اگر اس وقت عمران خان جیل میں نہ ہوتے تو ملکی سیاست و معاشرت میں جو نفرت و تفریق بھری ہونی تھی، اس کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل بات نہ تھی۔ قومی اسمبلی صحیح معنوں میں مچھلی منڈی بنی ہوتی اور جو کرنٹ اس وقت پی ٹی آئی کی صفوں میں بھرے ہوئے ہیں، وہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی صفوں میں بھی انتہاؤں کو چھو رہے ہوتے کیونکہ عمران بیک وقت اپنے حامیوں اور مخالفوں کو تپ چڑھانے میں یدطولی رکھتے ہیں۔

یہ بھی ممکن تھا کہ اب تک عمران خان کے پی اسمبلی توڑ چکے ہوتے اور ملک میں نئے عام انتخابات کے لئے دھرنوں کا اعلان کر چکے ہوتے۔ محمود خان اچکزئی تو خواب میں بھی صدر پاکستان کے عہدے کے امیدوار کے طور پر پی ٹی آئی کی حمائت کا نہ سوچتے، الٹا عمران خان ان کی اس حرکت پر چادر اوڑھنے کی نقلیں اتار اتار کر ان کا،مذاق اڑا رہے ہوتے اور مولانا نے تو واقعی کے پی میں اپنے ہرائے جانے پر اب تک الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنا دے دیا ہوتا،جس کے لئے انہیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی، دونوں کی حمائت حاصل ہوتی۔دوسرے الفاظ میں ایک صرف عمران خان کے جیل میں ہونے اور دوسرا ان کو خاموش کر دینے سے ملکی سیاست جس طرح اپنے رستے پر چل نکلی ہے، اسے دیکھ کر تو اسٹیبلشمنٹ کا دم غنیمت لگتا ہے۔ ایسی ہی صورت حال 1977 میں تھی جب پیپلز پارٹی مخالف جماعتیں بھٹو کی ہٹ دھرمیوں کے خلاف راولپنڈی کی طرف دیکھ رہی تھیں اگر تب بھی جنرل ضیاء الحق کی مداخلت نہ ہوئی ہوتی تو مخالفین تو مخالفین بھٹو کئی ایک حامیوں کو بھی جیلوں میں ڈال چکے ہوتے۔

نیشنل سٹیڈیم کےقریب خاتون نے سڑک پر بچےکو جنم دے دیا

سیاست میں ایسی شدت پسندی کبھی بھی پائیدار ثابت نہیں ہوتی،اس کے برعکس سیاست کے میدان میں بڑی متانت اور صبرو برداشت کے ساتھ اپنے قدم جمانا پڑتے ہیں۔ جن لوگوں کا خیال تھا کہ انتخابات کے بعد عمران خان اب باہر آئے کہ اب آئے، وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کیونکہ عمران خان تعمیری نہیں تخریبی سیاست کے ماہر ہیں اور ایسے سیاستدانوں کی سیاسی عمر زیادہ لمبی نہیں ہوتی، اس ضمن میں کئی ایک نام لئے جا سکتے ہیں۔

آپ ذرا تصور کیجئے کہ اگر قائد اعظم بھی ایسے ہی پارے جیسے مزاج کے حامل ہوتے تو کیا پاکستان بن پاتا؟ وہ توالٹا بنا بنایا کھیل بگاڑ بیٹھتے۔ گزشتہ روز ہونے والے کور کمانڈرز کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والا اعلامیہ اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ عسکری قیادت بھرپور طریقے سے نئی حکومت کے پیچھے کھڑی ہے اور کسی کو ویسی دھماچوکڑی مچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی جس کا آغاز 2014ء کے دھرنوں سے ہوا تھا۔

کینیڈا میں فائرنگ، ایک ہی گھر کے4 بچوں سمیت 6 افراد ہلاک

یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملکی سیاست میں آئے بھونچال ایک ایک کرکے ختم ہو تے جا رہے ہیں۔ 180سیٹوں کی جیت کا دعویٰ کرنے کے باوجود پی ٹی آئی تمیزدار بچوں کی طرح قومی اسمبلی میں نیا وزیر اعظم منتخب کرواچکی ہے۔یہ الگ بات کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے جس طرح کی غیر مشروط حمائت کی اس سے سب کچھ سکرپٹڈ ہونے کا تاثر ابھر کر سامنے آیا۔

دیکھا جائے تو صوبہ خیبر پختونخوا میں تب بھی پی ٹی آئی کی حکومت تھی جب مرکز میں پی ٹی آئی کی محض 32نشستیں تھیں۔ چنانچہ اگر اس بار پھر سے پختونوں نے عمران خان کی پارٹی کو ووٹ دیا ہے تو اس میں کچھ اچنبھے کی بات نہیں ہونی چاہئے کیونکہ پی ٹی آئی کا اصل مقابلہ تو یہاں پنجاب میں تھا۔ اس کے باوجود کہ پی ٹی آئی نے پنجاب کے چند اضلاع میں غیرمعمولی پرفارمنس کامظاہرہ کیا اور حیرت انگیز طریقے سے چند جگہوں پر سویپ بھی کیا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب میں مجموعی طور پر وہ صورتحال نہ تھی جس کا پراپیگنڈہ 8فروری کے انتخابات سے قبل زوروں پر تھا کہ پنجاب سمیت پورے ملک میں پی ٹی آئی کی ہوا چل رہی ہے اور عمران خان کسی کھمبے کو بھی کھڑا کریں گے تو جیت جائے گا۔ ایسا کچھ بھی نہ ہو سکااور اس کے برعکس لاہور جو کہ کبھی پیپلز پارٹی اور بعد میں نون لیگ کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے، اس میں پی ٹی آئی خاطر خواہ نتائج نہ دے سکی، کوئی بڑا شگاف نہ ڈال سکی۔

سوئیڈن نے نیٹو میں باضابطہ شمولیت اختیار کرلی

یہی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب کی پٹی پر بھی نون لیگ نے اپنی حاکمیت قائم رکھی اور سنٹرل پنجاب کے چند اضلاع سمیت خیبرپختونخوا سے نیچے پنجاب میں اترنے والے چند اضلاع بشمول تونسہ، لیہ، راجن پور، جھنگ اور فیصل آباد میں پی ٹی آئی کا اثرورسوخ ضرور دیکھا گیا۔

اس کا ایک مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ پنجاب کے کم پڑھے لکھے علاقوں میں عمران خان کے لئے ہمدردی کا ووٹ پڑا یاپھر لاہور میں ایلیٹ علاقے کے مکینوں نے سردار لطیف کھوسہ کو ضرور جتوایا۔ یہ الگ بات کہ کہا جا رہا ہے کہ خواجہ سعد رفیق اس لئے ہار گئے کہ ان کے حلقے کی نئی تشکیل میں ان کے حامی علاقوں کو کاٹ دیا گیا تھا۔ بہرحال یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان علاقوں نے عمران خان کو مسترد کردیا جہاں شرح خواندگی زیادہ ہے اور لوگوں نے دل کی بجائے دماغ استعمال کرکے ووٹ کیا۔ اس اعتبار سے پی ٹی آئی متوقع کارکردگی دکھانے سے قاصر رہی اور زبانی جمع خرچ کرتے ہوئے تکرار کر رہی ہے کہ فارم 45کے مطابق وہ جیت چکی ہے جس کی قلعی وہیں کھل جاتی ہے جب الیکشن ٹربیونلوں میں دائر کی جانے والی عذرداریوں کی تعداد 26درخواستوں سے بڑ ھ کر نظر نہیں آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی دوبارہ 35 پنکچر والا پراپیگنڈہ کرکے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتی ہے اور جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کر رہی ہے جبکہ سپریم کورٹ اس کے جواب میں کہتی پائی جا رہی ہے کہ ناں چن ناں، انج نئیں!

اقرارالحسن کے گھر کے باہر فائرنگ، حامد میر کا بیان بھی آگیا

QOSHE -      عمران خان جیل میں نہ ہوتے تو؟ - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

     عمران خان جیل میں نہ ہوتے تو؟

11 0
08.03.2024

اگر اس وقت عمران خان جیل میں نہ ہوتے تو ملکی سیاست و معاشرت میں جو نفرت و تفریق بھری ہونی تھی، اس کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل بات نہ تھی۔ قومی اسمبلی صحیح معنوں میں مچھلی منڈی بنی ہوتی اور جو کرنٹ اس وقت پی ٹی آئی کی صفوں میں بھرے ہوئے ہیں، وہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی صفوں میں بھی انتہاؤں کو چھو رہے ہوتے کیونکہ عمران بیک وقت اپنے حامیوں اور مخالفوں کو تپ چڑھانے میں یدطولی رکھتے ہیں۔

یہ بھی ممکن تھا کہ اب تک عمران خان کے پی اسمبلی توڑ چکے ہوتے اور ملک میں نئے عام انتخابات کے لئے دھرنوں کا اعلان کر چکے ہوتے۔ محمود خان اچکزئی تو خواب میں بھی صدر پاکستان کے عہدے کے امیدوار کے طور پر پی ٹی آئی کی حمائت کا نہ سوچتے، الٹا عمران خان ان کی اس حرکت پر چادر اوڑھنے کی نقلیں اتار اتار کر ان کا،مذاق اڑا رہے ہوتے اور مولانا نے تو واقعی کے پی میں اپنے ہرائے جانے پر اب تک الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنا دے دیا ہوتا،جس کے لئے انہیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی، دونوں کی حمائت حاصل ہوتی۔دوسرے الفاظ میں ایک صرف عمران خان کے جیل میں ہونے اور دوسرا ان کو خاموش کر دینے سے ملکی سیاست جس طرح اپنے رستے پر چل نکلی ہے، اسے دیکھ کر تو اسٹیبلشمنٹ کا دم غنیمت لگتا ہے۔ ایسی ہی صورت حال 1977 میں تھی جب پیپلز پارٹی مخالف جماعتیں بھٹو کی ہٹ دھرمیوں کے خلاف راولپنڈی کی طرف دیکھ رہی تھیں اگر تب بھی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play