پی ٹی آئی حلقوں میں نواز شریف کی لندن روانگی کی تکرار ہو رہی ہے، انہیں عمران کی جیل سے واپسی سے زیادہ نواز شریف کی لندن وانگی میں دلچسپی لگتی ہے،جس طرح جیل میں بیٹھے عمران خان نون لیگ کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں اسی طرح پاکستان میں موجود نواز شریف پی ٹی آئی کے لئے سوہان روح ثابت ہو رہے ہیں۔

زمینی صورت حال یہ ہے کہ نواز شریف مرکز میں وزیر اعظم ہیں نہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ ہیں، ان دونوں جگہوں پر ان کی آشیرباد سے قائم ہونے والی حکومتیں توہیں لیکن وہ خود برسراقتدار نہیں ہیں، حالانکہ کہنے والے کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے کلیدی عہدے پر تعیناتی بھی ان کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔ ایسا ہے تو پھر وہ اہم تعیناتی نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیر اعظم کیوں نہ بنوا سکی، یا تو اس شخصیت کی تعیناتی نواز شریف کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی یا پھر کسی اور طاقتور ہستی نے اپنی مرضی کر دکھائی ہے۔

میئر کراچی گٹر کے ڈھکن چرانے والوں سے تنگ آ گئے

بتایا جا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کی سپیس لے لی ہے۔ ایسا ہے تو موجودہ اور پرانی اسٹیبلشمنٹ میں کیا فرق رہ گیا؟ پچھلی بھی نون لیگ کے خلاف تھی اور موجودہ بھی اس کے خلاف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اصولی طور پر نون لیگ کو پیپلز پارٹی بنانے کا فیصلہ کر چکی ہے اور عمران خان کی ویسے ہی سہولت کاری ہو رہی ہے جس طرح بے نظیر بھٹو کے خلاف نواز شریف کی کی جاتی تھی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ ایک سیاسی شخصیت کو حکمران بنا کر پیچھے سے ڈوریاں ہی نہیں ڈوریں بھی ہلا رہی ہے۔ پہلے بھی تو ڈوریں اور ڈوریاں ہلائی جاتی تھیں۔ اس مرتبہ ڈور نہیں پھندا ڈال لیا گیا ہے اور اس کے رسے کو ہلایا جا رہا ہے۔ سیاستدان پہلے بخوشی اسٹیبلشمنٹ کے لئے کام کرتے تھے۔ اب با امر مجبوری کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایکس (ٹوئٹر) اس لئے بند ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس کے پیچھے ہے۔ گویا کہ بیوروکریسی بھی اس کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے۔ 2018 میں اگر نون لیگ کے ووٹروں کی توہین ہوئی تھی تو 2024 میں پی ٹی آئی کے ووٹروں کی ہو گئی ہے۔ مگر اس مرتبہ تو نون لیگ بھی ڈگمگائی پھر رہی ہے۔ اس کو بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ اسٹیبلشمنٹ اس کے ساتھ ہے یا اس کے خلاف ہے۔

پی پی 54 شکرگڑھ ،ضمنی انتخاب کیلئےکاغذات کی سکروٹنی کا عمل مکمل

اس وقت نون لیگ اور پی ٹی آئی حلقوں کا دکھ مشترکہ ہے کیونکہ نواز شریف اور عمران خان جیت کر بھی ہار گئے ہیں۔ وہ اپنے تئیں مقبول لیڈر ضرور ہیں مگر ملک ان دونوں کے بغیر چل رہا ہے اور اب تو آئی ایم ایف نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ ڈونلڈ لو بھی پاکستان کے گن گاتے پائے گئے اور جو عناصر ان کو جھوٹا کہہ کر خبر بنوانا چاہتے رہے، ان کو اجلاس سے نکال باہر کردیا گیا۔

عمران خان اور نواز شریف ہی نہیں بلکہ بلاول بھٹو بھی ہار گئے اور جیت کا سہرا شہباز شریف اور آصف زرداری کے سر باندھا گیا۔ شہباز شریف کی لاٹری لگنے کی بات اس وقت بھی ہو رہی تھی جب شہباز شریف لاہور کے جلسے میں نواز شریف کو مدبر قرار دے رہے تھے۔ تب چونکہ انہیں ایک مقبول لیڈر کی ضرورت تھی، اس لئے نواز شریف کے پیچھے چلتے رہے مگر جونہی انتخابات ہو گئے وہ دوبارہ سے سامنے آ کھڑے ہوگئے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ آصف زرداری کا رہا کہ پورے الیکشن میں عوامی جلسے جلوسوں سے دور رہے اور بلاول کی دوڑیں لگواتے رہے مگر جونہی انتخابات کا عمل مکمل ہوا وہ دوسری مرتبہ ایوان صدر میں ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئے۔ اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے یہ غیر مقبول سیاستدانوں کی حکومت ہے جس کا واحد مقصد غیر مقبول فیصلوں کی اونرشپ لینا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر بلا چوں و چراں عمل کرنا ہے۔ حمزہ شہباز بھی اپنے والد گرامی کی سیاست پر قربان ہو گئے۔ عوام نے جن کے نام پر ووٹ دیا وہ گوشہ گمنامی میں ہیں اور جو لوگ ان کا نام لے کر جیتے، برسر اقتدار ہیں۔ اس کا فائدہ کسے ہو گا؟ کیا عمران خان رہا ہو سکیں گے؟ کیا خاموش رہ کر نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کا خواب پورا کر سکیں گے؟

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعے) کا دن کیسا رہے گا؟

نون لیگ انتخابات جیت کر نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم بنانا چاہتی تھی۔ نواز شریف سادہ اکثریت لئے بغیر چوتھی مرتبہ کا اعزاز نہیں لینا چاہتے تھے۔ گویا کہ نہ تو نون لیگ کی خواہش تھی کہ عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری سے نجات دلائی جائے نہ ہی نواز شریف مخلوط حکومت میں رہ کر اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوانا چاہتے تھے۔ پی ٹی آئی بھی جیت سے عمران خان کو رہا کروانا چاہتی ہے، عوام کے دلدر دور کرنا اس کا بھی مشن نہیں ہے، وگرنہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنا لیتی۔ وہ بھی عمران خان کے بغیر گاڑی آگے بڑھانے کے موڈ میں نہیں، حتیٰ کہ عوام بھی کچھ ایسے ہی موڈ میں ہیں۔ ان کامطمع نظر بھی اپنے سے زیادہ اپنی اپنی پارٹی کی قیادت ہے۔ نون لیگ والے نواز شریف کے وزیر اعظم نہ بننے پر دل چھوڑے بیٹھے ہیں اورپی ٹی آئی والے عمران کے رہا نہ ہونے کے غم میں گھل رہے ہیں۔

پشاور میں کے ایف سی کی دو فرنچائز زبردستی بند کروا دی گئیں

جہاں تک گڈ گورنینس کا تعلق ہے تو کوئی بھی سیاسی جماعت برسراقتدار آجائے، ہر ایک کی بس یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس سے پہلے جہاں تک بگاڑ پیدا ہوچکا ہے اس سے مزید نہ بڑھے۔ یوں اس بگاڑ کو مزید بگڑنے سے روکنے روکنے میں اس کی مدت پوری ہو جاتی ہے یا عوام تنگ آ جاتے ہیں اور جب وہ سیاسی جماعت رخصت ہوتی ہے یا اسے رخصت کیا جاتا ہے تو بگاڑ پہلے سے زیادہ گہرا ہو چکا ہوتا ہے۔ عوام دوسری جماعت کو لے آتی ہے اور دوسری جماعت اس بگاڑ کو مزید بگاڑ کر پہلی جماعت کی پوزیشن پر چلی جاتی ہے۔ بیچ میں مارشل لاء والوں کا داؤ بھی لگ جاتا ہے اور وہ سیاسی جماعتوں سے بڑھ کر مسائل پیدا کر کے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ہمارے 76 برس کی یہی کہانی ہے اور ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکا ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھارت اور افغانستان کو دھمکی دے دی

QOSHE -  نواز اور عمران جیت کر ہار گئے - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 نواز اور عمران جیت کر ہار گئے

12 0
22.03.2024

پی ٹی آئی حلقوں میں نواز شریف کی لندن روانگی کی تکرار ہو رہی ہے، انہیں عمران کی جیل سے واپسی سے زیادہ نواز شریف کی لندن وانگی میں دلچسپی لگتی ہے،جس طرح جیل میں بیٹھے عمران خان نون لیگ کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں اسی طرح پاکستان میں موجود نواز شریف پی ٹی آئی کے لئے سوہان روح ثابت ہو رہے ہیں۔

زمینی صورت حال یہ ہے کہ نواز شریف مرکز میں وزیر اعظم ہیں نہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ ہیں، ان دونوں جگہوں پر ان کی آشیرباد سے قائم ہونے والی حکومتیں توہیں لیکن وہ خود برسراقتدار نہیں ہیں، حالانکہ کہنے والے کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے کلیدی عہدے پر تعیناتی بھی ان کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔ ایسا ہے تو پھر وہ اہم تعیناتی نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیر اعظم کیوں نہ بنوا سکی، یا تو اس شخصیت کی تعیناتی نواز شریف کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی یا پھر کسی اور طاقتور ہستی نے اپنی مرضی کر دکھائی ہے۔

میئر کراچی گٹر کے ڈھکن چرانے والوں سے تنگ آ گئے

بتایا جا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کی سپیس لے لی ہے۔ ایسا ہے تو موجودہ اور پرانی اسٹیبلشمنٹ میں کیا فرق رہ گیا؟ پچھلی بھی نون لیگ کے خلاف تھی اور موجودہ بھی اس کے خلاف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اصولی طور پر نون لیگ کو پیپلز پارٹی بنانے کا فیصلہ کر چکی ہے اور عمران خان کی ویسے ہی سہولت کاری ہو رہی ہے جس طرح بے نظیر بھٹو کے خلاف نواز شریف کی کی جاتی تھی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہماری........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play