جناب وزیراعظم صاحب قرضوں کا سارا بوجھ غریبوں پر ہی کیوں؟
جناب وزیراعظم صاحب آپ کو دوسری بار وزارت عظمی مبارک ہو، آپ کی پچھلی حکومت جو 16 ماہ پر محیط رہی اس میں آپ نے عوام پر مہنگائی کے پہاڑ توڑ دئیے اور یہی فرماتے رہے کہ ملک مشکل میں ہے ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا ہے۔ عوام نے آپ کی بات پر یقین کیا اور اس امید پر ہر مشکل سے گزر گئے کہ بہت جلد ہمارے دن پھرنے والے ہیں۔ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور آپ کو ایک بار پھر مسند اقتدار پر بٹھا دیا گیا ہے۔ اب آپ نے عوام کو امید دلائی ہے کہ ہم معیشت کو درست کریں گے اور بہت جلد عوام کو ریلیف ملے گا۔ لیکن بظاہر اس کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ امید کیسے بھر آئے جب تک ملکی وسائل اور پیدوار میں اضافہ نہیں ہوگا اور تجارتی خسارے میں کمی نہیں ہوگی؟ اور ان دونوں کام کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ہے. پاکستان اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ دنیا کے مالیاتی اداروں کی اقساط دینے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف کے اگلے پروگرام میں جانے سے پہلے ہی ایک بار پھر بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عوام پر مزید بوجھ ڈالا گیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہر بار بوجھ تلے صرف عام اور غریب عوام ہی آتے ہیں؟ کیا بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے ذمہ دار صرف غریب ہیں؟ یہ بات تو درست ہے کہ بین الاقوامی اداروں اور دوسرے ممالک سے امداد اور قرضے غریبوں ہی کے........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website