جج صاحبان کا مکتوبِ گرامی!
اسلام آبادہائیکورٹ کے چھ معزز جج صاحبان کی اجتماعی فریاد کا محرّک کچھ بھی ہو، اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ کوئی دوسری رائے نہیں کہ مطلوب فیصلے لینے کے لئے ججوں کو ڈرانے، دھمکانے یا للّچانے کا باب ہمیشہ کے لئے بند کردینے کا وقت آگیا ہے۔
لیکن خط کا معاملہ اتنا بھی سادہ ومعصوم نہیں۔ اہم سوال تو یہ ہے کہ کیا خوف اور لالچ سے کُلّی طور پر آزاد ججوں نے ہمیشہ عدل کی پاسداری کی ہے؟ کیا کھلی فضاؤں اور مصفّیٰ ہواؤں میں سانس لیتے ہوئے اُن کے فیصلے رغبت وعناد سے پاک رہے ہیں؟ کیاہمیشہ کسی دہلیز کے لئے اُن کے جبینِ نیاز میں ہزاروں سجدے نہیں تڑپتے رہتے؟ آج اگر پاکستان کی عدلیہ عالمی درجہ بندی میں 142 ممالک میں 130 نمبر اور خطے کے چھ ممالک میں سے پانچویں نمبر پر ہے تو ا س کا واحد سبب وہ نہیں جس کی طرف مکتوب نویس ججوں نے توجہ دلائی ہے۔ مکتوب نویسوں میں سے سب سے سینئر، جسٹس محسن اختر کیانی 2015ء میں ہائی کورٹ کے جج بنے جب نوازشریف وزیراعظم تھے۔باقی پانچوں 2020۔2021ء میں ہائی کورٹ کے جج بنے جب پی۔ٹی۔آئی کا ”عہدِ انصاف پَرور“ عروج پر تھا۔ 2018ء میں جب عدالت کے سب سے سینئر جج نے، جسے دوماہ بعد چیف جسٹس بننا تھا، کلمہ حق بلند کیا اور دہائی دی کہ آئی۔ایس۔آئی کے ایک جرنیل نے اُس کے گھر آ کر ایک مطلوب فیصلے کے لئے دباؤ ڈالا اور لالچ دیا تو اُسے آبروباختہ انداز میں گھر بھیج دیاگیا۔ تب مکتوب نویسِ اعلی جسٹس محسن اختر کیانی ہائی کورٹ کا حصہ تھے۔ وہ خاموش رہے۔ باقی پانچ مکتوب نویس بھی پچھلے تین چار برس سے، ایک ایجنسی کی مداخلت کی دہائی دینے والے سینئر رفیقِ کار کا حشر دیکھ رہے تھے۔ کسی نے کوئی خط نہ لکھا کہ ہم بھی اِسی تجربے سے گذر رہے ہیں۔ ہمیں بھی فریق بناؤ۔ تب کسی نے اُس کا حال تک نہ پوچھا۔ اُسے پُرسا تک نہ دیا۔ اس کا مکمل سماجی مقاطعہ کئے رکھا۔ اُس نے بیٹی کی........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website