بلوچستان کے ایک سابق وزیراعلیٰ کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا تھا کہ ڈگری، ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو جعلی، مگر اب معاملہ اس سے بہت آگے بڑھ چکا ہے۔اب یہ کہنے کی نوبت آ گئی ہے کہ ایم این اے، ایم این اے ہوتا ہے اصلی ہو یا جعلی…… بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں جو اصلی ایم این اے ہے وہ جعلی ہے اور جو جعلی ایم این اے ہے وہ اصلی ہے۔ ایم این اے ہو یا پھر ایم پی اے۔ جس کو عوام نے منتخب کیا ہو۔ضروری نہیں کہ اسے قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی میں بیٹھنا نصیب ہو، کیونکہ اصلی ایم این اے اور ایم پی اے وہی تسلیم کیا جائے گا جس کا اعلان الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔اگرچہ یہ عوام کی توہین ہے کہ جس بھی امیدوار کو عوام اپنے ووٹوں سے قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کریں۔ اس منتخب رکن کی جگہ الیکشن کمیشن کسی ہارے ہوئے امیدوار کی کامیابی کا اعلان کر دے۔ پاکستان کے آئین میں الیکشن کمیشن کے فرائض کے حوالے سے یہ تحریر کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ایمانداری، حق اور انصاف کے ساتھ اور قانون کے مطابق انتخابات کروائے گا اور انتخابات کے عمل میں کسی طرح کی بدعنوانی نہیں ہوگی۔ اگر ہارے ہوئے امیدواروں کی کامیابی کا اعلان الیکشن کمیشن کر دے تو کیا ایسے انتخابات کو ایمانداری، حق اور انصاف کے ساتھ کروائے گئے انتخابات قرار دیا جا سکتا ہے۔کیا یہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف نہیں کہ عوام کے منتخب کئے ہوئے امیدواروں کی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیا جائے اور ہارے ہوئے امیدواروں کی ایک بڑی تعداد کو قومی اورصوبائی اسمبلیوں میں بٹھا دیا جائے۔ ایمانداری سے الیکشن کروانے کے لئے پریذائیڈنگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں کا انتخاب بھی الیکشن کمیشن خود کرتا ہے۔ ہر پولنگ اسٹیشن کا پریذائیڈنگ افسر الیکشن کے دن انتخابات کا عمل مکمل ہونے کے بعد فارم 45پر الیکشن کے نتائج مرتب کرتا ہے اور یہ فارم 45تمام امیدواروں کے نمائندوں اور ریٹرننگ افسر کو بھی فراہم کر دیتا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے تمام فارم 45کو سامنے رکھ کر ہر حلقے کے کامیاب ہونے والے ایم این اے اور ایم پی اے کا اعلان متعلقہ ریٹرننگ افسر فارم 47میں کر دیتا ہے۔ اسی فارم 47میں ہارے ہوئے امیدواروں کے نام اور ووٹ بھی درج ہوتے ہیں۔ اب اگر فارم 45کے مطابق پچاس ہزار ووٹوں سے بھی زیادہ برتری کے ساتھ کامیاب ہونے والے امیدوار کو فارم 47میں ہارا ہوا درج کر دیاجائے اور عوام نے اپنے ووٹوں کی طاقت استعمال کرتے ہوئے جس امیدوار کو شکست سے دوچار کر دیا ہو، الیکشن کمیشن فارم 47میں کامیاب قرار دے دے تو اس سے بڑی بدعوانی اور ناانصافی کیا ہو سکتی ہے۔

روس کا افغان طالبان کو دہشتگردوں کی فہرست سے نکالنے پر غور

چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن کا کوئی رکن جب اپنی ذمہ داری سنبھالتا ہے تو وہ پاکستان کے آئین میں درج حلف اٹھاتا ہے اور حلف قسم اٹھا کر دیا جاتا ہے۔ اس حلف کے مطابق تمام اراکینِ الیکشن کمیشن کوایمانداری، پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق اور بلاخوف و رعایت اور بِلارغبت و عناد اپنے فرائض منصبی ادا کرنا ہوتے ہیں۔ چھوٹی بے ضابطگیوں کو تو نظر انداز بھی کیا جا سکتا ہے مگر جب فارم 45کے مطابق ہزاروں ووٹوں کی برتری سے جیتنے والے امیدواروں کے نام عوام کے فیصلے کے مطابق فارم 47میں درج نہ کئے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ الیکشن کمیشن کے اراکین نے اپنے حلف کی پاسداری نہیں کی اور الیکشن ملک کے آئین اور قانون کے مطابق نہیں کروائے گئے۔ 8فروری 2024ء کے الیکشن میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کتنے حلقے ہیں جن میں ہارے ہوئے امیدواروں کی صرف فارم 47میں کامیابی کا اعلان کیا گیا ہے۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر اراکین الیکشن کمیشن سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ کون کون کہاں کہاں ہارا تھا اور اب وہ فارم 47کے چُھومنتر کے سبب قومی یا صوبائی اسمبلی میں بطور ممبر اسمبلی حلف اٹھا چکا ہے۔ ان میں سے بعض تو وزیر کے منصب کا بھی حلف اٹھا چکے ہیں۔ وہ حلف جو بسم اللہ پڑھنے سے شروع کیا جاتا ہے اور ہر ممبر قومی و صوبائی اسمبلی کے حلف کی آخری سطر یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مدد اور رہنمائی فرماتے۔ اللہ تعالیٰ کبھی کسی ظالم اور غاصب کی رہنمائی نہیں کرتا۔

عالیہ بھٹ کو کنگنا رناوت نے بے جا تنقید کا نشانہ بنایا،رندیپ ہُودا

ظالم اور غاصب وہ ہوتا ہے جو زبردستی کسی کا حق چھین لے۔ ہارے ہوئے امیدواروں کی جیت کے اعلان سے پہلے تو ان لاکھوں ووٹرز کا حق چھین لیا گیا جنہوں نے منتخب تو کسی اور امیدوار کو کیا تھا اور الیکشن کمیشن نے آئین، قانون اور ایمانداری کی دھجیاں اڑا کر کسی ہارے ہوئے امیدوار کو صرف فارم 47پر کامیاب قرار دے دیا۔ عوام کے بعد ان منتخب ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کا حق بھی غصب کر لیا گیا جن کو عوام نے تو منتخب کر دیا تھا مگر فارم 47کی تلوار سے ان کی گردن کاٹ دی گئی۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ ایک ممبر اسمبلی یہ جانتے ہوئے بھی کہ عوام نے اسے منتخب نہیں کیا اور وہ کسی مسافری جادوگر کے تیار کئے ہوئے جعلی فارم 47کی وجہ سے اسمبلی میں پہنچا ہے تو کیا اس کا ضمیر ملامت نہیں کرتا جب وہ اللہ کی قسم اٹھا کر خود کو قومی یا صوبائی اسمبلی کا ممبر کہتا ہے۔ وہ اپنے فرائض منصبی ایمانداری سے اور آئین کے ساتھ وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے ادا کرنے کا حلف اٹھاتا ہے۔ کیا اس کی ایمانداری نے اسے جھوٹا حلف اٹھانے سے نہیں روکا۔ جب اس کی بسم اللہ ہی غلط ہے تو وہ اپنے فرائض ایمانداری سے کیسے ادا کرے گا۔

پاکستان سمیت مختلف ممالک میں واٹس ایپ سروسز تعطل کے بعد بحال ہونا شروع

سابق آئی جی پولیس ذوالفقار چیمہ کے بھائی ڈاکٹر نثار چیمہ نے قومی اسمبلی کا الیکشن ہارنے کے بعد ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انہیں بھی یہ پیشکش ہوئی تھی کہ انتخابی نتائج بدل کر ان کی کامیابی کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔لیکن ڈاکٹر نثار چیمہ نے کہا کہ میں اپنے ضمیر پر اس جعلی کامیابی کا بوجھ اٹھا کر قومی اسمبلی کی رکنیت قبول نہیں کر سکتا۔ ایک باضمیر اور بااصول سیاست دان کا یہی فیصلہ ہو سکتا تھا۔ سامری جادوگر کے تیار کئے ہوئے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی میں سے آج بھی اگر ڈاکٹر نثار چیمہ کی تقلید کرتے ہوئے اپنی جعلی جیت کو مسترد کرکے اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیں اور عوام کے منتخب کئے ہوئے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کے لئے جگہ خالی کر دیں تو عوام میں ان کی عزت بڑھ جائے گی اور مستقبل میں وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب بھی ہو سکتے ہیں۔ یقین کریں کہ جعلی مینڈیٹ یا دوسرے لفظوں میں عوام کے ووٹوں پر ڈاکا ڈال کر خود کو ایم این اے، ایم پی اے کہلوانے والوں یا وزارتوں کے مزے اٹھانے والوں کی عوام کی نظروں میں کوئی عزت نہیں۔ میری اس تحریر کے مخاطب وہ سیاست دان ہیں جو سیاست میں عزت کمانے کے لئے آتے ہیں۔ جو اپنے ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں اور جن کے دل میں پاکستان کے آئین اور قانون کا احترام ہیں۔ شاید کسی بندۂ خدا پر میری یہ گزارشات اثر کر جائیں۔

دنیا کس سال ختم ہو جائے گی؟ بابا وانگا کی پیش گوئی نے تہلکہ مچا دیا

QOSHE - ایم این اے اصلی ہو یا جعلی - محمد آصف بھلی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایم این اے اصلی ہو یا جعلی

20 0
04.04.2024

بلوچستان کے ایک سابق وزیراعلیٰ کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا تھا کہ ڈگری، ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو جعلی، مگر اب معاملہ اس سے بہت آگے بڑھ چکا ہے۔اب یہ کہنے کی نوبت آ گئی ہے کہ ایم این اے، ایم این اے ہوتا ہے اصلی ہو یا جعلی…… بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں جو اصلی ایم این اے ہے وہ جعلی ہے اور جو جعلی ایم این اے ہے وہ اصلی ہے۔ ایم این اے ہو یا پھر ایم پی اے۔ جس کو عوام نے منتخب کیا ہو۔ضروری نہیں کہ اسے قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی میں بیٹھنا نصیب ہو، کیونکہ اصلی ایم این اے اور ایم پی اے وہی تسلیم کیا جائے گا جس کا اعلان الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔اگرچہ یہ عوام کی توہین ہے کہ جس بھی امیدوار کو عوام اپنے ووٹوں سے قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کریں۔ اس منتخب رکن کی جگہ الیکشن کمیشن کسی ہارے ہوئے امیدوار کی کامیابی کا اعلان کر دے۔ پاکستان کے آئین میں الیکشن کمیشن کے فرائض کے حوالے سے یہ تحریر کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ایمانداری، حق اور انصاف کے ساتھ اور قانون کے مطابق انتخابات کروائے گا اور انتخابات کے عمل میں کسی طرح کی بدعنوانی نہیں ہوگی۔ اگر ہارے ہوئے امیدواروں کی کامیابی کا اعلان الیکشن کمیشن کر دے تو کیا ایسے انتخابات کو ایمانداری، حق اور انصاف کے ساتھ کروائے گئے انتخابات قرار دیا جا سکتا ہے۔کیا یہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف نہیں کہ عوام کے منتخب کئے ہوئے امیدواروں کی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیا جائے اور ہارے ہوئے امیدواروں کی ایک بڑی تعداد کو قومی اورصوبائی اسمبلیوں میں بٹھا دیا جائے۔ ایمانداری سے الیکشن کروانے کے لئے پریذائیڈنگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں کا انتخاب بھی الیکشن کمیشن خود کرتا ہے۔ ہر پولنگ اسٹیشن کا پریذائیڈنگ افسر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play