کالم کا عنوان مستند ادیب اور صحافی احمد بشیر مرحوم کی ایک کتاب سے مستعار لیا گیا ہے۔ پریشانی کا سبب البتہ یہ چوری نہیں بلکہ ’پینڈوُ اردو میڈیم‘ کا وہ طعنہ ہے جو اپنی ایک حرکت شیئر کرنے پر عین ممکن ہے کہ آج سننا پڑ جائے۔ حرکت ہے آئی فون، اینڈروئڈ اور مَیک بُک کے دَور میں ٹائم دیکھنے کے لیے سار ا دن کلائی گھڑی باندھے رکھنے کی عادت۔ کہنے والے کہیں گے اوہو، تم جیسے پرانے لوگ تو کئی اَور ہیں، جنہیں احساس تک نہیں کہ کوئلوں والی استری، مینوئل ٹائپ رائٹر ، ’ہِز ماسٹرز وائس‘ کے گراموفون ریکارڈز اور دادا جان کے وال کلاک کی طرح بہت جلد کلائی کی گھڑیاں بھی کسی نہ کسی میوزیم کی زینت بن چکی جائیں گی۔یوں ماڈرن ذہن کے لوگ بزنس پوائنٹ آف ویو سے ایک اَور سوال بھی کر سکتے ہیں : یہی کہ آپ کے دسویں پاس کرنے پر جو کیمی جنیوا ’اوس زمانے وچ‘ بہتر روپے میں خریدی گئی، کیا بعد از انتخابات پاکستان میں بہتر لاکھ کی بِک جائے گی۔

وفاقی حکومت بننے سے پہلے اسکی مدت سے متعلق منظور وسان کی پیشگوئی سامنے آ گئی

وہ اوّلین رِسٹ واچ تو کب کی اللہ کو پیاری ہو چکی، اب کہانی یہ ہے کہ میری موجودہ گھڑی کے ساتھ کیا ہوا؟ نِیز کب، کیوں اور کیسے؟ یہ میڈیکل ہسٹری گزشتہ تین ماہ پر محیط ہے۔ مذکورہ رِسٹ واچ، جو آج کل کی بیشتر گھڑیوں کی طرح بیٹری سے چلتی ہے، پانچ سال ہوئے ایک دوست نے پیش کی تھی۔ ایک ایسا لج پال دوست جسے دوسروں کو اُسی اعلیٰ معیار کا پائیدار تحفہ دینا اچھا لگتا ہے جسے وہ اپنے لیے پسند کرتا ہو۔ مرض کی علامت مجھ پر گھڑی کی سُست روی کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ اِس پر وہی کیا جو اِس صور تحال میں عملی سوچ رکھنے والا عام آدمی کرتا ہے، یعنی نیا بیٹری سیل ڈلوا لینے کا اقدام۔ نئے سیل نے بظاہر چند ہی ہفتے نکالے ۔ اندازہ لگایا کہ استعمال سے پہلے ہی دکان پہ پڑا پڑا خشک ہو گیا ہوگا ، لہٰذابدل دیا۔ بس جی، یہیِں سے میرا کیس خراب ہونا شروع ہوا۔ کوویڈ کے مرحوم کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کی طرح گھڑی کی یومیہ مانیٹرنگ کی ابتدا کرنے کی دیر تھی کہ پہلے ہی روز گھڑی ایک منٹ پیچھے پائی گئی۔ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔

شب برأت آج عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جائے گی

میری تشویش کو ابھی سوشل میڈیا پر وائرل نہ کیجیے ۔ (کیا پتا ترمیم کردوں!) نکتہ یہ ہے کہ ڈیجیٹل واچز، جنہیں مقبول ہوئے اب کئی دہائیاں ہو چکیں، پچھلی صدی کی چابی والی گھڑیوں سے بہت مختلف ہیں۔ بنیاد ی فرق یہ کہ پرانی گھڑیوں کو چابی دینے سے ایک اسپرنگ نما آلہ گھومتے گھومتے سکڑ سا جاتا اور اُس کے بتدریج کھُلتے جانے کے نتیجے میں سوئیاں ڈائل پہ چکر کاٹتی رہتیں۔ اِس عمل کا زمانی دائرہ چوبیس گھنٹے کے برابر تھا ۔ اِس بِیچ کلائی کی آٹو میٹک گھڑیاں بھی آ گئیں ۔ بنیادی اصول پھر بھی یہی تھا کہ ہاتھ کو دائیں بائیں یا اوپر نیچے جنبش دینے سے خودبخود چابی بھر جاتی ، باقی طریقِ کار پہلے جیسا۔ نئے زمانے کی الیکٹرانک واچ، کوارٹز کرسٹل کے ماتحت، چابی کی محتاج نہیں ۔ اِس لیے مَین اسپرنگ آہستہ یا تیز کھُلنے کا سوال ہی نہیں اور نہ سوئیوں کی رفتار آگے پیچھے ہوتی ہے۔ چنانچہ جب میری گھڑی کی سست روی ایک منٹ یومیہ کی شرح سے بڑھنے لگی تو مَیں نے کسی اچھے گھڑی ساز سے رجوع کرنے کی ٹھان لی۔ یہ ایک ابتدا تھی۔

میری خواہش پی ایس ایل میں زیادہ سکور کرنے والا بیٹر بننا ہے: سلمان آغا

اگلی بات سمجھانے کے لیے آپ کو میرے ایک پوٹھوہاری دوست سے مِلنا ہوگا جو زرعی اراضی کے مقدمہ میں مخالف فریق سے سالہا سال تک اُلجھے رہے ۔ وکلا سے مسلسل پیشہ ورانہ رابطے اور اپیل در اپیل عدالتی لڑائی لڑنے پر بھی آخر کار فیصلہ موصوف کے حق میں نہ ہو سکا۔ اِس پر انہوں نے اپنے ایک حمایتی سے برجستہ کہا تھا : ”راجیا، باڑی نے نئیں ملی،پر قانونے نے واقف ہوئی گچھے آں۔“ یعنی راجہ صاحب، ہم مقدمہ تو ہار چکے اور زرعی زمین نہیں مِلی لیکن قانون سے واقفیت ہو گئی ہے۔“ دوست کی اراضی کی طرح خدا جانے میری گھڑی کا کیا بنے گا ؟ ہاں، سوئیوں کی بے رہروی کا سراغ لگانے کے تحقیقی عمل میں پچھلی صدی کے دوران کھو جانے والے ایک رشتے کی تجدید ہو گئی ہے۔ آغاز گھڑی ساز کے سامنے ڈیجیٹل واچ کے سُست پڑ جانے کی شکایت سے ہوا۔ اُنہوں نے بھی حیرت ظاہر کی تو مَیں نے کہا کہ اِسے دو دن کے لیے اپنے پاس ہی رکھیے، پھر جائزہ لیں گے کہ رفتار کم ہوتی ہے یا زیادہ ۔

ایف آئی اے کی کراچی میں کارروائی، سونے کی اینٹیں برآمد

معینہ شام کو عجیب مکالمہ ہوا۔ مَیں شیشے کے واحد شو کیس پر مشتمل کارنر شاپ پہ پہنچا۔ ملاقات پُرخلوص مگر مصنوعی تپاک سے عاری۔ ”مَیں گھڑی دے گیا تھا، کوئی اندازہ لگایا کہ کیا مسئلہ ہے؟“ ”گھڑی ٹھیک ہے۔ دو دن میرے سامنے پڑی رہی ۔ ایک منٹ آگے پیچھے نہیں ہوئی ۔“ ”اچھا۔۔۔ تو کیا ہدیہ پیش کروں؟“ ”پیسے کِس بات کے؟ مَیں نے تو کچھ کِیا ہی نہیں۔“ ساتھ ہی گھڑی میرے ہاتھ میں ۔ اِس شناسا لہجے سے مجھے ماضی کے ایک باریش گھڑی ساز کا خیال آ گیا۔ یہیں قریب ہی کسی دکان کے برآمدے میں بیٹھتے تھے۔ ایک مرتبہ مَیں نے صفائی کروائی تو اُنہوں نے بہت کم معاوضہ مانگا۔ اپنی خوشی سے کچھ زیادہ دینے کی کوشش کی تو ڈانٹ کر کہا تھا: ”نہیں، اِتنے ہی بنتے ہیں“۔ اب یادوں کی زد میں آ کر پوچھا : ”یہاں شاہ صاحب نام کے ایک بزرگ بھی گھڑیاں ٹھیک کیا کرتے تھے“ ۔ ”جی ہاں، اباجی پچھلے سال فوت ہو گئے۔“ میرے دوستوں میں باپ کے چلے جانے پر بیٹے کا اضافہ اِس فہرست کا واحد حالیہ نام نہیں۔

اونچ نیچ ہوتی رہتی ہیں، کوشش کروں گا آئندہ میچز میں اپنے روایتی چھکے ماروں: اعظم خان

چند ہی سال پہلے میرے ایک جوتے کی سلائی اُکھڑ گئی تو سوچا کہ کیوں نہ اِسے مرمت کروا لیا جائے۔ یہ طرزِ عمل اُس جدید سوچ سے ہٹ کر تھا، جس کے تحت خوشحال لوگ نئے جوڑے پر بے دھڑک اُتنے پیسے خرچ کر دیتے ہیں جتنی قیمت میں ’پینڈو میڈیم‘ آدمی نے میکلوڈ روڈ سے پہلی بار سو سی سی موٹر بائیک خریدی تھی۔ چنانچہ کار نکالی اور گھر کے پاس شاہ جمال مارکیٹ کے نواح میں جا پہنچا۔ اللہ اللہ، آلات و اوزار سے مسلح ایک عمر رسیدہ جفت ساز سڑک کنارے دکان سجائے ہوئے تھے۔ کیا باوقار شخصیت تھی، ہو بہو جارج پنجم کی تصویر۔ مَیں جا کر استقبالیہ بوری پہ بیٹھا ہی تھا کہ بڑے میاں نے پان سگریٹ والے کھوکھے کی طرف دیکھتے ہوئے انگشتِ شہادت زور سے ہلائی۔ دو منٹ میں کوکا کولا کی بوتل سامنے تھی۔ ”بھائی جان، مَیں تو یہ پیتا ہی نہیں۔“ فرمایا ”اب تو کھُل چکی ہے۔“ کوک ختم ہوتے ہی جوتا تیار ہو گیا۔ ”بیس روپے دے دیں۔“ حیرت سے پوچھا: ”اِتنے کم ۔ اِن سے زیادہ کی تو بوتل پلا دی ہے۔“ کہا ”وہ آپ کی قسمت۔“

سعودی وزارت نےبغیر اجازت حج کرنے والوں کو خبردار کردیا

یہی نہیں، مہربانوں کی صف میں سرشتہ دار تعلیم یا ڈی پی آئی (کالجز) کا وہ سٹینو ٹائپسٹ بھی نہیں بھولتا جو غیر ملکی ’اعلیٰ‘ تعلیم سے واپسی پر میری خدمات روٹین میں ڈائرکٹر آف ایجوکیشن لاہور کے حوالے کرنے لگا تھا۔ عرض کی کہ لاہور کی جگہ راولپنڈی لکھ دیں۔ ”اوہو، ٹائپ رائٹر پر نیا کاغذ چڑھانا پڑے گا۔ کاغذ چڑھا اور مَیں نئی تعیناتی کی بدولت حسب ِ خواہش والدین کے پاس پہنچ گیا۔ اب سے چار سال پیشتر بیوی اور خالہ زاد بہن سمیت جولائی کی گرمیوں میں ایم ٹُو پر گاڑی کا ٹائر پھٹنے پہ جو کریش لینڈنگ ہوئی وہ بھی یادگار ہے۔ حاصلِ غزل تھا وہ افسر ٹائپ رحمت کا فرشتہ جس نے امدادی پولیس آنے سے پہلے ہی پیشہ ورانہ مہارت سے پہیہ بدلا اور ہاتھ دھوئے بغیر یہ جا وہ جا۔ آپ پوچھیں گے کہ جوتا کتنے دن چلا اور ڈیجیٹل گھڑی کا کیا بنا؟ گھڑی چل رہی ہے اور جوتے بھی سلامت ہیں۔ ہاں،ایک دوست فوٹوگرافر کی خاطر جفت ساز کی امکانی تصویر کے لئے نکلا تو پتا چلا کہ جارج پنجم دو سال ہوئے انتقال کر چکے ہیں۔

QOSHE -        جو مِلے تھے راستے میں  - شاہد ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       جو مِلے تھے راستے میں 

6 1
25.02.2024

کالم کا عنوان مستند ادیب اور صحافی احمد بشیر مرحوم کی ایک کتاب سے مستعار لیا گیا ہے۔ پریشانی کا سبب البتہ یہ چوری نہیں بلکہ ’پینڈوُ اردو میڈیم‘ کا وہ طعنہ ہے جو اپنی ایک حرکت شیئر کرنے پر عین ممکن ہے کہ آج سننا پڑ جائے۔ حرکت ہے آئی فون، اینڈروئڈ اور مَیک بُک کے دَور میں ٹائم دیکھنے کے لیے سار ا دن کلائی گھڑی باندھے رکھنے کی عادت۔ کہنے والے کہیں گے اوہو، تم جیسے پرانے لوگ تو کئی اَور ہیں، جنہیں احساس تک نہیں کہ کوئلوں والی استری، مینوئل ٹائپ رائٹر ، ’ہِز ماسٹرز وائس‘ کے گراموفون ریکارڈز اور دادا جان کے وال کلاک کی طرح بہت جلد کلائی کی گھڑیاں بھی کسی نہ کسی میوزیم کی زینت بن چکی جائیں گی۔یوں ماڈرن ذہن کے لوگ بزنس پوائنٹ آف ویو سے ایک اَور سوال بھی کر سکتے ہیں : یہی کہ آپ کے دسویں پاس کرنے پر جو کیمی جنیوا ’اوس زمانے وچ‘ بہتر روپے میں خریدی گئی، کیا بعد از انتخابات پاکستان میں بہتر لاکھ کی بِک جائے گی۔

وفاقی حکومت بننے سے پہلے اسکی مدت سے متعلق منظور وسان کی پیشگوئی سامنے آ گئی

وہ اوّلین رِسٹ واچ تو کب کی اللہ کو پیاری ہو چکی، اب کہانی یہ ہے کہ میری موجودہ گھڑی کے ساتھ کیا ہوا؟ نِیز کب، کیوں اور کیسے؟ یہ میڈیکل ہسٹری گزشتہ تین ماہ پر محیط ہے۔ مذکورہ رِسٹ واچ، جو آج کل کی بیشتر گھڑیوں کی طرح بیٹری سے چلتی ہے، پانچ سال ہوئے ایک دوست نے پیش کی تھی۔ ایک ایسا لج پال دوست جسے دوسروں کو اُسی اعلیٰ معیار کا پائیدار تحفہ دینا اچھا لگتا ہے جسے وہ اپنے لیے پسند کرتا ہو۔ مرض کی علامت مجھ پر گھڑی کی سُست روی کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ اِس پر وہی کیا جو اِس صور تحال میں عملی سوچ رکھنے والا عام آدمی کرتا ہے، یعنی نیا بیٹری سیل ڈلوا لینے کا اقدام۔ نئے سیل نے بظاہر چند ہی ہفتے نکالے ۔ اندازہ لگایا کہ استعمال سے پہلے ہی دکان پہ پڑا پڑا خشک ہو گیا ہوگا ، لہٰذابدل دیا۔ بس جی، یہیِں سے میرا کیس خراب ہونا شروع........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play