مریم نواز کی حکمرانی کا پنجاب سے آغاز ہو گیا ہے، بلاول بھٹوکی حکمرانی کا سفر ابھی شروع نہیں ہوا، وہ یا تو سڑکیں ناپتے پائیں جائیں گے یاایک مرتبہ پھر سے مانگے تانگے کی وزارت خارجہ چلائیں گے ۔ ہم تو بار بار کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور بلاول بھٹو کو سندھ کا حکمران بنا دینا چاہئے ، کم از کم عوام کو اپنی حاکمانہ صلاحیتوں کے بارے میں بتانے کے لئے کچھ تو ان کے پاس ہو گا۔ اپنے نانا اور والدہ کی میراث پر کب تک وہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائے رہیں گے۔یوں بھی اگر بلاول بھٹو سندھ کے وزیراعلیٰ بن جائیں اور ادھر پنجاب میں مریم نواز کی حکومت ہو، جیسا کہ ہو گی، تو عوام کو مستقبل میں ان دونوں کا موازنہ کرنے میں آسانی رہے گی، مگر کیا کریں کہ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو وزارت عظمیٰ کا stuffبنائے رکھنے پر بضد ہے اور سمجھتی ہے کہ اس سے کم پر بلاول بھٹو کے لئے وہ راضی نہ ہو گی جو کسی بھی اعتبار سے سیاسی دانشمندی نہیں ہے۔

میری خواہش پی ایس ایل میں زیادہ سکور کرنے والا بیٹر بننا ہے: سلمان آغا

البتہ آصف علی زردار ی دوسری مرتبہ ایوانِ صدر جانے کے لئے تیاری پکڑ چکے ہیں، حالانکہ وہ خود اس آفس سے جڑے اختیارات پارلیمنٹ کو واپس کر کے اس عہدے کو ٹکاٹوکری کر چکے ہیں۔ اب دوبارہ سے ایوانِ صدر میں براجمان ہو کر کہیں وہ ملک میں صدارتی نظام نہ لے آئیںکیونکہ ان سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔

دوسری جانب مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف دونوں کو اسٹیبلشمنٹ نے عوامی ووٹ کے ذریعے مسترد کر دیا ہے۔ وہ جو کہتے تھے کہ نواز شریف کی سیاست ختم ہو گئی، آج سچے ثابت ہوئے ہیں۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے، بات کہیں سے کہیں جا پہنچی ہے۔ تبھی تو آج نواز شریف مریم نواز کو اور مولانا فضل الرحمن اسد الرحمن کو ایڈجسٹ کرتے پائے جاتے ہیں۔ یہ دونوں حضرات اپنی آئندہ کی سیاست نئی نسل کے ذریعے چلانے پر آمادگی دے چکے ہیں۔ آصف علی زرداری ان دونوں سے عمر میں چھوٹے ہیں ،اس لئے ان کی لاٹری لگنے والی ہے۔

ایف آئی اے کی کراچی میں کارروائی، سونے کی اینٹیں برآمد

اب جبکہ حکومت سازی کاعمل شروع ہو گیا ہے،پی ٹی آئی کی جانب سے فارم 45 پر جیت کی گونج دب گئی ہے، اس سے قبل سوشل میڈیا کے بند ہونے کی وجہ سے بھی اس گونج کی دھمک کم ہو گئی تھی۔ اب پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت اس شدومد سے انتخابات کو متنازع نہیں بنا رہی جس شدت سے میڈیا پر بنایا جا رہا تھا۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اسے عوام کی ڈیمانڈ بنا کر پیش کرنا چاہتا تھا اور خوب شور مچانے کا ارادہ رکھتے تھے مگر سوشل میڈیا کے پر کاٹ دیئے گئے جبکہ الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھے بھونپوﺅں کو نون لیگ نے نشانے پر رکھ لیا اور انہیں خاموش ہونا پڑگیا۔بین الاقوامی سطح پر بھی مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف بیانات لئے گئے جس کا مقصد بھی پورے انتخابی عمل کو متنازع بنا نا تھا، مگر بھلا ہو آصف علی زرداری کا انہوں نے پی ٹی آئی کی بجائے نون لیگ کا ساتھ دینے کا ارادہ کیا۔پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کے لئے تعاون پیش کیا تو انہوں نے انکار کر دیا، کیونکہ پی ٹی آئی حکومت بنانے سے زیادہ انتخابات کو متنازع بنانے کے لئے پیپلز پارٹی کا ساتھ چاہتی تھی جس کے لئے آصف زرداری تیار نہ ہوئے ، ممکن ہے بلاول بھٹو ہو جاتے، مگر وہ بھی باز رہے اور یوں پی ٹی آئی کا سارا کھیل اس حد تک بگڑ گیا کہ عمران خان آئی ایم ایف کو خط لکھ کر امداد رکوانے کی دھمکیوں پر اتر آئے۔ اس دوران کمشنر اسلام آباد نے بھی تنازع کو ہوا دینے کی کوشش کی، مگر اسٹیبلشمنٹ نے بروقت اس پر قابو پالیا اور پی ٹی آئی کی جانب سے کسی احتجاج، کسی دھرنے اور کسی توڑ پھوڑ کی کال نہ دی جا سکی،بلکہ سچ پوچھئے تو وہ باتوں باتوں میں شہباز شریف کی حکومت کو عملی جامہ پہنانے جا رہی ہے۔

اونچ نیچ ہوتی رہتی ہیں، کوشش کروں گا آئندہ میچز میں اپنے روایتی چھکے ماروں: اعظم خان

کچھ ایسا ہی منظر یہاں پنجاب میں بھی تھا جہاں پی ٹی آئی کے سپیکر سبطین خان ریٹائر ہونے سے پہلے آخری شارٹ کھیلنا چاہتے تھے، مگر کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ پنجاب کی انتظامیہ نے کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نپٹنے کے لئے پوری تیاری کر رکھی تھی ۔سپیکر کی جانب سے آ جا کر ایک ہی مطالبہ سامنے آیا کہ مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے بغیر ہا_¶س مکمل نہیں ہوگا۔ مگر الیکشن کمیشن نے ہر طرح کی دھونس دھاندلی کو خا طر میں نہ لاتے ہوئے نہ تو آزاد امیدواروں کو اور نہ ہی صاحبزادہ حامد رضا کی سنی تحریک کو مخصوص نشستوں میں سے کوئی حصہ دیا ۔

سعودی وزارت نےبغیر اجازت حج کرنے والوں کو خبردار کردیا

پی ٹی آئی ہر حال میں بیبا بچہ بن کر دکھانا چاہتی ہے۔ وہ کوئی جھگڑا فساد نہیں چاہتے۔ بس ایک زبانی دعویٰ ہے کہ ہماری 180 نشستیں ہیں، لیکن اس دعوے پر عوام کو موبلائز کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ ان سے تو بلاول بھٹو بھی ناراض ہوں گے کہ پی ٹی آئی نے ان کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو جھٹک دیا اور اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا۔ ممکن ہے اب پی ٹی آئی بلاول بھٹو کو اپوزیشن لیڈر مان لے اور آزاد امیدواروں کے سنی تحریک کے حق میں جمع کروائے گئے بیان حلفی دھرے کے دھرے رہ جائیں۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ یہ آزاد اراکین قومی اسمبلی شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے لئے بھی حمائت کر دیں۔ خفیہ رائے شماری میں کون کس کو ووٹ کرتا ہے ، اس کا شائد پی ٹی آئی کو اندازہ بھی نہ ہو سکے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

QOSHE -    مریم نواز کی حکمرانی کا آغاز - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

   مریم نواز کی حکمرانی کا آغاز

4 0
25.02.2024

مریم نواز کی حکمرانی کا پنجاب سے آغاز ہو گیا ہے، بلاول بھٹوکی حکمرانی کا سفر ابھی شروع نہیں ہوا، وہ یا تو سڑکیں ناپتے پائیں جائیں گے یاایک مرتبہ پھر سے مانگے تانگے کی وزارت خارجہ چلائیں گے ۔ ہم تو بار بار کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور بلاول بھٹو کو سندھ کا حکمران بنا دینا چاہئے ، کم از کم عوام کو اپنی حاکمانہ صلاحیتوں کے بارے میں بتانے کے لئے کچھ تو ان کے پاس ہو گا۔ اپنے نانا اور والدہ کی میراث پر کب تک وہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائے رہیں گے۔یوں بھی اگر بلاول بھٹو سندھ کے وزیراعلیٰ بن جائیں اور ادھر پنجاب میں مریم نواز کی حکومت ہو، جیسا کہ ہو گی، تو عوام کو مستقبل میں ان دونوں کا موازنہ کرنے میں آسانی رہے گی، مگر کیا کریں کہ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو وزارت عظمیٰ کا stuffبنائے رکھنے پر بضد ہے اور سمجھتی ہے کہ اس سے کم پر بلاول بھٹو کے لئے وہ راضی نہ ہو گی جو کسی بھی اعتبار سے سیاسی دانشمندی نہیں ہے۔

میری خواہش پی ایس ایل میں زیادہ سکور کرنے والا بیٹر بننا ہے: سلمان آغا

البتہ آصف علی زردار ی دوسری مرتبہ ایوانِ صدر جانے کے لئے تیاری پکڑ چکے ہیں، حالانکہ وہ خود اس آفس سے جڑے اختیارات پارلیمنٹ کو واپس کر کے اس عہدے کو ٹکاٹوکری کر چکے ہیں۔ اب دوبارہ سے ایوانِ صدر میں براجمان ہو کر کہیں وہ ملک........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play