تحریک انصاف کی حکومت کو مہنگائی، بیروزگاری اور آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے آئینی طریقہ استعمال کرتے ہوئے پی ڈی ایم بنی، پھر پی ڈی ایم نے قوم پر احسان کیا اور پہلی دفعہ کامیاب عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو چلتا کیا،قوم نے دیکھا میڈیا کے ذریعے ایسا ماحول بنایا گیا کہ اگر پی ڈی ایم کی حکومت اقتدار نہ سنبھالتی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار آئی ایم ایف سے ٹوٹا ہوا معاہدہ دوبارہ نہ کرتے تو ملک دیوالیہ ہو جاتا اور مہنگائی عوام کی پہنچ سے دور ہو جاتی۔وزیر خزانہ نے ڈالر100 اور پٹرول ڈیڑھ سو پر لانے کا اعلان کیا تھا۔ پھر قوم نے دیکھا میاں شہباز شریف نے وزیراعظم بننے کے بعد قوم کو آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کی خوشخبری بنائی اور پاکستانی قوم پر احسان کرتے ہوئے بتایا اگر پی ڈی ایم کی حکومت نہ بنتی تو ملک سو فیصد دیوالیہ ہو جاتا۔ہم نے قوم کو بڑی تباہی سے بچا لیا ہے اور عوام کو ریلیف دیتے ہوئے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کا آغاز کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آئی ایم ایف کی شرائط نے کام دکھانا شروع کیا۔ پٹرول،بجلی،گیس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کیا گیا اور پھر قوم نے دیکھا ملک تو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا، مگر عوام کا دیوالیہ نکال دیا گیا۔16ماہ کی پی ڈی ایم کی حکومت نے عوام کی مہنگائی کی صورت میں ایسی درگت بنائی ان کے لئے دو وقت کی روٹی بھی مسئلہ بن گئی۔ پی ڈی ایم نے جاتے جاتے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انعقاد سے پہلے بننے والی نگران حکومت کے اختیارات میں بھی اضافہ کیا اور ساتھ ہی نگران حکومتوں کو نجکاری کا بھی اختیار دے دیا پھر عوام کو نئے انتخابات نظر آنے لگے تو اس نے جوش و خروش سے مرکز اور صوبوں میں نگرانوں کا استقبال کیا شاید اب کچھ ریلیف مل جائے گا۔ عوام کی ایسی قسمت کہاں، نگرانوں نے مرکز میں آئی ایم ایف کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں ہفتہ وار اضافہ کیا، گیس کی بھی یہی صورتحال رہی، پٹرول کی قیمتوں میں دو دفعہ کمی کی، عوام خوش ہو گی، مگر ساتھ ہی اسی روز گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔نگران وزیراعظم جو بڑے ذہین نظر آئے انہوں نے اپنے مختصر دورِ اقتدار کو یادگار بنانے کے لئے امریکہ سے لندن تک اور سعودی عرب سے امارات کے بے تحاشا دورے کر کے ریکارڈ بنایا۔ سندھ کے پی کے، بلوچستان کی حکومتیں تاریخ مرتب نہ کر سکی، البتہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نے اپنے اپنے کام شروع کیے جو شاید منتخب حکومت بھی نہ کر پاتی۔ہسپتالوں سے لے کر انڈر پاسز جو اچھے بھلے تھے ان کی توڑ پھوڑ کر کے اربوں روپے لگا کر ری ڈیزائن کرتے ہوئے لائٹیں لگا دی گئی ہیں۔نگران وزیراعلیٰ نے البتہ رِنگ روڈ کا کئی سال سے روکا ہوا کام دوبارہ شروع کرا کے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ان کا بڑا کارنامہ ہے البتہ گورننس کے حوالے سے نگران حکومت کوئی کارہائے نمایاں انجام نہیں دے سکی،

بالاج ٹیپو قتل کیس، گوگی بٹ کا بہنوئی خواجہ ندیم وائیں گرفتار

جتنی دکانیں ہیں اتنے ریٹ مارکیٹ میں چل رہے ہیں،پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان موجود ہے شاید محسن نقوی جو تیزی سے کام کر کے سپیڈ محسن کا لقب حاصل کر چکے ہیں انہیں پولیس کی زیادتیاں اور گلی محلوں میں بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائم آج تک نظر نہیں آئے البتہ نگران وزیراعلیٰ کے زیر نگرانی ایک سال میں واسا لاہور نے500ماہانہ بلز1000کیا اور اسی سال کے اندر 2450 کیا اور پھر سال مکمل نہیں ہوا2850 کر دیا گیا۔ اب نگرانوں کے آخری دِنوں میں فروری کا بل 3450 آیا ہے دلچسپ صورتحال ہے پہلے پانی24گھنٹے آتا تھا اب تین وقت پانی آتا ہے، 24گھنٹے کی بجائے چھ سے آٹھ گھنٹے پانی دے کر بل 500 سے 3450 کر دیا گیا اس میں آدھا بل سیوریج کا ڈالا گیا ہے۔ آدھے لاہور میں گٹر اور صاف پانی کے پائپ ملے ہوئے ہیں لاہور میں 10فیصد گھروں میں واسا کے میٹر لگے ہوئے ہیں عوام سے اربوں روپے وصول کرنے والا واسا، واپڈا کا سات ارب کا مقروض ہے۔ افسوس نگران وزیراعلیٰ کو واسا کی حقیقی صورتحال سے آج تک آگاہ نہیں کیا گیا۔لاہور میں اس وقت عجیب صورتحال ہے پانی آتا نہیں بل بے تحاشا آ رہے ہیں۔یہی صورتحال واپڈا کی ہے، سردیوں میں بھی لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوئی 10روپے والا یونٹ60روپے تک کر دیا گیا ہے اور لائن لائسز اور ایڈجسٹمنٹ کے نام پر لوٹ مار کا نشانہ براہ راست عوام ہیں۔ افسوس اس بات پر ہوتا ہے نگران حکومتیں جس مقصد کے لئے بنائی جاتی ہیں تمام صوبے اور مرکز ان ذمہ داریوں کی طرف دیکھنے کے لئے تیار نہیں ہے البتہ ان کی کوشش ہے ایسے تاریخی اور منفرد کام وہ کر جائیں، عوام ان کے کارناموں کو یاد رکھیں حالانکہ آٹھ فروری کے ہونے والے انتخابات میں جتنے تحفظات سامنے آئے ہیں جیتنے والے بھی پریشان ہیں اور شکست سے دوچار ہونے والے بھی واویلا کر رہے ہیں لمحہ فکریہ انتخابی عمل اتنا مہنگا کر دیا ہے عام آدمی نے تو سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔الیکشن کمیشن اور نگران حکومتیں چاروں صوبوں سے اُٹھنے والے احتجاج کو سنجیدہ لینے کے لئے تیار نہیں ہے،حالانکہ تاریخ بتاتی ہے ایسے حالات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور خطرناک ہوتی ہے، کوئی ریاستی ادارہ ادراک کرنے کے لئے تیار نہیں۔

پنجاب اسمبلی اجلاس، ن لیگ نے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب سے متعلق اچانک حیران کن اعلان کر دیا

اندھیر نگری دیکھ لی بجلی کی قیمتیں آئی ایم ایف کے حکم پر بڑھائیں گئیں، گیس کی قیمتوں کو آگ آئی ایم ایف کے حکم پر لگائی،گیس کی چار سو فیصد اور واسا پانی کی قیمت تین سو فیصد خسارہ پورا کرنے کے لئے بڑھائی گئی۔ گیس کا بل جو دو ہزار آتا تھا،11ہزار تک پہنچ گیا ہے،پانچ ہزار والوں کا45ہزار تک بل آیا ہے نیا ٹیرف جو سامنے آیا ہے گیس استعمال نہ بھی کریں تو 700 بل آئے گا اللہ خیر کرے بلوں نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ نگران حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی ایک ماہ میں دوسری دفعہ قیمت اپنے روزمرہ کے استعمال کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے بڑھا دی ہے۔ پی ٹی سی ایل جس کا مقابلہ پوری دنیا کے جدید نیٹ ورک سے ہے اس نے بھی فروری کے بلوں میں ایک ہزار روپے بڑھا دیئے ہیں عوام کیا کریں، پانی، بجلی، گیس نہیں آ رہی اگر چند گھنٹوں کے لئے آ رہی ہے اس کے لئے شیڈول دیا گیا ہے مگر بلز میں اضافہ بے تحاشا کر دیا گیا ہے جو عوام کو زندہ درگور کرنے کے لئے کافی ہے اب رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، گندم کی اچانک قیمت بڑھا دی گئی ہے اس کا مطلب ہے آٹا بھی مزید مہنگا ہو جائے گا۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے موجودہ نگران حکومت پی ڈی ایم کی 16ماہ کی حکومت کا ریکارڈ برابر کرنا چاہتی ہے کسی چیز کی قیمت میں کمی نہیں کی جا رہی آخر دِنوں میں ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے والی اتھارٹی کو ہی ختم کر دیا گیا ہے اب صنعتکار اور مالکان خود ادویات کی قیمتوں کا تعین کریں گے، مہنگائی وہ یوٹیلٹی بلز کی ہو یا روزمرہ استعمال کی اشیاء کی،اس سے متاثر ہونے والی عوام کو اب کھانے کے لئے گولی بھی نہیں ملے گی،خدارا ہوش کے ناخن لیجئے۔ آٹھ فروری کو جو ا لیکشن ہوئے اب تک کے نتائج اور اثرات کے مطابق ان سے استحکام کی بجائے افراتفری دیکھنے کو ملی ہے کوئی جماعت دوسرے کی فتح کو قبول کرنے اور سپیس دینے کو تیار نہیں ہے۔ چاروں اطراف سے آوازیں آ رہی ہیں خدارا مل کر بیٹھ جائیں ورنہ جمہوریت سے اعتبار اُٹھ رہا ہے۔ پی ڈی ایم کے بعد نگرانوں نے جو حال کیا ہے آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد متوقع پی ڈی ایم ٹو کی حکومت کے آنے سے پہلے ہی عوام سر پکڑ بیٹھی ہے کیونکہ آئی ایم ایف کا پہلا معاہدہ ابھی کسی کو سونے نہیں دے رہا۔قوم کے لئے بڑی خوشخبری ہے آٹھ فروری کے الیکشن سے پہلے ایک دوسرے کو مہنگائی، بیروز گاری کا ذمہ قرار دینے والے بلاول کے اَبا صدرِ پاکستان اور زرداری کا پیٹ پھاڑنے کا دعویٰ کرنے والے میاں شہباز شریف دوسری دفعہ وزیراعظم بن رہے ہیں۔سندھ اور پنجاب میں پہلی دفعہ خواتین وزیراعلیٰ بن رہی ہیں۔ عوام اور ہارنے والوں کے احتجاج کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے آنے والا ہفتہ اہم ہے اس میں پارلیمینٹ اور وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ حلف اٹھائیں گے اس سے اگلا ہفتہ اس سے بھی اہم ہے اس میں سینیٹ کے انتخاب ہوں گے۔ نومنتخب حکومت کے حلف اٹھاتے ہی آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ کرنا ہے پہلے معاہدے کا فرض اور اثرات نے پانی، بجلی، گیس، فون، پٹرول اور روزانہ استعمال کی اشیاء عوام کی پہنچ سے دور کر دی ہیں نیا معاہدہ کیا رنگ دکھائے گا اللہ خیر کرے۔

پنجاب اسمبلی کا اجلاس، ن لیگ کے اراکین اسمبلی کیا چیز ہاتھ میں اٹھا کر اسمبلی پہنچ گئے ؟ جانئے

٭٭٭٭٭

QOSHE -         گیس، بجلی، پانی نہیں آتا …… بلوں نے چیخیں نکال دیں  - میاں اشفاق انجم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        گیس، بجلی، پانی نہیں آتا …… بلوں نے چیخیں نکال دیں 

18 0
23.02.2024

تحریک انصاف کی حکومت کو مہنگائی، بیروزگاری اور آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے آئینی طریقہ استعمال کرتے ہوئے پی ڈی ایم بنی، پھر پی ڈی ایم نے قوم پر احسان کیا اور پہلی دفعہ کامیاب عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو چلتا کیا،قوم نے دیکھا میڈیا کے ذریعے ایسا ماحول بنایا گیا کہ اگر پی ڈی ایم کی حکومت اقتدار نہ سنبھالتی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار آئی ایم ایف سے ٹوٹا ہوا معاہدہ دوبارہ نہ کرتے تو ملک دیوالیہ ہو جاتا اور مہنگائی عوام کی پہنچ سے دور ہو جاتی۔وزیر خزانہ نے ڈالر100 اور پٹرول ڈیڑھ سو پر لانے کا اعلان کیا تھا۔ پھر قوم نے دیکھا میاں شہباز شریف نے وزیراعظم بننے کے بعد قوم کو آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کی خوشخبری بنائی اور پاکستانی قوم پر احسان کرتے ہوئے بتایا اگر پی ڈی ایم کی حکومت نہ بنتی تو ملک سو فیصد دیوالیہ ہو جاتا۔ہم نے قوم کو بڑی تباہی سے بچا لیا ہے اور عوام کو ریلیف دیتے ہوئے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کا آغاز کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آئی ایم ایف کی شرائط نے کام دکھانا شروع کیا۔ پٹرول،بجلی،گیس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کیا گیا اور پھر قوم نے دیکھا ملک تو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا، مگر عوام کا دیوالیہ نکال دیا گیا۔16ماہ کی پی ڈی ایم کی حکومت نے عوام کی مہنگائی کی صورت میں ایسی درگت بنائی ان کے لئے دو وقت کی روٹی بھی مسئلہ بن گئی۔ پی ڈی ایم نے جاتے جاتے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انعقاد سے پہلے بننے والی نگران حکومت کے اختیارات میں بھی اضافہ کیا اور ساتھ ہی نگران حکومتوں کو نجکاری کا بھی اختیار دے دیا پھر عوام کو نئے انتخابات نظر آنے لگے تو اس نے جوش و خروش سے مرکز اور صوبوں میں نگرانوں کا استقبال کیا شاید اب کچھ ریلیف مل جائے گا۔ عوام کی ایسی قسمت کہاں، نگرانوں نے مرکز میں آئی ایم ایف کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں ہفتہ وار اضافہ کیا، گیس کی بھی یہی صورتحال رہی، پٹرول کی قیمتوں میں دو دفعہ کمی کی، عوام خوش ہو گی، مگر ساتھ ہی اسی روز گیس اور بجلی کی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play