مریم نواز اپنے والد میاں نواز شریف کے برعکس وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ ان میں اور میاں نواز شریف میں صرف ایک مسکراہٹ کی قدر مشترک ہے وگرنہ نواز شریف نے اپنے کسی بھی اپوزیشن لیڈر کی نشست پر جا کر شائد ہی کبھی خیریت دریافت کی ہو اور ان سے تعاون کے خواستگار ہوئے ہوں۔

نواز شریف تو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی ضد سمجھے جاتے تھے اور ضد بھی ایسی کہ بے نظیر بھٹو لاہور تشریف لاتیں تو ان کے استقبال کے لئے ایئرپورٹ نہ جاتے، مرکزی حکومت پی ٹی وی پر نواز شریف کی کوریج روکتی تو پنجاب ٹی وی شروع کرنے کا اعلان کرتے پائے جاتے تو کبھی بینک آف پنجاب کا افتتاحی فیتہ کاٹتے پائے جاتے۔ ان کی طبیعت میں پائی جانے والی خودداری کا عالم یہ تھا کہ کسی بھی آرمی چیف سے ان کی نہ بنی۔ حتیٰ کہ اگر جنرل ضیاء الحق بھی ان کی دور حکومت میں زندہ ہوتے تو نواز شریف کا ان سے بھی پھڈا ہو جاتا۔

کراچی میں آج دوپہر سے بارش کے چار سپیل کی پیشگوئی، شہر میں رین ایمرجنسی نافذ

وہ چودھری پرویز الٰہی ہوں یاچودھری نثار، شیخ رشید ہوں یا جاوید ہاشمی، سب کے سب ان سے نالاں ہو کر انہیں داغ مفارقت دیتے پائے گئے، یہاں تک کہ حال ہی میں شاہد خاقان عباسی بھی علیحدگی اختیار کر گئے مگر نواز شریف کی روش سیاست تبدیل نہ ہوئی۔ آج خود مانتے ہیں کہ ان کی حکومت ختم کرنے والے جرنیل، جج اور جرنلسٹ ان کے خلاف غصے اور بغض و عناد سے بھرے ہوئے تھے۔ لیکن انہوں کبھی یہ تجزیہ نہیں کیاکہ ایسا کیوں تھا؟ بس حیرانی سے پوچھتے پائے جاتے ہیں کہ میں ان کا کیا بگاڑا تھا؟

مریم نواز یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتی رہی ہیں اور اپنی والدہ کی طرح میاں نواز شریف کی لڑائی کو اپنی لڑائی بنا کر لڑتی رہی ہیں، ہر طوفان بدتمیزی سے ٹکراتی رہی ہیں اور طنز کا ہرتیر سہتی رہی ہیں۔ لیکن آج جب انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کا موقع ملا ہے تو نواز شریف سے بالکل مختلف نظر آئی ہیں۔ ان کے مخالفین انہیں مہارانی کہتے ہیں لیکن ان کا رویہ دیکھیں تو وہ ایک باندی سے بڑھ کر نظر نہیں آتیں۔ خاص طور پر جب وہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر رانا آفتاب کی نشست پر جا پہنچیں اور ان سے علیک سلیک کی تو وہ نواز شریف کی کم اور شہباز شریف کی بیٹی زیادہ لگ رہی تھیں جو ہر وقت مفاہمت کی مالا جپتے رہتے ہیں اور فوج سمیت اپنے مخالفین کے وجود کو تسلیم کرنے کے قائل رہتے ہیں۔اس سے قبل مریم نوازراولپنڈی میں ایک جلسے کے دوران شاہد خاقان عباسی کو تعظیم دینے اور کھینچ کر اپنی نشست پر بٹھانے کا عملی مظاہرہ کر چکی ہیں۔

گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے سٹریٹ کرائمز میں اپنی موٹر سائیکلوں سے محروم شہریوں میں موٹر سائیکلیں تقسیم کردیں

کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا ہے کہ نواز شریف اگر عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران اپوزیشن لیڈر ہوتے تو وہ شہباز شریف کی طرح دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے میثاق معیشت آفر کرتے۔ نواز شریف تو آج بھی عمران خان کا نام اپنی زبان پر لانے کو گناہ عظیم سمجھتے ہیں۔

اسی طرح مریم نواز نے نہ صرف سرکاری پروٹوکول لینے سے انکار کیا ہے بلکہ اپنی نقل و حرکت کے دوران سڑکوں کو بند کرنے کی بھی مخالفت کی ہے۔ دیکھا جائے تو ان کی یہ روش بھی میاں نواز شریف سے میل نہیں کھاتی۔ نواز شریف کے ہاں ایک شاہانہ انداز پایا جاتا ہے، تودشمنی بھی سلیقے سے نبھاتے ہیں۔ ان کے برعکس شہباز شریف ان کے سگے بھائی ہونے کے باوجود ازلوں کے کامے لگتے ہیں اور ان کا بس چلے تو خاکروبوں کے ہاتھ سے جھاڑو لے کر خود سڑکوں کی صفائی کرتے نظر ائیں۔ کچھ ایسا ہی انداز مریم نواز کا محسوس ہوا ہے۔ شہباز شریف نے اپنے خادم اعلیٰ کا لقب پسند کیا تھا، دیکھتے ہیں مریم نواز کیا کہلوانا پسند کرتی ہیں۔

سٹار فٹبالرکرسٹیانو رونالڈو پر ایک میچ کی پابندی اور 10ہزار ریال جرمانہ عائد

کچھ حلقوں کا کہناہے کہ مریم نواز انتہائی سخت گیر ہیں اور کسی کو spare نہیں کرتیں۔ دیکھا جائے تو یہ وصف بھی جناب شہباز شریف کا ہی ہے جن کے ساتھ کام کرنا ہر بیوروکریٹ کے بس کی بات نہیں، اسی طرح یہ خبریں بھی اخبارات کی زینت بنی ہیں کہ مریم نواز صبح آٹھ بجے ہی دفتر پہنچ گئیں اور اجلاسوں کی صدارت شروع کر دی۔ ان کا یہ طرز عمل بھی نواز شریف کے مزاج سے لگا نہیں کھاتا۔ نواز شریف نے شائد ہی کبھی ایک بجے سے پہلے اپنے دن کا آغاز کیا ہو۔

مریم نواز پنجاب اسمبلی میں داخل ہوئیں تو ان کے ہاتھ میں نواز شریف کی تصویر تھی مگر وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھایا تو ان کے ہاتھ میں اپنی والدہ کلثوم نواز کی تصویر تھی جو اس بات کا اعلان تھا کہ وہ اپنی والدہ کی طرح نواز شریف پر قربان ہوجانے کی سیاست کریں گی اور شہباز شریف کی طرح مفاہمت کی قائل ہونے کے باوجود نواز شریف کے حکم پر ہر دکھ،ہر تکلیف سہنے کے لئے تیار رہیں گی۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعے) کا دن کیسا رہے گا؟

نواز شریف کو ہرانے والوں کو یقیناً دانتوں تلے پسینہ آیا ہے اور اس لڑائی میں نواز شریف کے مخالفوں کی جیت تو ہوئی ہے لیکن انہیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے، کم از کم ایک بازو اور ایک ٹانگ سے تو محروم ہونا پڑا ہے۔ یہ نواز شریف کا ’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘سے ’ووٹ کو عزت دو‘کا سفر تھا جس نے آج پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور میڈیا کو ننگا کر دیا ہے۔ طاقت کے یہ تین ستون نواز شریف کو ختم کرنے کے چکر میں اپنی چولیں ہلا بیٹھے ہیں اور اب ذرا سی بھی ہلجل کرتے ہیں تو ایسی ایسی آوازیں نکلتی ہیں کہ عوام کو فوراً پتہ چل جاتا ہے۔ تاہم نواز شریف کی اس جیت میں اس کے پیاروں کی جانیں گئی ہیں جبکہ بچ جانے والے ان پر نثار ہونے کے لئے ہر وقت تیار ہیں جن میں مریم بنت کلثوم سر فہرست ہیں اور رہیں گی!

کیا آپ رواں ہفتے لاہور پاک ویلز کار میلے کیلئے تیار ہیں؟

QOSHE -          مریم بنت کلثوم - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         مریم بنت کلثوم

11 21
01.03.2024

مریم نواز اپنے والد میاں نواز شریف کے برعکس وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ ان میں اور میاں نواز شریف میں صرف ایک مسکراہٹ کی قدر مشترک ہے وگرنہ نواز شریف نے اپنے کسی بھی اپوزیشن لیڈر کی نشست پر جا کر شائد ہی کبھی خیریت دریافت کی ہو اور ان سے تعاون کے خواستگار ہوئے ہوں۔

نواز شریف تو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی ضد سمجھے جاتے تھے اور ضد بھی ایسی کہ بے نظیر بھٹو لاہور تشریف لاتیں تو ان کے استقبال کے لئے ایئرپورٹ نہ جاتے، مرکزی حکومت پی ٹی وی پر نواز شریف کی کوریج روکتی تو پنجاب ٹی وی شروع کرنے کا اعلان کرتے پائے جاتے تو کبھی بینک آف پنجاب کا افتتاحی فیتہ کاٹتے پائے جاتے۔ ان کی طبیعت میں پائی جانے والی خودداری کا عالم یہ تھا کہ کسی بھی آرمی چیف سے ان کی نہ بنی۔ حتیٰ کہ اگر جنرل ضیاء الحق بھی ان کی دور حکومت میں زندہ ہوتے تو نواز شریف کا ان سے بھی پھڈا ہو جاتا۔

کراچی میں آج دوپہر سے بارش کے چار سپیل کی پیشگوئی، شہر میں رین ایمرجنسی نافذ

وہ چودھری پرویز الٰہی ہوں یاچودھری نثار، شیخ رشید ہوں یا جاوید ہاشمی، سب کے سب ان سے نالاں ہو کر انہیں داغ مفارقت دیتے پائے گئے، یہاں تک کہ حال ہی میں شاہد خاقان عباسی بھی علیحدگی اختیار کر گئے مگر نواز شریف کی روش سیاست تبدیل نہ ہوئی۔ آج خود مانتے ہیں کہ ان کی حکومت ختم کرنے والے جرنیل، جج اور جرنلسٹ ان کے خلاف........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play