مرکز میں نون لیگ کو حکومت لینی چاہئے کیونکہ ریاست کی بچت میں ہی اس کی اکائیوں کی بچت ہے۔ اگر مرکز میں قائم حکومت بڑے بڑے فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم رہی تو اس کا اثر صوبوں کی معیشت پر بھی پڑے گا۔ جہاں تک اس ہاہا کار کا تعلق ہے جو پی ٹی آئی نے اس وقت الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ مل کر مچا رکھی ہے وہ تو جاری رہے گی، یوں بھی اگر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے تیار نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دیگر سنجیدہ جماعتیں گھر وں میں بیٹھ جائیں۔ ریاست کی مضبوطی کے لئے ان سے جو کچھ بن پاتا ہے، کرنا چاہئے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ سیاسی جماعتوں کو حاصل عوامی مینڈیٹ جینوئن ہے، جیسا کہ نون لیگ کے سرکردہ رہنما کہتے پائے جا رہے ہیں اور نون لیگ پی ٹی آئی کی طرح دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر بھی نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ عوام نے ملی جلی سیاسی رائے کا مظاہرہ کیا ہے، جو کہ اس کا حق تھا۔ کوئی بھی سیاسی جماعت عوام پر اپنی مرضی کو تھوپ نہیںسکتی، منقسم مینڈیٹ کو مشترکہ حکمت عملی سے متحد کیا جا سکتا ہے۔نواز شریف اگر وزیراعظم نہیں بنتے تو ان کی اپنی مرضی، وگرنہ وہ اس کے لئے پیشگی شرائط کے ہر معیار پر پورا اترتے ہیں ، اگر عوام نے انہیں سادہ اکثریت نہیں دی تو کیا ہوا، پنجاب میں عوام نے اس پراپیگنڈے کا کھل کر مقابلہ تو کیا ہے جس کا سامنا نون لیگ کو 2013ءکے انتخابات کے بعد سے رہا ہے۔ پنجاب کے عوام کی اکثریت نے ابھی بھی نون لیگ کے حق میں ووٹ کیا ہے اور وہ جو کہتے تھے کہ پی ٹی آئی پنجاب میں اسے ٹف ٹائم دے گی، اس کے مقابلے میں زمینی صورت حال ابھی بھی نون لیگ کے حق میں نظر آتی ہے۔

بانی پی ٹی آئی جلاؤ گھیراؤ اور ملک کو تباہ کرنے پر اتر آئے: فیصل واوڈا

پی ٹی آئی نے اصل میں تو پیپلز پارٹی کو پنجاب میں پچھاڑا ہے اور پی پی کے حمایتی حلقوں نے بلاول کی اپیل پر کان نہیں دھرا اور سمجھا ہے کہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دے کر ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ پی ٹی آئی کے حق میں ووٹ دیا جائے۔ ان ووٹروں کا خیال تھا کہ پنجاب سے پی ٹی آئی جیتے گی تو مرکز میں نون لیگ کو روکا جا سکے گا۔اب اگر پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی فارمولہ بنا لیتی ہے تو ایسا ممکن بھی ہے ، مگر اس حوالے سے ابھی تک دونوں جانب سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ، شائد انہیں مقتدرہ کی آشیر باد نہیں ملی ہے وگرنہ پیپلز پارٹی کے لئے اس سے بہتر اور کوئی موقع نہیں ہو سکتا کہ اپنے روائتی سیاسی حریف ، یعنی نون لیگ کو اگلے پانچ سال کے لئے مرکز میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے پر مجبور کر دے، مگر اس حوالے سے ابھی تک پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے درمیان دکھاوے کی ملاقات بھی نہیں ہوسکی ہے۔

ڈی آر او ز راولپنڈی ڈویژن کا سابق کمشنر لیاقت علی چٹھہ کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ

ایسے میں نواز شریف کے ہاں پایا جانے والا تذبذب دیدنی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں مرکز میں جس قسم کے سخت اقدامات کرنا پڑیں گے اس سے ان کا باقی ماندہ سیاسی سرمایہ بھی ضائع ہو گا لیکن ایسی سوچ رکھنا ذاتی مفاد کے زمرے میں آتا ہے اور آنے والا مورخ اس پر ان کی مدح سرائی نہیں کرے گا۔ اس کے برعکس اگر انہوں نے یہ بیڑہ اٹھالیا اور اللہ کا نام ہے کر آگے بڑھے اور اپنی مقدور بھر کوشش سے آگے کا راستہ استوار کردیا تو ان کا نام ملکی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ بھلے اس کے لئے انہیں اپنے باقی ماندہ سیاسی سرمائے سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں ۔ وہ کیا کہ

پاکستان میں ’’ایکس‘‘ کی سروس متاثر

ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں

میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا

اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی صورت میں بھرپور قسم کی اپوزیشن کا سامنا بھی کرنا چاہیے کیونکہ یہ میاں نواز شریف کے لئے کوئی نئی صورت حال نہیں ہوگی، اس سلسلے میں آسماں سو بار ان کا امتحان لے چکا ہے۔جہاں تک شہباز شریف کا تعلق ہے تو گزشتہ 16ماہ میں انہوں نے کوشش کر دیکھی ۔ اگرچہ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچالیا گیا مگر وزارت عظمیٰ پر ان کی موجودگی نے پارٹی کے اندر دراڑیں پیدا کردی تھیں اور پارٹی کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آگئے تھے جن کا ارتعاش ابھی تک محسوس کیا جا سکتا ہے ۔یوں بھی وہ جس قسم کی مینجمنٹ کے عادی ہیں ، وزارت عظمیٰ کا عہدہ اس کا متقاضی نہیں ہو سکتا ، ان کے ہاں پایا جانے والا اوتاولا پن انہیں بہت جلد ایکسپوز کر دیتا ہے اور مخالفین کو انہیں شوباز شریف کہنے کا موقع مل جاتا ہے۔

لاہور ہائیکورٹ میں3روزہ ”کتاب میلہ“ سجے گا، معروف پبلشرز شرکت کریں گے

ہماری ناقص رائے میں اگر گزشتہ 16کے دوران بھی نواز شریف براہ راست مرکز میں حکومت میں ہوتے تو پارٹی اور ملک کو وہ کچھ نہ دیکھنا پڑتا جو موجودہ صورت حال دکھا رہی ہے ۔نوازشریف پر نہ صرف پارٹی کے اندر بلکہ پارٹی سے باہر بھی اتفاق پایاجا تا ہے ۔ سیاسی بالغ نظر ی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ ماضی میں بنی گالا بھی تشریف لے جا چکے ہیں ، آئندہ بھی وسیع تر ملکی مفاد میں وہ جو قدم بھی اٹھائیں گے اس کے لئے انہیں عوامی و سیاسی حلقوں کی حمائت حاصل رہے گی ، اس کے علاوہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی ان کے تعلقات مثالی ہیں اور پھر ان کے حامیوں کی بڑی تعداد، خاص طور پر نوجوان لیگی ووٹر سپورٹر انہیں چوتھی بار پاکستان کا وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں ۔ سنجیدہ عوامی حلقوں نے بھی نون لیگ کو ووٹ انہی کو ذہن میں رکھ کر دیا ہے، یہ ووٹ بینک کسی صورت بھی نون لیگ کو شہباز شریف بطور وزیر اعظم پاکستان کے نہیں ملا ہے ۔ اس لئے نواز شریف آگے بڑھیں اور انہونی کر دکھائیں !

پی ٹی آئی کا سندھ،پنجاب کے چیف سیکرٹریز،آئی جیز کی برطرفی کا مطالبہ

QOSHE -     میاں نواز شریف انہونی کر دکھائیں  - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

    میاں نواز شریف انہونی کر دکھائیں 

10 1
18.02.2024

مرکز میں نون لیگ کو حکومت لینی چاہئے کیونکہ ریاست کی بچت میں ہی اس کی اکائیوں کی بچت ہے۔ اگر مرکز میں قائم حکومت بڑے بڑے فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم رہی تو اس کا اثر صوبوں کی معیشت پر بھی پڑے گا۔ جہاں تک اس ہاہا کار کا تعلق ہے جو پی ٹی آئی نے اس وقت الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ مل کر مچا رکھی ہے وہ تو جاری رہے گی، یوں بھی اگر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے تیار نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دیگر سنجیدہ جماعتیں گھر وں میں بیٹھ جائیں۔ ریاست کی مضبوطی کے لئے ان سے جو کچھ بن پاتا ہے، کرنا چاہئے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ سیاسی جماعتوں کو حاصل عوامی مینڈیٹ جینوئن ہے، جیسا کہ نون لیگ کے سرکردہ رہنما کہتے پائے جا رہے ہیں اور نون لیگ پی ٹی آئی کی طرح دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر بھی نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ عوام نے ملی جلی سیاسی رائے کا مظاہرہ کیا ہے، جو کہ اس کا حق تھا۔ کوئی بھی سیاسی جماعت عوام پر اپنی مرضی کو تھوپ نہیںسکتی، منقسم مینڈیٹ کو مشترکہ حکمت عملی سے متحد کیا جا سکتا ہے۔نواز شریف اگر وزیراعظم نہیں بنتے تو ان کی اپنی مرضی، وگرنہ وہ اس کے لئے پیشگی شرائط کے ہر معیار پر پورا اترتے ہیں ، اگر عوام نے انہیں سادہ اکثریت نہیں دی تو کیا ہوا، پنجاب میں عوام نے اس پراپیگنڈے کا کھل کر مقابلہ تو کیا ہے جس........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play