ہوں، لیکن کیا کیجئے معاشرے میں پھیلے اتنے سارے دہکتے موضوعات ہیں جوتوجہ کسی اور طرف جانے نہیں دے رہے پاکستان میں حال ہی میں ہونے والے انتخابات کا شور ہی ابھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا اس شور کی گونج دنیا بھر میں سنائی دے رہی ہے ہمسایہ ممالک میں بھی انتخابات ہوتے ہیں دنیا کی نظر ان کی طرف نہیں اُٹھتی پاکستان میں انتخابی ہوا چلے یا گلابی موسم آجائے دنیا فوراً پاکستان کی جانب دیکھنا شروع کر دیتی ہے کہ جیسے دنیا نے پاکستان کا ٹھیکہ لے رکھا ہے یا پاکستان کی دنیا کو بہت فکر ہوچلی ہے، حالانکہ پاکستان کی دنیا سے تعلقات کی تاریخ کو دیکھئے تو دنیا کے بڑے ٹھیکیدار۔ امریکہ کے پاکستان سے دوستی کے نام پر دشمنی کے ایسے خطرناک موڑ آتے ہیں کہ دشمن بھی شرما کررہ جائیں کہ ایسی دوستی سے دشمنی ہی بھلی، دشمن کا معلوم تو ہوتا ہے، سامنے دشمن ہے اور دوست تو پشت پر وار کرتا ہے، جس کی خبر بھی نہیں ہوتی یوں امریکہ پاکستان پر دوستی کی آڑ میں کئی وار کر چکا ہے ویسے دوستی اور دشمنی دونوں کا کوئی معیار ہوتا ہے، لیکن انگریز چاہے امریکی ہو کہ برطانوی یہ غیر معیاری لوگ ہیں جن سے مراسم بڑھانا۔ اعتبار کرنا۔مناسب نہیں، لیکن کیا کیجئے زمانے کا چلن بدلا ہے تو ہمارے روئیے بھی تبدیل ہو کررہ گئے ہیں انگریزوں نے بڑی محنت کے ساتھ ہماری ذہن سازی کی ہے ہمیں حالات کی ایسی نہج پر پہنچا دیا ہے،جہاں ہم کھرے کھوٹے کا فرق بھول چکے ہیں بس جب تک ہم کھرے کھوٹے کے فرق کے ساتھ نہیں جئیں گے دنیا ہمارے ساتھ کھیلتی رہے گی ہمارے جذبات کے ساتھ ہمارے معاملات کے ساتھ حتیٰ کہ ہماری زندگیوں کے ساتھ۔ جیسے آج اسرائیل فلسطین کے معصوم شہریوں کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے میں فلسطینی بچوں کی نعشوں کو دیکھتا ہوں تو لگتا جیسے کسی یہودی نے میری آنکھیں نکال دی ہیں خواتین کے مردہ جسم میری غیرت کو للکارتے ہیں جوانوں بوڑھوں کے گھائل جسم اور گلی گلی کراہتے ہوئے زخمی عالم اسلام کی بے بسی کا نوحہ پڑھتے ہیں کہ ہر طرح کے وسائل سے مالامال اُمت مسلمہ صرف مذمتوں تک محدود کیوں ہے اپنے بھائیوں بہنوں کو ہم یہودیوں سے بچا کیوں نہیں رہے؟اس تلخ سوال کے ساتھ دوسرے واقعہ کا ذکر کرتے ہیں چند روز قبل اچھرہ لاہور میں خاتون کا ذکر کرتے ہیں جو اپنے شوہر کے ساتھ ہوٹل پہنچی، جس کالباس عربی زبان کی حروف سے مزین تھا کچھافراد نے سمجھ لیا کہ خاتون نے قرآنی آیات پر مشتمل تحریر اپنے لباس پر لکھوائی ہے۔

مردم شماری اور انتخابی ڈیٹا اکٹھا کرنے والے ٹیبلٹس چوری ہوگئے

انہوں نے خاتون کو گھیرے میں لے لیا ایک خاتون پولیس افسر نے اس خاتون کو جنونی افراد کے حصار سے نکالا اور داد و تحسین پائی اس عظیم کارنامے پر اس خاتون کو میڈل کی سفارش کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے۔کچھ سال قبل ایک وحشی کے ہاتھوں قصور میں معصوم بچی زینب کے اغواء،جنسی تشدد اور قتل کی واردات کو جب میڈیا نے اُٹھایا تو انتظامیہ حرکت میں آئی ملزم پکڑا گیا ٹرائل ہوا اور مجرم انجام کو پہنچا پولیس نے جب اس کیس کا ملزم پکڑا تو اس وقت کی پنجاب حکومت نے پولیس افسران کو مبارکبادیں دیں تالیاں بجائیں ایک معصوم بچی،جس کے والدین عمرہ کرنے گئے ہوئے تھے اس کے اغواء، جنسی زیادتی اور وحشیانہ قتل کے ملزم پکڑنے پر مبارکباد دینے تالیاں بجانے سے لگا جیسے پولیس افسروں کا اس ملزم کو پکڑنا فرض نہیں تھا اور وہ حکومت پاکستان کے ملازم نہیں تھے،بلکہ عام شہری تھے،جنہوں خدمت انسانیت کے جذبہ کے تحت فی سبیل اللہ یہ کام کیا ہے اِس لئے انہیں مبارکبادی دی گئی تالیاں بجائی گئیں، حالانکہ مبارکباد کا مستحق وہ افسر ہوتا ہے، جس کی تعیناتی میں اس کے علاقے کے لوگوں کو جان و مال کا تحفظ ہو ایسے ہی گزشتہ دنوں مذکورہ خاتون کو جب ایک خاتون افسر نے بچایا تو اس کو میڈل دینے کی سفارشیں شروع ہوگئی ہیں جیسے ایک خاتون پولیس افسر نے اس خاتون کو لوگوں کے چنگل سے نہیں نکالا،بلکہ وہ کوئی عام عورت تھی جس نے یہ بہادری دکھائی سو اسے میڈل دیا جانا لازم ہے یہ ایک المیہ ہے اور دوسرا ہمارا المیہ یہ ہے کہ کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ خاتون کے لباس پر عربی زبان میں لکھا کیا ہے بس وہ چڑھ دوڑے۔ معلوم ہوا ہے کہ خاتون کے لباس پر قرآنی آیات نہیں عربی زبان میں کے کچھ حروف تھے اس ہجوم میں کوئی ایک پڑھا لکھا شخص بھی تو ہوگا کہ دیکھے کہ تحریر ہے کیا، لیکن یہ زحمت گوارہ کون کرتا ہے ہمیں تو اپنی قومی زبان ٹھیک طرح بولنی نہیں آتی عربی ہم کیا پڑھیں گے؟

سعودی عرب نے ایک ہی دن میں 7 افراد کے سر قلم کردیئے

اب آجاتے ہیں ایک دوست کی طرف غلام شبیر عاصم کالم نگار ہیں شاعری میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں میں اکثر کہتا ہوں کہ شاعری زبانوں کی محتاج نہیں ہوتی شاعر ہر اس زبان میں شعر کہہ سکتا ہے جو زبان اسے آتی ہے اِس لئے غلام شبیر عاصم بھی مختلف زبانوں میں اپنا ہنر آزماتے رہتے ہیں، لیکن پنجابی زبان ان کی طبیعت کو بھاتی ہے اِس لئے انہوں نے نہ صرف پنجابی زبان میں شعر کہے، بلکہ اس زبان میں انہوں نے کالم نویسی بھی کی ہے اور اپنے پنجابی کالموں پر مشتمل ایک مجموعہ بھی مرتب کیا اور اسے کتابی شکل دے کر مارکیٹ میں بھیج دیا ہے کالوں پر مشتمل کتاب کو۔زیراں زبراں۔ کا نام دیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کسی بھی زبان کی شاعری ہو یا نثر اس میں بات ہی زیر اور زبر کی ہوتی ہے اور یہ زیر اور زبر ہی کسی کو اوپر نیچے کرتی ہے کہ ایک فنکار اپنے فن کے اعتبار سے بعض اوقات اوپر بہت اوپر فن کی کسی چوٹی پر ہوتا ہے اور کوئی نیچے بیٹھا فن کی بلندیوں کو چھونے والے ٹمٹاتے ستاروں کو دیکھ رہا ہوتا ہے غلام شبیر عاصم کی فنی زندگی تو اپنی جگہ ہے یہ آدمی بڑے نفیس ہیں خوش گفتار۔خوش اخلاق اور خوش خوراک بھی اکثر رات کا کھانا کھا کر کہتے ہیں ابھی صبح ناشتے میں جب اس کھانے میں فلاں چیز کا اضافہ ہوا تو پھر دیکھئے گا۔ غلام شبیر عاصم حس مزاح بھی رکھتے ہیں بات کو فوری سمجھ کر اسکا لطف لیتے ہیں جہاں تک ان کے کالموں پر مشتمل کتاب کا ذکر ہے تو اس پر معروف کالم نگار شاعر جناب عطاء الحق قاسمی نے لکھ دیا ہے جو خود اپنی جگہ ایک سند ہے اس لئے مزید لکھنا نادانی ہوگی البتہ اتنا ضرور کہتا ہوں نئے لکھنے والوں کے لئے غلام شبیر عاصم کی کتاب۔زیراں زبراں۔ کا پڑھنا لازم ہے کہ پڑھنے سے ہی ہم علم کی دنیا میں آگے بڑھنے کی راہ پاتے ہیں۔

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر ردعمل امریکہ کا ردعمل آگیا

QOSHE -        زیراں زبراں  - ندیم اختر ندیم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       زیراں زبراں 

23 1
28.02.2024

ہوں، لیکن کیا کیجئے معاشرے میں پھیلے اتنے سارے دہکتے موضوعات ہیں جوتوجہ کسی اور طرف جانے نہیں دے رہے پاکستان میں حال ہی میں ہونے والے انتخابات کا شور ہی ابھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا اس شور کی گونج دنیا بھر میں سنائی دے رہی ہے ہمسایہ ممالک میں بھی انتخابات ہوتے ہیں دنیا کی نظر ان کی طرف نہیں اُٹھتی پاکستان میں انتخابی ہوا چلے یا گلابی موسم آجائے دنیا فوراً پاکستان کی جانب دیکھنا شروع کر دیتی ہے کہ جیسے دنیا نے پاکستان کا ٹھیکہ لے رکھا ہے یا پاکستان کی دنیا کو بہت فکر ہوچلی ہے، حالانکہ پاکستان کی دنیا سے تعلقات کی تاریخ کو دیکھئے تو دنیا کے بڑے ٹھیکیدار۔ امریکہ کے پاکستان سے دوستی کے نام پر دشمنی کے ایسے خطرناک موڑ آتے ہیں کہ دشمن بھی شرما کررہ جائیں کہ ایسی دوستی سے دشمنی ہی بھلی، دشمن کا معلوم تو ہوتا ہے، سامنے دشمن ہے اور دوست تو پشت پر وار کرتا ہے، جس کی خبر بھی نہیں ہوتی یوں امریکہ پاکستان پر دوستی کی آڑ میں کئی وار کر چکا ہے ویسے دوستی اور دشمنی دونوں کا کوئی معیار ہوتا ہے، لیکن انگریز چاہے امریکی ہو کہ برطانوی یہ غیر معیاری لوگ ہیں جن سے مراسم بڑھانا۔ اعتبار کرنا۔مناسب نہیں، لیکن کیا کیجئے زمانے کا چلن بدلا ہے تو ہمارے روئیے بھی تبدیل ہو کررہ گئے ہیں انگریزوں نے بڑی محنت کے ساتھ ہماری ذہن سازی کی ہے ہمیں حالات کی ایسی نہج پر پہنچا دیا ہے،جہاں ہم کھرے کھوٹے کا فرق بھول چکے ہیں بس جب تک ہم کھرے کھوٹے کے فرق کے ساتھ نہیں جئیں گے دنیا ہمارے ساتھ کھیلتی رہے گی ہمارے جذبات کے ساتھ ہمارے معاملات کے ساتھ حتیٰ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play