جاپان میں بسلسلہئ روزگارآنے والے تارکین وطن عمومی طورپرتنگ دستی کے عالم میں ہی یہاں پہنچتے ہیں اورابتدائی ماہ وسال مزدوری ومحنت کشی میں گزارتے ہیں۔ظفرحنیف کامعاملہ ذرامختلف تھا۔ جاپان آنے کے بعدپہلے تین روز اس نے ٹوکیوکے مہنگے ترین فائیوسٹارہوٹل پرنس میں گزارے تھے۔اس کے بعدسکونت کامناسب انتظام ہوگیاتوذاتی رہائش گاہ میں منتقل ہوگیا۔اصل بات تویہ ہے کہ میں نے اس سے ایک بار عہد کیا تھا، وعدہ تواس سے میرایہ تھاکہ دل ریستوران پر پورا مضمون لکھوں گا،جس ہوٹل کاوہ بانی اورروح رواں تھا، مگربدقسمتی سے وعدہ وفایوں ہورہاہے کہ اس دوست کا تعزیت نامہ لکھ رہاہوں۔بڑادلیرآدمی تھا۔ خوف کی ہڈی اس کے پورے جسم میں ایک بھی نہیں تھی، شومئی قسمت کہ ہڈیوں کے کینسر میں مبتلا ہو گیا۔ سبز آنکھوں،گھنی زلفوں، درازقد والے ظفر جیسے وجیہہ اورخوبصورت پاکستانی جاپان میں کم کم ہی پہنچے ہیں۔اگر شوبز میں چلا جاتا تو یقینا ایک مقبول ہیرو کے طورپرپہچان بنالیتا۔مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ وہ ایک عام آدمی تھا،مگریقین کیجئے قدرت کے اس کارخانے میں کوئی انسان بھی عمومی نہیں، ہرآدمی ہی خاص ہے،اورپھرمیرادوست توبہت ہی خاص تھا۔ باقی یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ کوئی مشہوراورمقبول شخصیت نہیں تھا،پھربھی بے مثال تھا۔

15 روزے سے مہنگائی بڑھے گی، جمہوری مرچوں سے آنکھوں سے پانی اور کانوں سے دھواں نکلے گا، بڑا دعویٰ

اس کی ازدواجی زندگی بڑے نشیب و فراز کا شکار رہی۔پہلی بیوی جاپانی اس کے بعد متعدد بارشادیاں کیں، ان میں بچے بھی پیدا ہوئے مگر بات نبھی نہیں۔اس کی زندگی اس شعرکے مصداق تھی کہ

انجمن انجمن شناسائی

پھر بھی دل کا نصیب تنہائی

اس ناآسودہ ازدواجی زندگی کی وجوہات میں ظفر کی غصیلی طبیعت کا دخل بھی تھا، مگر بنیادی طور پر وہ بڑا ہی محبت کرنے والاآدمی تھا۔آخری بیوی جس کا تعلق مشرقی یورپ سے تھا، اسے توظفرکے دونوں بچوں نے قبول نہیں کیا تھا، بات سمجھ میں بھی آنے والی ہے۔جب ایک فریق کے انتخاب تک نوبت آ گئی تو پھر ہمارے دوست نے اپنے بیٹے دانیال اور بیٹی کا انتخاب کیا۔ شاید عجیب لگے مگر میرا اصرار تھا کہ ظفرکوپاکستان شادی کرلینی چاہئیے۔اس کا والد بھی میراہم خیال تھاکہ رشتہ ازدواج پاکستانی لڑکی سے ہی بنناچاہیئے۔میں نے توایک رشتہ بھی اس کے لئے تلاش کرلیاتھا۔ کیا خبر تھی کہ پیغام اجل آیا چاہتا ہے۔ اپنے ریستوران میں ہروقت رونق لگائے رکھتا تھا، مجلسی آدمی تھا۔گرچہ معاشی حالات اس کے بھی زیادہ اچھے نہیں تھے،پھربھی اس کی طبیعت میں سخاوت اورفیاضی تھی۔بڑے کھلے دل کا آدمی تھا۔پاکستانیوں کی آمدورفت نے ایسی رونق بنا رکھی تھی کہ ہوٹل ہذادیسی کلب کی شکل اختیار کر چکا تھا، بابابلھے شاہؒ کے اس مصرعے کی عملی تفسیرتھاکہ

بابراعظم نے ایک اور اعزازاپنے نام کرلیا

اِٹ کھڑکے،دکڑوجے،تتاہووے چولھا

جلالی طبیعت اورلاابالی پن کے سبب دوستوں کے ساتھ ساتھ ظفرکودشمنوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔ بات اب سمجھ آتی ہے کہ اس کے غصیلے رویے کی وجہ بنیادی طورپراس کی بیماری تھی،پھرمستقل بلند فشار خون نے اس کی طبیعت ایسی بنادی تھی کہ ایک ریستوران چلانے والے آدمی کے لئے موزوں قرار نہیں دی جاسکتی۔ ریستوران کوکامیابی سے چلانے کے لئے توجان پرسوزسے زیادہ سخن دل نواز درکار ہوتاہے مگرہمارے ممدوح کے ہاں معاملہ الٹا تھا۔ دل کابہت صاف تھا،شایداسی لئے کاروباری ادارے کانام بھی شاعرانہ رکھ چھوڑا تھا۔ بدخواہوں کاکہناہے کہ اپنے ابتدائی برسوں میں جب اس کاکاروبارجاپانی گاڑیوں کی ایکسپورٹ کے متعلق تھااوراس کے پاس بہت پیسہ،روپیہ تھا، تب بھی ایسی ہی قہرآلودطبیعت کامالک تھا۔ غیر قانونی طورپرجاپان میں مقیم نوجوانوں سے اپنی ٹانگیں دبواتا اورچانپی کرواتاتھا۔اپنے کاروباری عروج کے زمانے میں ایک ہائی ایس گاڑی رکھی ہوئی تھی جس کی پچھلی نشستوں پرلیٹ جاتااورلڑکے اس کی ٹانگیں دباتے تھے۔سچ مگریہ ہے کہ وہ بڑی حساس طبیعت کاانتہائی نرم دل انسان تھا۔ہمیشہ دوسرے لوگوں کے کام آنے والا۔بڑاہی بے لوث انسان تھا مگرمنہ پھٹ تھا۔ جوانی میں ہی داغ مفارقت دے گیا۔آخری ملاقات میں کہنے لگاکہ میرے بیٹے دانیال کاخیال رکھنا۔ ٹوکیوکے نواح میں اس کی تدفین کی گئی۔ہم نام ہونے کے سبب شائد،مغلیہ سلطنت کے آخری شہنشاہ بہادرشاہ ظفر کا یہ شعربارباردماغ میں گونجتاہے۔

بھارت میں شہریت کا متنازع ترمیمی قانون نافذ

کتناہے بدنصیب ظفردفن کے لئے

دوگززمین مل نہ سکی کوئے یار میں

پھر شیخ سعدی شیرازی یاد آ گئے، اپنی عہد ساز اور ہمیشہ زندہ رہنے والی تصنیف گلستان میں لکھتے ہیں کہ جب روح کاجسم سے نکلنے کاوقت آ پہنچے، تو پھراس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ جان شاہی تخت پرنکلتی ہے،یاپھرجسدخاکی خاک اورمٹی میں پڑا ہو جب جان جان آفرین کے سپردکرتے ہیں۔ سارے شہرکوویران کرجاناکہوں توشایدشاعرانہ مبالغہ لگے مگرظفردل والاجاپان کے ساحلی شہر تو یاما کی کئی محفلوں کوسونااورپھیکاضرورکرگیاہے۔ذاتی نقصان یوں کہوں گاکہ دیارغیرمیں زندگی گزارنے کے ڈھنگ کے سبب حلقہئ احباب تو سبھی پردیسیوں کا مختصر ہی ہوتاہے،کسی ایک عزیزدوست کی رخصتی بھی ایسے عالم میں مرگِ انبوہ کامنظردکھائی دیتی ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE -    ظفردل والا - عامر بن علی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

   ظفردل والا

10 0
12.03.2024

جاپان میں بسلسلہئ روزگارآنے والے تارکین وطن عمومی طورپرتنگ دستی کے عالم میں ہی یہاں پہنچتے ہیں اورابتدائی ماہ وسال مزدوری ومحنت کشی میں گزارتے ہیں۔ظفرحنیف کامعاملہ ذرامختلف تھا۔ جاپان آنے کے بعدپہلے تین روز اس نے ٹوکیوکے مہنگے ترین فائیوسٹارہوٹل پرنس میں گزارے تھے۔اس کے بعدسکونت کامناسب انتظام ہوگیاتوذاتی رہائش گاہ میں منتقل ہوگیا۔اصل بات تویہ ہے کہ میں نے اس سے ایک بار عہد کیا تھا، وعدہ تواس سے میرایہ تھاکہ دل ریستوران پر پورا مضمون لکھوں گا،جس ہوٹل کاوہ بانی اورروح رواں تھا، مگربدقسمتی سے وعدہ وفایوں ہورہاہے کہ اس دوست کا تعزیت نامہ لکھ رہاہوں۔بڑادلیرآدمی تھا۔ خوف کی ہڈی اس کے پورے جسم میں ایک بھی نہیں تھی، شومئی قسمت کہ ہڈیوں کے کینسر میں مبتلا ہو گیا۔ سبز آنکھوں،گھنی زلفوں، درازقد والے ظفر جیسے وجیہہ اورخوبصورت پاکستانی جاپان میں کم کم ہی پہنچے ہیں۔اگر شوبز میں چلا جاتا تو یقینا ایک مقبول ہیرو کے طورپرپہچان بنالیتا۔مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ وہ ایک عام آدمی تھا،مگریقین کیجئے قدرت کے اس کارخانے میں کوئی انسان بھی عمومی نہیں، ہرآدمی ہی خاص ہے،اورپھرمیرادوست توبہت ہی خاص تھا۔ باقی یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ کوئی مشہوراورمقبول شخصیت نہیں تھا،پھربھی بے مثال تھا۔

15 روزے سے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play