نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں معاہدہ طے پا گیا، جسے سوائے عہدوں کی بندر بانٹ کے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پہلے بھی ایسا ہی ہوا تھا، لیکن تب عوام کو شہباز شریف سے بڑی توقعات تھیں اور لوگ بلاول بھٹو سے راضی تھے، اب کی بار شہباز شریف تو وہیں ہیں، لیکن بلاول بھٹو کی جگہ آصف علی زرداری نے لے لی ہے۔

جس طرح شہباز شریف کی ساری سیاست کا محور نواز شریف رہے ہیں اسی طرح بلاول بھٹو کی ساری سیاست کا مقصد آصف زرداری ہیں۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو اپنی اپنی پارٹیوں کے ون ڈاؤن بیٹسمین ہیں، جب بھی ان پارٹیوں کے اوپنر بیٹسمین اپنا آپ ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں، یہ دونوں ون ڈاؤن بیٹسمین پیڈ کر کے سامنے آ جاتے ہیں۔

عمران ریاض اس وقت کہاں ہیں اور کس نے گرفتار کیا؟ ڈیلی پاکستان نے پتا لگا لیا

عوام کو اس بار ان سے کیا توقع ہو گی، ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ یہ ان دونوں کی ہی کارکردگی تھی جس نے ان دونوں پارٹیوں،خاص طور پر نون لیگ کو یہ دن دکھایا تھا اگرچہ پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے شہباز شریف کی کمی محسوس نہیں ہونے دی تھی، مگر چونکہ وہ عوام کے منتخب شدہ نمائندے نہیں ہیں اِس لئے محترمہ مریم نواز کو پنجاب میں فیلڈ کیا جا رہا ہے، حالانکہ اِس سیٹ اپ پر شہباز شریف کی نظر ضرور ہو گی۔ یوں بھی ان کا اندازِ سیاست پنجاب میں ہی بھلا لگتا ہے، مرکز میں جس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شہباز شریف کی میک اس سے لگا نہیں کھاتی۔

پشاور ہائیکورٹ؛ پنجاب سے نومنتخب رکن اسمبلی محمد احمد چٹھہ کی 8مارچ تک راہداری ضمانت منظور کرلی

دوسری جانب نواز شریف کو سبکی کا سامنا ہے، عوام نے پاکستان کو نہیں نوازا، اور اگر نوازا بھی ہے تو اس طرح سے نہیں نوازا جس طرح نواز شریف کی توقع تھی، اس کے برعکس شہباز شریف اور آصف علی زرداری کی توقعات پوری ہو گئیں۔ نواز شریف کی طرح بلاول بھٹو بھی نہائے دھوئے رہ گئے اور دونوں کی ناک پر مکھی بیٹھ گئی۔

اگر 2023ء کے مئی کے مہینے میں انتخابات ہو جاتے توکیا یہی نتائج نکلتے جو 2024ء کے فروری میں برآمد ہوئے ہیں؟ گزشتہ برس دونوں مواقع پر عمران خان جیل سے باہر تھے، انہیں کسی مقدمے میں سزا نہیں ہوئی تھی۔ 9مئی کا سانحہ ہوا تو عمران خان کو جیل جانا پڑا اور عام انتخابات سے عین قبل انہیں اوپر تلے 24 برس کے لئے سزا بھی ہو گئی، اس کے بعد ان کی پارٹی کو بلے کے نشان سے بھی محروم کر دیا گیا، مگر نتائج کو دیکھا جائے تو پاکستان کے لوگوں نے غداروں کو اکثریت دلوا دی،اس کے پیچھے کارفرما عوامل کچھ بھی ہوں،پی ٹی آئی کے آزاد اراکین واحد اکثریتی گروپ کے طور پر پارلیمنٹ میں موجود ہیں، اس کی بڑی وجہ پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں میں انتخابی اتحاد کا نہ ہونا تھا۔ مذہبی جماعتیں علیحدہ سے پنجاب میں نون لیگ، سندھ میں پیپلز پارٹی اور کے پی میں مولانا کے خلاف صف آرا رہیں،چنانچہ اس انتخابی حکمت عملی کے سبب یہ نتیجہ آیا وگرنہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ اگر انتخابات کے بعدمل سکتے ہیں تو پہلے کیوں نہیں مل سکتے تھے، اس میں یقینی طور پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے عقاب راضی نہ ہوئے ہوں گے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ 2023ء کے مئی یا نومبر میں انتخابات ہو جاتے تو پی ڈی ایم بطور اتحادی جماعت کے الیکشن لڑ لیتی جب اسٹیبلشمنٹ دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی اور امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ بھی عمران خان کے نشانے پر تھی، اب ہماری اسٹیبلشمنٹ تومضبوط نظر آتی ہے،

بالاج ٹیپو قتل کیس، گوگی بٹ کا بہنوئی خواجہ ندیم وائیں گرفتار

لیکن بائیڈن انتظامیہ اندرونی چیلنجز کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر مزید کمزور پڑ چکی ہے، اتنی دیر بعد انتخابات کا صرف یہ فائدہ ہوا ہے کہ آج پی ٹی آئی اس طرح والی دھاندلی کا شور نہیں کر رہی جس طرح کا اندازہ انتخابات سے پہلے لگایا جا رہا تھا کہ نون لیگ کو واک تھرو دے دیا جائے گا اور پی ٹی آئی کا مینڈیٹ چوری کر لیا جائے گا۔ آج اگر پی ٹی آئی والے مینڈیٹ چوری کا کہتے ہیں تو ان فارم 45 کی بنیاد پر کہتے ہیں جن کو ابھی الیکشن ٹربیونلوں میں ٹرائل کی آزمائش سے گزرنا ہے وگرنہ انہیں جو مینڈیٹ حاصل ہے اس سے وہ حکومت نہیں بنا سکتے، یعنی ان کو پی ٹی آئی کو جوتا مل گیا ہے جو پاؤں کے سائز سے آدھا انچ چھوٹا ہے جسے پہنا جا سکتا ہے نہ پھینکا جا سکتا ہے!

پنجاب اسمبلی اجلاس، ن لیگ نے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب سے متعلق اچانک حیران کن اعلان کر دیا

اس ساری دھینگامشتی میں مولانا فضل الرحمن ملیا میٹ ہو گئے ہیں۔ ان کا غصہ بتاتا ہے کہ انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا ملی ہے، لیکن ابھی تک کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہی ہے کہ مولانا کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ مرکز سمیت ہر جگہ سے انہیں اقتدار سے نکال باہر کیا گیا ہے اور اس ضمن میں کی جانے والی آخری کوشش بھی رائیگاں گئی ہے اور اسحاق ڈار نے مولانا غفوری حیدری کو واضح کردیا کہ مولانا آپ نے آنے میں دیر کردی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ دیر اور کتنی دیر مولانا کی راہ میں حائل رہے گی۔

معاملہ کچھ بھی ہو، اب ایک حکومت کے قیام کے خدوخال واضح ہو چکے ہیں اِس لئے تمام فریقین کو ماضی کی رنجشوں کو بھلا کر آگے بڑھنا چاہئے اور درپیش چیلنجوں سے نپٹنے کے لئے تیار ہو جائیں، کیونکہ ان سے نپٹے بغیر عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری کے عفریت سے نجات نہیں دلائی جا سکتی، یہ الگ بات کہ نواز شریف کے رویے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جان گئے ہیں کہ یہ عوام کسی قسم کے ترس کے لائق نہیں کہ ایک طرف تو یہ چاہتے ہیں کہ نون لیگ انہیں دوبارہ سے ترقی کی راہ پر ڈالے اور دوسری طرف نون لیگ کو ووٹ دیتے ہوئے شرماتے بھی ہیں۔پراپیگنڈہ میں کتنی طاقت ہوتی ہے اس کا اندازہ پی ٹی آئی کے طرزِ سیاست کو دیکھ کر بآسانی کیا جا سکتا ہے۔

پنجاب اسمبلی کا اجلاس، ن لیگ کے اراکین اسمبلی کیا چیز ہاتھ میں اٹھا کر اسمبلی پہنچ گئے ؟ جانئے

QOSHE -        ن ڈاؤن بیٹسمین  - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       ن ڈاؤن بیٹسمین 

7 0
23.02.2024

نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں معاہدہ طے پا گیا، جسے سوائے عہدوں کی بندر بانٹ کے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پہلے بھی ایسا ہی ہوا تھا، لیکن تب عوام کو شہباز شریف سے بڑی توقعات تھیں اور لوگ بلاول بھٹو سے راضی تھے، اب کی بار شہباز شریف تو وہیں ہیں، لیکن بلاول بھٹو کی جگہ آصف علی زرداری نے لے لی ہے۔

جس طرح شہباز شریف کی ساری سیاست کا محور نواز شریف رہے ہیں اسی طرح بلاول بھٹو کی ساری سیاست کا مقصد آصف زرداری ہیں۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو اپنی اپنی پارٹیوں کے ون ڈاؤن بیٹسمین ہیں، جب بھی ان پارٹیوں کے اوپنر بیٹسمین اپنا آپ ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں، یہ دونوں ون ڈاؤن بیٹسمین پیڈ کر کے سامنے آ جاتے ہیں۔

عمران ریاض اس وقت کہاں ہیں اور کس نے گرفتار کیا؟ ڈیلی پاکستان نے پتا لگا لیا

عوام کو اس بار ان سے کیا توقع ہو گی، ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ یہ ان دونوں کی ہی کارکردگی تھی جس نے ان دونوں پارٹیوں،خاص طور پر نون لیگ کو یہ دن دکھایا تھا اگرچہ پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے شہباز شریف کی کمی محسوس نہیں ہونے دی تھی، مگر چونکہ وہ عوام کے منتخب شدہ نمائندے نہیں ہیں اِس لئے محترمہ مریم نواز کو پنجاب میں فیلڈ کیا جا رہا ہے، حالانکہ اِس سیٹ اپ پر شہباز شریف کی نظر ضرور ہو گی۔ یوں بھی ان کا اندازِ سیاست پنجاب میں ہی بھلا لگتا ہے، مرکز میں جس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شہباز........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play