پتا نہیں کیوں حکمران بڑے فخر سے یہ بتاتے ہیں کہ ہم نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں یا پوری کرنے جا رہے ہیں جس کے بعد ہمیں اس عالمی اقتصادی ادارے سے قرضے کی اگلی قسط مل جائے گی یا اگلے پیکیج کے لیے کوئی ڈیل ہو سکے گی۔ انہیں ایسی بات کرتے ہوئے سو بار سوچنا چاہیے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ آج اگر ہمارا ملک دیوالیہ کی حد کو پہنچا ہے اور ہم مالی لحاظ سے اس قدر مجبور ہو چکے ہیں کہ آئی ایم ایف سے ایک کے بعد دوسرا، اور دوسرے کے بعد تیسرا پیکیج لینے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تو یہ کوئی فخر کی بات نہیں، تشویش اور افسوس کا معاملہ ہے۔ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا ملک اس حالت کو کیوں پہنچا؟ اس ملک کو اس نہج تک پہنچانے کے ذمہ دار کون ہیں؟ اور اس دلدل سے نکلنے کا راستہ کون سا ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے ملک کو اس نہج تک پہنچانے کے ذمہ دار عوام نہیں ہو سکتے کہ اختیارات ان کے ہاتھوں میں کبھی نہیں رہے، انتخابات کے دوران ان کا مینڈیٹ بھی ادھر ادھر کر دیا جاتا رہا۔ یہ حکمران ہیں جو ملک کی پالیسیاں مرتب کرتے اور ان پر عمل درآمد کراتے ہیں، لہٰذا 1947 سے اب تک اس ملک پر حکمرانی کرنے والے لوگ اور پارٹیاں ہی ملک کی اس حالت کے ذمہ دار قرار دئیے جا سکتے ہیں کہ انہوں نے ملک، قوم کو حقیقی ترقی کی راہ پر ڈالنے کی بجائے قرضوں پر قرضے لیے، اور محض وقتی، جنہیں پنجابی میں ڈنگ ٹپاؤ کہا جاتا ہے، پالیسیاں بنائیں اور صرف اپنا وقت گزارا، اپنا Tenure پورا کیا۔ یہ نہیں سوچا کہ بعد میں کیا بنے گا، کیسے گزارہ ہو گا، ملک کے معاملات کیسے چلیں گے؟ انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ جو قرض وہ لے رہے ہیں وہ اتارے گا کونَ انہوں نے کبھی یہ بھی نہیں سوچا کہ ملک کو اگر مانگے تانگے کی چیزوں اور رقوم پر گزارہ کرنا سکھا دیا گیا تو پھر اسے حقیقی ترقی سے ہمکنار کبھی نہیں کیا جا سکے گا۔

امریکہ نے توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی مدد کو ’’ترجیح‘‘ قرار دیدیا

اب صورت حال یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے محض ایک ارب ڈالر قرضے کی اگلی قسط حاصل کرنے کے لیے عوام کو نئے امتحانوں میں ڈالا جا رہا ہے، ان سے نئی قربانیاں طلب کی جا رہی ہیں، حالانکہ پچھلے 76-77 برسوں سے وہ قربانیاں ہی تو دیتے چلے آ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضے کی اگلی قسط حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جاتا ہے؟ پیٹرول مہنگا کر دیا جاتا ہے۔ بجلی مہنگی کر دی جاتی ہے۔ گیس مہنگی کر دی جاتی ہے۔ توانائی کے ان تینوں ذرائع کو مہنگا کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر اس چیز کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کی تیاری کے کسی مرحلے میں توانائی کے ان ذرائع یا ان ذرائع میں سے کسی ایک کا بھی استعمال ہوتا ہو۔ اِن ڈائریکٹ ٹیکس لگانے سے حکومت کو ریونیو تو جنریٹ ہو جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام ایک تکلیف دہ صورت حال سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ پوسٹ کورونا دور میں ہمارے ملک میں مہنگائی پہلے ہی 25-30 فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اب اگر آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتے ہوئے چیزوں کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا تو عام آدمی کی رہی سہی قوت خرید بھی ختم ہو جائے گی اور اس کا نتیجہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی آبادی کی شرح میں اضافے کی صورت میں نکلے گا۔ لوگ اپنی ایک ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنی کسی دوسری ضرورت کا گلا گھونٹنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ پاکستان میں نیوٹریشن کے مسائل پہلے ہی خاصے گمبھیر ہیں، لوگوں کو کم کھانے کو ملے گا تو یہ مسائل مزید گمبھیر ہو جائیں گے۔ صحت مند قوم ہی ملک کو حقیقی ترقی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ ایک کمزور، بیمار اور صحت کے مسائل سے دوچار قوم معیشت کو ترقی دینے کی پوزیشن میں کبھی نہیں آ سکتی۔ پاکستان میں یوں تو مہنگائی بڑھنے کے پس منظر میں کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں لیکن ان میں سب سے اہم گورننس کی کمزوریاں ہیں۔ یہ کمزوریاں قیمتوں میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہیں کیونکہ پرائس کنٹرول کا نظام زمین بوس ہو چکا ہے اور مقامی سطح پر کوئی پرائس کنٹرول کا نظام نہیں جو ناجائز منافع خوری کی روک تھام کر سکے۔

پنجاب پولیس میں بھرتیاں، انٹرویو کا شیڈول تبدیل

پھر ایک مسئلہ ہمارے ملک میں یہ بھی ہے کہ کسی ضرورت کے تحت اگر کچھ چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو بھی جاتا ہے تو جب عالمی سطح پر انہی چیزوں کی قیمتیں کم ہوتی ہیں تو اضافہ کی گئی قیمت کبھی کم نہیں ہوتی، کبھی واپس نہیں لائی جاتی۔ اب ایک خبر یہ آئی ہے کہ یکم جولائی سے پورے ملک میں ہر دکاندار 1200 روپے فکس ٹیکس دینے کا پابند ہو گا۔ کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ خوردہ فروش یہ ٹیکس اپنی جیب سے ادا کریں گے؟ ان پر براہ راست ٹیکس لگایا جائے گا تو وہ چیزیں مہنگی کر دیں گے۔ تو اثر کس پر پڑا؟ دکان دار کو تو اس کا اثر نہیں ہو گا، عام آدمی ہی اس سے متاثر ہو گا۔ میرے خیال میں ملک کے معاشی مسائل کا حل ٹھیک ہے فوری طور پر تو کہیں سے کچھ قرضہ حاصل کرنا ہی ہو سکتا ہے لیکن In the long run یعنی طویل مدت کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو جب تک ملک میں تجارتی، کاروباری، صنعتی، زرعی اور سروسز کے حوالے سے سرگرمیوں میں اضافہ نہیں ہوتا، کارکردگی بہتر نہیں ہوتی حقیقی ترقی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ حالت یہ ہے کہ محتاط اعداد و شمار کے مطابق جاری مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں امریکہ کو پاکستانی برآمدات کا حجم 3 اعشاریہ 626 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ مالی سال کی مدت کے مقابلے میں 10.38 فیصد فیصد کم ہے۔ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں امریکہ کو 4.04 ارب ڈالر کی برآمدات ریکارڈ کی گئی تھیں۔ اب اگرحاصل مواقع سے بھی فائدہ نہ اٹھایا جا سکے تو کیا کہا جا سکتا ہے۔ پہلے بھی عرض کیا تھا، بارِ دگر کہہ رہا ہوں کہ سب سے پہلے زراعت پر اور صنعت پر توجہ دی جائے۔ زراعت ہمیں خوراک کے لحاظ سے خود کفیل بنائے گی جس سے زرِ مبادلہ کے ذخائر بچیں گے، جبکہ صنعتی برآمدات زرِمبادلہ کے ذخائر کا حجم بڑھانے کا سبب بنیں گے اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ سرا مسئلہ ہی زرِ مبادلہ کے کم ذخائر کا ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE -  ملک کو حقیقی ترقی کیسے ملے گی؟ - محمد معاذ قریشی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 ملک کو حقیقی ترقی کیسے ملے گی؟

23 1
28.03.2024

پتا نہیں کیوں حکمران بڑے فخر سے یہ بتاتے ہیں کہ ہم نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں یا پوری کرنے جا رہے ہیں جس کے بعد ہمیں اس عالمی اقتصادی ادارے سے قرضے کی اگلی قسط مل جائے گی یا اگلے پیکیج کے لیے کوئی ڈیل ہو سکے گی۔ انہیں ایسی بات کرتے ہوئے سو بار سوچنا چاہیے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ آج اگر ہمارا ملک دیوالیہ کی حد کو پہنچا ہے اور ہم مالی لحاظ سے اس قدر مجبور ہو چکے ہیں کہ آئی ایم ایف سے ایک کے بعد دوسرا، اور دوسرے کے بعد تیسرا پیکیج لینے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تو یہ کوئی فخر کی بات نہیں، تشویش اور افسوس کا معاملہ ہے۔ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا ملک اس حالت کو کیوں پہنچا؟ اس ملک کو اس نہج تک پہنچانے کے ذمہ دار کون ہیں؟ اور اس دلدل سے نکلنے کا راستہ کون سا ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے ملک کو اس نہج تک پہنچانے کے ذمہ دار عوام نہیں ہو سکتے کہ اختیارات ان کے ہاتھوں میں کبھی نہیں رہے، انتخابات کے دوران ان کا مینڈیٹ بھی ادھر ادھر کر دیا جاتا رہا۔ یہ حکمران ہیں جو ملک کی پالیسیاں مرتب کرتے اور ان پر عمل درآمد کراتے ہیں، لہٰذا 1947 سے اب تک اس ملک پر حکمرانی کرنے والے لوگ اور پارٹیاں ہی ملک کی اس حالت کے ذمہ دار قرار دئیے جا سکتے ہیں کہ انہوں نے ملک، قوم کو حقیقی ترقی کی راہ پر ڈالنے کی بجائے قرضوں پر قرضے لیے، اور محض وقتی، جنہیں پنجابی میں ڈنگ ٹپاؤ کہا جاتا ہے، پالیسیاں بنائیں اور صرف اپنا وقت گزارا، اپنا Tenure پورا کیا۔ یہ نہیں سوچا کہ بعد میں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play