نفسیات دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی شخصیت کے بنیادی خدو خال سات سال کی عمر تک متعین ہو جاتے ہیں ۔ جیسے کچھ لوگ شروع سے تنہائی پسند ہوں گے اور کچھ رونق میلے کے رسیا ، بعض میں مقابلے کا رجحان زیادہ ہوگا اور بعض میں قناعت کا ۔ اسی طرح ایک شخص بھلا مانس سمجھا جاتا ہے ، دوسرا چکر باز حسینہ اور تیسرا دنیا و آخرت میں دونوں میں سُرخرو ۔ یوں ، لوگوں کو جتنی اقسام میں چاہیں بانٹ لیں ، مگر کسی بھی زمرہ بندی کا دارومدار آپ کے ورلڈ ویو ہی پر ہوتا ہے۔ یہی کہ انسان کا انسان سے رشتہ ، اُس کا کائنات سے تعلق اور خالق و مخلوق کا باہمی ربط۔ انہی سچائیوں میں موت و حیات کا تصور بھی شامل سمجھنا چاہیے۔ خاص طور پر کورونا کی دوسری، تیسری اور چوتھی لہر کے بعد جو دب تو گئی لیکن تاحال سوشل میڈیا کا سورج ہر روز کسی نہ کسی جاننے والے کے کُوچ کی خبر لے کر طلوع ہو رہا ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

شاعرِ فطرت ولیم ورڈزورتھ نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ” بچپن میں مجھے موت کے تصور کو ایک ایسی باطنی کیفیت کے طور پر قبول کرنا نہایت دشوار لگا جو خود میرے دل و دماغ پر طاری ہو سکتی ہو ۔ “ شاید بچپن میں ہر کسی کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ سارا زمانہ فنا ہو جائے ، مَیں کبھی نہیں مروں گا۔ مشہور نظم ’وی آر سیون ‘ اِس کی واضح مثال ہے ، جس میں ایک بھائی اور بہن سے محروم ہو جانے والی کمسن لڑکی سمجھ ہی نہیں پاتی کہ اُس کے یہ بہن بھائی دنیا سے چلے گئے ہیں ۔ یہ تو ہوئی موت کی نفسیاتی حقیقت ۔ پکی پکائی دیگوں اور پڑھے پڑھائے سیپاروں سے پہلے ہمارے آبائی شہر کے ٹبہ سیداں میں موت کی سماجی نوعیت اور طرح کی تھی ۔ کسی گھر سے اچانک دلدوز نسوانی چیخیں بلند ہوتیں ، پھر کچھ وقت کے لیے سناٹا چھا جاتا ۔ چند گھنٹوں میں سامنے کی ڈھلوان گلی سے مَردوں کے گزرنے کی چاپ سنائی دیتی اور مولوی فاضل ضیا کی دکان پر بظاہر صدیوں سے بیٹھا کوئی شخص دھیمے لہجہ میں کہتا : ”آہو اوہنوں لے گئے نیں۔“

بانی پی ٹی آئی جلاؤ گھیراؤ اور ملک کو تباہ کرنے پر اتر آئے: فیصل واوڈا

براہ راست متاثر ہونے والے کنبہ کو چھوڑ کر محلے کے بچوں کو یہ تمیز نہیں تھی کہ کسی غمناک واقعے کے لوازمات کیا ہوتے ہیں ۔ محلے میں یہ سارا عمل ایک عجیب سی خود کار سیکولر اسپرٹ کے ساتھ پایہ ءتکمیل کو پہنچتا رہتا۔ سیکولر اِن معنوں میں کہ وہ حاضرین جو روزمرہ معمولات میں مصروف نہ ہوتے ، کسی نہ کسی انتظام میں لگ جاتے ۔ شاید یہ تعلیم کی کمی تھی یا محنت کش آبادی کا طبقاتی چلن کہ اِس موقع پر عام گفتگو خالص مقامی بولی میں ہوا کرتی ۔ بھاری بھرکم عربی ، فارسی اصطلاحات ہم نے کم ہی سُنیں ۔ اکثر لوگ مسجد کو ’مسیت‘ ، اذان کو ’بانگ‘، امام بارگاہ کو ’امام باڑہ‘ اور کعبہ کو ’لہندا‘ کہتے ۔ تدفین ہو جانے پر کہا جاتا ”رانی دا لالہ مرگیا سی ، اوہنوں دب آئے نیں ۔“ پانچ وقت کی نمازیں بھی ، جن میں باجماعت شرکا برائے نام ہوتے، سویر ، پیشی ، دِیگر ، شام اور کُفتاں کہلاتیں ، جو خفتہ یا خفتاں کی تبدیل شدہ شکل تھی ۔

ڈی آر او ز راولپنڈی ڈویژن کا سابق کمشنر لیاقت علی چٹھہ کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ

تو کیا لوگوں کے دلوں میں دنیا سے چلے جانے کا خیال تھا ہی نہیں ؟ بالکل تھا مگر لوگ اِ س خیال سے خوفزدہ نہیں تھے ۔ محلے کی عورتوں کو میں نے مائی جیونی کی امامت میں جمعہ اور نمازِ تسبیح ادا کرتے ہوئے دیکھا ، جس کے دوران رقت آمیز مناظر کم ہی رونما ہوئے ۔ محلے میں سبھی لوگ مل جل کر رہتے اور مرن جیون سانجھا تھا ۔ پھر بھی شاید ہی کوئی کسی سے پوچھتا کہ اُس نے نماز پڑھی ہے نہیں یا روزہ اگر نہیں رکھا تو کیوں ؟ ہر کسی کا مذہبی جذبہ اُس کے ذاتی تجربے ہی سے وابستہ تھا ۔ ابتدائی بچپن میں لاہور والی امی ، یعنی نانی کی طویل بیماری البتہ نہیں بھولتی جب پہلی بار گنگا رام ، گلاب دیوی اور میو ہسپتال کی جھلک دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ پھر ایک دن یہ بھی دیکھا کہ لاہور والی امی اپنے کمرے میں بے حس و حرکت پڑی ہیں ۔ نچلی منزل پہ ہماری ماں کے موٹے ماماں جی ، جنہیں سب خواجہ صاحب کہا کرتے ، چند مردوں کے ساتھ بیٹھک کے قالین پر چپ چاپ بیٹھے ہیں اور اُن کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آ نسو گر رہے ہیں ۔

پاکستان میں ’’ایکس‘‘ کی سروس متاثر

جنازہ اٹھا تو یہ عمل بھی غم و اندوہ کے ساتھ ایک گونہ آسودگی کا تاثر لیے ہوئے تھا ۔ یوں جیسے اب سے تین سال پہلے کے کورونا ’ایس او پیز‘ کے مافِک ہر کام طے شدہ پروسیجر کے مطابق ہو رہا ہو ۔ ایک خاص آئٹم تمام سوگواروں کا لحن کے ساتھ ہم آواز ہونا بھی ہے ۔ یہ کارروائی ، جس میں میت کو کاندھا دینے کے لیے ہر کوئی بے تاب تھا ، مصری شاہ سے میانی صاحب تک کورَس کی شکل میں جاری رہی ۔ بول تھے ”اوئے اساں وی اک دن جانا ایں ، وِچ جنگل ڈیرہ لانا اے ، پڑھو لا الہ الا ا للہ ۔ محمد پاک رسول اللہ ۔ ۔ ۔ “ یوں کلمہ شریف کا ورد لوک انداز میں وردِ زبان رہا ۔ سارا راستہ ایک بٹ صاحب ٹائپ بزرگ ’پڑھو‘ کا لفظ بار بار اتنے رعب سے ادا کرتے جیسے کسی نے آواز نہ مِلائی تو سختی سے پیش آئیں گے ۔ یہ طویل مسافت جتنی دلگداز تھی اُتنی ہی دل آویز بھی تھی۔ یہ رہا زندگی گزارنے اور دنیا سے رخصت لینے کا عمومی طریقہ ۔

لاہور ہائیکورٹ میں3روزہ ”کتاب میلہ“ سجے گا، معروف پبلشرز شرکت کریں گے

حادثاتی یا غیر فطری موت سے پہلی بار پالا کب پڑا ؟ اِتنا یاد ہے کہ ہمارے گھر یہ اطلاع اگوکی گاﺅں سے آئی جو سیالکوٹ شہر اور موجودہ ہوائی اڈے سمبڑیال کے درمیان واقع تھا ۔ پتا چلا کہ دادا کی کزن کا نوجوان بیٹا مچھلیاں پکڑتے ہوئے قریبی نہر میں ڈوب گیا ہے ۔ کیا ڈوب جانا اور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنا ایک ہی بات ہے؟ تب کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا ۔برسوں بعد مشہور ہندوستانی ادیب کملیشور کے ناول کا پنجابی ترجمہ ’سمندر وچ گواچیا مَنُکھ‘ نظر سے گزرا تو محسوس ہوا کہ شدت سے چاہے جانے والے کردار پانی کی تہوں میں غرق ہو کر بھی چاہنے والوں کے دل و دماغ میں تیرتے رہتے ہیں۔یہ شاعری نہیں، حقیقت ہے ۔ اُسی طرح کی حقیقت جیسے اِس ناول میں سمندر کے پانیوں میں گُم ہو جانے والے نیول کیڈٹ کی کہانی چھوٹی بہن کے لیے مدتوں دھوپ چھاﺅں کا کھیل بنی رہی۔

پی ٹی آئی کا سندھ،پنجاب کے چیف سیکرٹریز،آئی جیز کی برطرفی کا مطالبہ

خبرکاری بڑا ظالم پیشہ ہے اور الیکٹرانک جرنلزم اُس سے بھی بڑھ کر ۔ چالیس سال سے اوپر ہو گئے ہیں جب بی بی سی لندن پہنچتے ہی میری ذاتی اقدار کے نظام پر پہلی ضرب اَن خبروں سے لگی تھی جو بھارتی پنجاب ، بیروت اور سری لنکا کے جزیرہ نما جافنا سے ایک تسلسل کے ساتھ موصول ہو تیں ۔ فلسطینیوں کے بارے میں اردو سروس کے ساتھیوں کے احساسات قدرے ہمدردانہ تھے ، ایک ایسا انسانی المیہ جس کی قسطیں ابھی تک ادا کی جا رہی ہیں۔ افغان پناہ گزینوں کی بابت البتہ بہتوں کا ذاتی رویہ نیم جانبداری کا تھا ۔ دیگر خبریں نشر کرتے ہوئے لگتا کہ نرے اعداد و شمار ہیں ۔ یوں ہندسے ہی سچائیاں تھے اور انسانی حقیقتیں کہِیں اِن کے پیچھے جا چھپی تھیں۔ نئی صدی کی کم و بیش ایک چوتھائی گزر جانے پر وطن ِ عزیز میں تازہ بے یقینی کی بات کچھ اَور ہے۔ یہاں خبری حقائق بتاتے ہوئے انسانی سچائیاں ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہیں۔ اَور اِن سچائیوں کو بیان کرنے کا حوصلہ کسی میں ہے ، کسی میں نہیں۔ رہے نام اللہ کا ۔

QOSHE -    پُرانے حقائق اور نئی سچائیاں  - شاہد ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

   پُرانے حقائق اور نئی سچائیاں 

16 36
18.02.2024

نفسیات دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی شخصیت کے بنیادی خدو خال سات سال کی عمر تک متعین ہو جاتے ہیں ۔ جیسے کچھ لوگ شروع سے تنہائی پسند ہوں گے اور کچھ رونق میلے کے رسیا ، بعض میں مقابلے کا رجحان زیادہ ہوگا اور بعض میں قناعت کا ۔ اسی طرح ایک شخص بھلا مانس سمجھا جاتا ہے ، دوسرا چکر باز حسینہ اور تیسرا دنیا و آخرت میں دونوں میں سُرخرو ۔ یوں ، لوگوں کو جتنی اقسام میں چاہیں بانٹ لیں ، مگر کسی بھی زمرہ بندی کا دارومدار آپ کے ورلڈ ویو ہی پر ہوتا ہے۔ یہی کہ انسان کا انسان سے رشتہ ، اُس کا کائنات سے تعلق اور خالق و مخلوق کا باہمی ربط۔ انہی سچائیوں میں موت و حیات کا تصور بھی شامل سمجھنا چاہیے۔ خاص طور پر کورونا کی دوسری، تیسری اور چوتھی لہر کے بعد جو دب تو گئی لیکن تاحال سوشل میڈیا کا سورج ہر روز کسی نہ کسی جاننے والے کے کُوچ کی خبر لے کر طلوع ہو رہا ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

شاعرِ فطرت ولیم ورڈزورتھ نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ” بچپن میں مجھے موت کے تصور کو ایک ایسی باطنی کیفیت کے طور پر قبول کرنا نہایت دشوار لگا جو خود میرے دل و دماغ پر طاری ہو سکتی ہو ۔ “ شاید بچپن میں ہر کسی کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ سارا زمانہ فنا ہو جائے ، مَیں کبھی نہیں مروں گا۔ مشہور نظم ’وی آر سیون ‘ اِس کی واضح مثال ہے ، جس میں ایک بھائی اور بہن سے محروم ہو جانے والی کمسن لڑکی سمجھ ہی نہیں پاتی کہ اُس کے یہ بہن بھائی دنیا سے چلے گئے ہیں ۔ یہ تو ہوئی موت کی نفسیاتی حقیقت ۔ پکی پکائی دیگوں اور پڑھے پڑھائے سیپاروں سے پہلے ہمارے آبائی شہر کے ٹبہ سیداں میں موت کی سماجی نوعیت اور طرح کی تھی ۔ کسی گھر سے اچانک دلدوز نسوانی چیخیں بلند ہوتیں ، پھر کچھ وقت کے لیے سناٹا چھا جاتا ۔ چند گھنٹوں میں سامنے کی ڈھلوان گلی سے مَردوں کے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play