پاکستانی سیاست پر ریاست کی فوقیت دیدنی ہے۔ ریاست بچاتے بچاتے ہمارے سیاسی رہنما اپنی اپنی سیاست قربان کر بیٹھے اور اب ریاستی ادارے اپنی مرضی کی سیاست کی اجازت دے رہے ہیں جبکہ سیاستدان بلا چوں و چراں ان کے احکامات کی بجا آوری لاتے نظر آ رہے ہیں۔

کچھ غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ نون لیگ نے سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی بطور وفاقی وزیر داخلہ تقرری پر پس پردہ بھرپور مزاحمت کی تھی(جس طرح ان کی تقرری پر نون لیگ بحیثیت جماعت کے چپ سادھے ہوئے ہے، وہ بھی اس امر کی گواہی دیتی ہے) لیکن بالآخر نون لیگ کو سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ اب یہ محسن نقوی کی مرضی ہے کہ کون سا عہدہ اپنے پاس رکھتے ہیں اور کون سا عہدہ چھوڑتے ہیں۔ ممکن ہے وہ کل کو وزیراعظم کے ایک مضبوط امیدوار کے طور پر بھی سامنے آ جائیں۔ اگر یہ اقربا پروری ہے تو اس سے پہلے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

بیوی کو قتل کرکے بیڈروم میں دفنانے کے بعد مظلوم بن کر سالی سے شادی کرنے والے شخص کا 38 سال بعد راز فاش ، گرفتار کرلیا گیا

2008ء سے پاکستان میں جس جمہوری ٹرانزیشن کے سفر کا آغازہوا تھا وہ آج جو منظر دکھا رہا ہے، اس کو دیکھ کر کچھ خاص لطف نہیں آ رہا۔ ایک محفل میں پی ٹی آئی کے ایک مہربان نے کہا کہ آئندہ نون لیگ کا کچھ نہیں بچے گا جس پر ایک نون لیگیا تنک کر بولا آپ جس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں،وہ دوبارہ وزیراعظم بن گیا تو آپ (یعنی عوام) کا بھی کچھ نہیں بچنا ہے جس پر پہلا بولا کہ آئندہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

ایک وقت تھا کہ ملکی اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو بے نظیر بھٹو کا پنجاب میں استقبال نہ کروا کے لیڈر بنا دیا تھا اور آج کی اسٹیبلشمنٹ نے علی امین گنڈا پور کو اسلام آباد میں شہباز شریف سے ملاقات کرواکے لیڈر بنا دیا ہے۔ تب وہ عمل درست تھا، آج یہ عمل درست ٹھہرا ہے حالانکہ دونوں غلط ہیں۔ سوری سوری سوری دونوں درست ہیں۔ بس یہی ہے ہماری سیاست جو ریاست پر غالب آنے کی بجائے مغلوب ہوتی نظر آرہی ہے۔ شائد دنیا بھر میں بھی ایسا ہی ہوتا ہو۔

ٹائی ٹینک 2 بحری جہاز تیار کرنے کا اعلان

کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو گفتگو کا دروازہ کھول کر باقی جماعتوں کے ساتھ مل کر چلنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے جب یہ بات ہوتی ہے تو یہ نصیحت پی ٹی آئی قیادت کو نہیں، اس کے ووٹروں سپورٹروں کو کی جا تی ہے جو محض اس لئے عمران خان کو ووٹ دے رہے ہیں کہ وہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادتوں کو چور ڈاکو کہتے ہیں۔ اب جبکہ علی امین گنڈا پور نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کرلی ہے تواس کے بعد پی ٹی آئی کے ووٹروں سپورٹروں کا درجہ حرارت ماپ کر مزید پیش رفت ہو گی اور جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو گئے تھے ان کو اسی طرح منہ کی کھانی پڑے گی جس طرح نون لیگ کے حامی حلقوں کو آج کل اور پیپلز پارٹی کے حامی حلقوں کو 90ء کی دہائی میں کھانی پڑی ٹھی۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی روضہ رسول پر حاضری

کناروں سے نکل سکتی ہیں کب یہ مضطرب موجیں

انہیں ساحل سے ٹکرانا ہے اور پھر لوٹ جانا ہے

کے مصداق بادشاہ مرگیا، بادشاہت زندہ باد والی صورت حال ہے جو پاکستانی سیاست کو درپیش ہے۔

سیاست کی تو چھوڑیئے، عوام کی سن لیجئے جو ایک طرف تو اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے مہنگائی کا رونا روتے ہیں تو دوسری جانب بازار لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں، شہر میں آنے والا سبزی اور پھلوں کا ہر ٹرک اور ہر ٹوکرا بک جاتا ہے۔ اسی طرح لوگ یوٹیلیٹی سٹوروں کے شیلفوں کے شیلف خالی کئے رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا رونا بھی روتے جاتے ہیں۔ہم بھی من و سلویٰ کھانے والوں جیسے ہو گئے ہیں ہر بات پر اعتراض بھی کرتے جاتے ہیں اور کھاتے بھی جاتے ہیں،یہی نہیں، ماہ رمضان کے آغاز سے ہی اگر منافع خور اور ذخیرہ اندوز متحرک ہو جاتے ہیں تو دوسری جانب کئی طرح کے نوسرباز فقیروں، بیواؤں اور ضرورت مندوں کا روپ دھار کر ہر چوک چوراہے پر ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ دیکھا جائے تو دونوں ایک ہی فراڈ کی دو صورتیں ہیں لیکن ہم منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو تو کوستے ہیں مگر نوسربازوں کی بے جا مدد کر کے مزید نوسربازوں کو اگلے ماہ رمضان کے لئے تیاری کی ترغیب دیتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ سیاستدان خراب ہیں جبکہ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں سے لے کر نوسربازوں کے ڈھونگ دیکھیں تو کہنا پڑتا ہے کہ پوری قوم کا خمیر ہی خراب ہو چکا ہے۔

ادویات کی قیمت میں ہوشربا اضافہ کردیا گیا

گزشتہ ہفتے ایک یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کے تقریری مقابلے کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ ہر دوسرا مقرر امت مسلمہ کی بے ثباتی کا،رونا رو رہا تھا اور ہر کوئی اقبال کے شعر

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

پڑھ کر دادو تحسین وصول کر رہا تھا۔ علامہ اقبال نے یہ شعر لگ بھگ 1922-23ء میں کہا ہو گا، آج اس شعر کو کہے 100 برس کا عرصہ بیت چکا۔ تب بھی یہی بات ہو رہی تھی اور آج بھی وہی رونا ہے جبکہ استعماری قوتوں نے عراق، شام،لیبیا اور فلسطین تک امت مسلمہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے اور ہم امت مسلمہ کی گم شدہ وحدت کے متلاشی ہیں جبکہ بلوچستان کے باغی ابھی تک پہاڑوں سے نیچے نہیں اترے، علی وزیر اور منظورپشین اپنی ہی فوج کے خلاف سینہ سپر ہیں اور سندھ کے وسنیک کالا باغ ڈیم کی مخالفت پر مصر ہیں اور سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بچے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر ایک امت کی مالا جپ رہے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

ریلوے کے سکولوں میں اساتذہ کی تنخواہ مزوروں سے بھی کم ہونے کا انکشاف

QOSHE -        کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

13 1
15.03.2024

پاکستانی سیاست پر ریاست کی فوقیت دیدنی ہے۔ ریاست بچاتے بچاتے ہمارے سیاسی رہنما اپنی اپنی سیاست قربان کر بیٹھے اور اب ریاستی ادارے اپنی مرضی کی سیاست کی اجازت دے رہے ہیں جبکہ سیاستدان بلا چوں و چراں ان کے احکامات کی بجا آوری لاتے نظر آ رہے ہیں۔

کچھ غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ نون لیگ نے سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی بطور وفاقی وزیر داخلہ تقرری پر پس پردہ بھرپور مزاحمت کی تھی(جس طرح ان کی تقرری پر نون لیگ بحیثیت جماعت کے چپ سادھے ہوئے ہے، وہ بھی اس امر کی گواہی دیتی ہے) لیکن بالآخر نون لیگ کو سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ اب یہ محسن نقوی کی مرضی ہے کہ کون سا عہدہ اپنے پاس رکھتے ہیں اور کون سا عہدہ چھوڑتے ہیں۔ ممکن ہے وہ کل کو وزیراعظم کے ایک مضبوط امیدوار کے طور پر بھی سامنے آ جائیں۔ اگر یہ اقربا پروری ہے تو اس سے پہلے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

بیوی کو قتل کرکے بیڈروم میں دفنانے کے بعد مظلوم بن کر سالی سے شادی کرنے والے شخص کا 38 سال بعد راز فاش ، گرفتار کرلیا گیا

2008ء سے پاکستان میں جس جمہوری ٹرانزیشن کے سفر کا آغازہوا تھا وہ آج جو منظر دکھا رہا ہے، اس کو دیکھ کر کچھ خاص لطف نہیں آ رہا۔ ایک محفل میں پی ٹی آئی کے ایک مہربان نے کہا کہ آئندہ نون لیگ کا کچھ نہیں بچے گا جس پر ایک نون لیگیا تنک کر بولا آپ جس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں،وہ دوبارہ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play