ہو گئے ہیں۔ ایسے میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی دونوں کی بولتی بند ہو گئی ہے اور اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر حکومت بنائے یا نون لیگ کی حمایت کرکے اس کی مخالفت کرے۔ اس مینڈیٹ نے سب کو خلجان میں مبتلا کر دیا ہے اور کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اس اونٹ کو کس کروٹ بٹھائیں۔ اس صورت حال میں اگر نون لیگ مرکز میں حکومت نہیں بناتی اور پنجاب کو اپنا مرکز مان کر لڑائی کے موڈ میں آ جاتی ہے تو پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی مل بھی جائیں تو بھی بات نہیں بنے گی۔

تحریک انصاف کے ایک اور سیاسی جماعت سے رابطے بحال ہو گئے

دوسری جانب تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق نون لیگ نے سیاسی طور پر جیو ٹیلی ویژن کو کارنر کر دیا اور اسے وضاحتیں دیتے ہی بنی، کیونکہ جیو نے جس طرح نواز شریف اور مریم نواز کو زچ کئے رکھا اس پر نون لیگی قیادت ہو نہ ہو، نون لیگی ووٹر سپورٹر ضرور غصے میں تھا، ورکروں کا تو کیا ہی کہنا۔ چنانچہ نون لیگ نے جس طرح جیو کی پان پت اتار دی اور آخر میں اس کو own بھی نہیں کیا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نون لیگ نے ترکی بہ ترکی جواب دینے کا ارادہ کرلیا ہے۔

2018ء میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت بنانے کے لئے جہانگیر ترین کے جہاز کو رکشے کی طرح استعمال کیا گیا تھا، کیونکہ پنجاب میں اگر نون لیگ کو حکومت بنانے دی جاتی تو مرکز میں پی ٹی آئی کے لئے چلنا اسی طرح مشکل ہو جاتا جس طرح 90ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی کو پنجاب میں نون لیگ کی حکومت میں چلنا مشکل تر ہو گیا تھا، کیونکہ پنجاب کی پاکستانی سیاست میں ایک خاص اہمیت ہے اور یہاں اکثریت لینے کا مطلب آدھے پاکستان کی حکومت لینا ہوتا ہے، چنانچہ جو پارٹی تن تنہا آدھے پاکستان پر حکومت بنانے کی اہلیت رکھتی ہو، مرکز میں حکومت سازی کا پہلاحق اِسی کا بنتا ہے جو کہ نون لیگ کو حاصل ہو گیا ہے۔ اب فرض کرتے ہیں کہ نون لیگ کو مرکز میں حکومت بنانے کی پہلی کوشش کا حق نہیں ملتا اور وہ پنجاب میں اپنی حکومت بنا کر بیٹھ جاتی ہے تو مرکزی حکومت کسی طور بھی ڈیلیور نہیں کر سکے گی جب تک کہ اسے تمام صوبائی حکومتوں، بالخصوص پنجاب کا تعاون حاصل نہ ہو۔

پی ٹی آئی نے عمران خان کو جیل سے نکالنے کیلئے کوششیں شروع کر دیں

QOSHE -        وزیراعظم حاضر ہو!  - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       وزیراعظم حاضر ہو! 

7 0
16.02.2024

چودھری شجاعت حسین نے اگست 2019ء کو اپنی جٹکی وزڈم کا استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ مہنگائی اور بے روز گاری کے یہی حالات رہے تو پاکستان میں کسی نے وزیراعظم بننے کے لئے تیار نہیں ہونا،پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری کا عروج کورونا کے زمانے سے شروع ہوا تھا۔ آج بھی بہت سے اداروں میں وقت پر تنخواہیں دینا ایک مصیبت سے کم نہیں، کئی ایک جگہ تو کئی کئی ماہ کی تنخواہیں زیر التوا ہیں،یہی نہیں ایسے ادارے جنہوں نے اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے سٹیٹ بینک آف پاکستان سے کم شرح سود قرضہ لیا تھا آج اپنے ملازمین کی تنخواہوں کی کٹوتیاں کر کے ادائیگی کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اکثر اداروں میں سالانہ انکریمنٹ ایک خواب بن چکا ہے۔

این اے 15مانسہرہ سے نوازشریف کی انتخابی عذرداری کی درخواست منظور ، سماعت 20فروری کو ہوگی

چودھری شجاعت نے جٹکی بات پانچ سال قبل کہی تھی اور آج ان کا کہا ایک ایک حرف سچ ثابت ہوتا ہے جب پیپلز پارٹی کے بعد نون لیگ بھی پچھلے قدم پر کھڑی معلوم ہوتی ہے اور چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی اپنا وزیراعظم بنا لے۔ اسلام آباد سے وزیراعظم ہاؤس سے چیخ چیخ کر صدائیں لگائی جا رہی ہیں کہ وزیراعظم حاضر ہو اور کوئی اگلا قدم اٹھانے کے لئے تیار نظر نہیں آ رہا۔

2018ء میں جو کچھ نواز شریف کے ساتھ ہوا، 2024ء میں وہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہو گیا۔ تب نون لیگ پنجاب میں اکثریتی پارٹی تھی، اب پی ٹی آئی کے پی میں اکثریتی پارٹی ہے۔ تب........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play