ریاست اور انتظامی امور لازم و ملزوم ہیں اور حکومت اس کا ستون ہے عوام کی حکومت کے انتظامی امور سے نظام اور ادارے چلتے ہیں جس سے ریاست آگے جاتی ہے اور مربوط ریاستی ڈھانچہ سامنے آتا ہے پاکستان میں بے روزگاری غربت اور افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں طلبا یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لیکر مارے مارے پھرتے ہیں اور پروفیشنل ڈگریوں کا بھی اب بُرا حال ہے ریاستی امور اور ادارے چلانے کے لئے ملازمین اور افسر شاہی ملک کو ترقی اور خوشحالی کے ساتھ حکومتی پالیسیوں اور منصوبوں پر عملدرآمد کرواتے ہیں ان ملازمین کا انتخاب وفاقی پبلک سروس کمیشن اور صوبائی پبلک سروس کمیشن محکموں کی ریکوزیشن پر میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر کرتا ہے جس سے ملک کو با صلاحیت اور اعلی ذہن کے مالک کے افراد میسر آتے ہیں اور حکومتی امور موثر طریقہ سے چلتے ہیں، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ وفاقی پبلک سروس کمیشن سے امیدواروں کو بہت سی شکایات ہیں پولیس اور ایکسائز کی متعدد آسامیوں کو اعتراضات لگا کر واپس محکوں کو بھجوایا گیا ہے اور ان آسامیوں پر بھرتی کا عمل صوبائی پبلک سروس کمیشن پنجاب نے تعطل میں رکھا ہوا ہے، جس سے ہزاروں بے روزگار نوجوانوں میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے اور امیدوار پریشان ہیں، وفاق میں بھی کچھ صورتحال اسی قسم کی ہے اور ریکروٹمنٹ کے پراسس میں تین سے چار سال لگا دئے جاتے ہیں جس سے پاکستان کی کریم یوتھ بیرون ممالک کا رخ کرنے پر مجبور ہے حکومت کو صوبائی اور وفاقی ریکروٹمنٹ کے اداروں کی خامیوں کو دور کرنا چاہیے اور اصلاحات کے عمل کو بھی ان کمیشن کو فعال کرنے کے لئے تیز کرنا ہو گا تاکہ پاکستان کی باصلاحیت یوتھ کو بیرون ممالک ہجرت سے روکا جا سکے اور ہماری یوتھ کی صلاحتیوں کو دیگر دنیا کے ممالک کیوں استعمال کریں، ترقی کریں خدا را، ہماری یوتھ ملک کا قیمتی اثاثہ ہے، چند ماہ قبل سندھ پبلک سروس کمیشن میں بھی بے ضابطگیوں کی رپورٹس سامنے آئی ہیں پھر ان کمیشن میں ریٹائرڈ بیوروکریٹس پولیس اور افواج پاکستان کے لوگوں کو لیا جاتا ہے اور ان کو اچھی خاصی مراعات بھی دی جاتی ہیں انگریزوں نے یہ کمیشن بھرتیوں کے لئے بنائے تھے تاکہ ملک کی باگ دوڑ اعلیٰ ذہنوں کے مالک افراد کو دے کر ریاست آگے چلتی رہے، لیکن پاکستان میں ان صوبائی اور وفاقی کمیشن کے طریقہ انتخات میں اتنی پیچیدگیاں اور سست روی پیدا ہو گئی ہے کہ محکوں کی طرف سے ریکوزیشن پر بلا وجہ اعتراضات لگا کر محکموں کو واپس کر دی جاتی ہیں وفاق کی خالی آسامیوں کو پر کرنے لئے دوسال بعد زرلٹ آؤٹ ہوتا ہے اور ایک سال میں انٹرویو کا پراسس مکمل ہوتا ہے اور یہ پراسس کے تین سال بھی امیداروں کو بڑی کربناک صورتحال میں بے روزگار رہنا پڑتا ہے حضوؐر پاک کے زمانہ میں بھی ریاستی امور کی سرانجام دہی کے لئے افراد کا چناو ہوتا تھا پھر خلفائے راشدینؓ کے زمانہ میں اس چناؤ کے لئے قواعد و ضوابط بنا لئے گئے تاکہ ریاست اور حکومت بہتر طریقہ سے چل سکے جس کو ہم اب گڈ گورننس کہتے ہیں دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں حکومت اور ادارے فعال کرنے کے لئے ایسے کمیشن موجودہیں سوائے سات خلیجی ممالک کے وہاں تھوڑا سا طریقہ کار مختلف ہے اور بادشاہی نظاموں کے سبب تقرری کے لئے نامینیشن ہوتی ہے چین وہ واحد ملک ہے جہاں پر حکومتی امور و انتظام کے لئے افراد کی تقرری کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے، بھارت میں بھی ایسے کمیشن موجود ہیں جو نظاموں میں بہتری لانے کے لئے بہتر افراد کا چناؤ کرتے ہیں چین میں انتظامات اور حکومتی امور کی سر انجام دہی کے طریقہ کار کی تاریخ دنیا میں سب سے پرانی ہے 221 ق م میں چن شی ہوانگ نے متعدد خود مختار ریاستوں پر حملہ کر کے ان پر قبضہ کر لیا اور ایک بڑی حکومت بنائی۔ یہیں سے چن شاہی خاندان کی بنیاد پڑی اور امپیریل چائنا کا آغاز ہوا۔ چن شی ہوانگ نے اپنے gvے شہنشاہ چین کا لقب اختیار کیا،مگر تاریخ میں اس کو اچھے نام سے یاد نہیں کیاجاتا۔ وہ ایک ظالم بادشاہ تھا اسی لیے اس کی موت کے بعد ہی اس کی سلطنت بھی تباہ ہو گئی، اس کے بعد آنے والی سلطنتوں نے چین میں دفتر شاہی نظام کی ابتدا کی جس کی وجہ سے بادشاہ کو براہ راست وسیع و عریض خطہ پر حکومت کرنا آسان ہو گیا۔ تاریخ چین میں چینی بادشاہت و حکومت کا یہ خاصہ رہا ہے کہ بادشاہتیں بدلنے کے باوجود انتظامیہ کا سلسلہ 21 صدیوں تک مسلسل مربوط رہا اور 206 ق م سے 1912ء یعنی 21 صدیوں تک یہ نظام بخوبی چلا۔ اس کا سہرا چین کے خاص اسکالر اور افسروں کو جاتا ہے، جنہوں نے اس روایت کو زندہ رکھا یہی وجہ ہے تاریخ کے ساتھ ساتھ چین کا نظم و نسق بھی ہمیشہ منظم اور مربوط رہا۔ اس خاص روایت کی وجہ یہ تھی کہ حکومت میں نوجوان، خطاطوں، مؤرخین، ادبا اور ماہر فلسفیوں کا انتخاب بڑے اہتمام اور سخت حکومتی امتحانات کے بعد کیا جاتا تھا۔ چین کا سب سے آخری شاہی خاندان چنگ شاہی خاندان 1644ء تا 1912ء ہے۔ اس کے بعد چین میں جمہوریت آگئی اور 1912ء تا 1949ء رہی۔ پھر عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد پڑی جو 1949ء سے اب تک قائم ہے۔ چینی تاریخ کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں امن وسکون اور جنگ یکے بعد دیگرے آتے رہے۔ کبھی سیاسی اتحاد دیکھنے کو ملتا ہے کبھی ناکام ریاستوں کا دور شروع ہوتا ہے اور ایک طویل عرصہ چلتا رہا۔ یہاں تک کہ 1927ء تک سیاسی اتحاد اور امن و سکون کے بعد 1927ء چین خانہ جنگی کا دور شروع ہوا جو 1949ء تک چلا۔فی الحال چین میں سیاسی استحکام آگیا ہے اور امن و سکون کا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔ چین میں وقتاً فوقتاً خانہ بدوشوں کی حکومت رہی ہے۔ اور ان میں سے اکثر ہان چینی سے کسی نہ کسی طرح تعلق رکھتے ہیں۔ چین کے شاہی خاندانوں نے مختلف ادوار میں ملک کے ایک حصہ اور بعض دفعہ مکمل خطہ پر حکومت کی۔ ان میں سے کچھ حکومتیں سنکیانگ اور تبت تک پھیلی ہوئی تھیں۔ چین میں مہاجرین اور تاجروں کے ذریعے مغربی اور ایشیائی تہذیبیں بھی رونما ہوئیں۔ انتظامی امور کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے اگر انتظامی امور میں بہتری آئے گی تو آٹومیٹیکلی ریاستی ادارے بھی بہتری کی طرف اپنا رخ موڑتے نظر آئیں گے ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی اداروں کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر ملک اور حکومت کے لئے کام کرنا ہے جس سے ملک میں خلفشار پیدا نہیں ہوتا اور ملک کے ادارے اور سیاسی نظام مضبوط ہوتا ہے۔

سعودی سپریم کورٹ نےعید کے چاند سے متعلق شہریوں سے اپیل کردی

QOSHE -  انتظامی امور اور ریاستی ادارے - سید عارف نوناری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 انتظامی امور اور ریاستی ادارے

21 0
07.04.2024

ریاست اور انتظامی امور لازم و ملزوم ہیں اور حکومت اس کا ستون ہے عوام کی حکومت کے انتظامی امور سے نظام اور ادارے چلتے ہیں جس سے ریاست آگے جاتی ہے اور مربوط ریاستی ڈھانچہ سامنے آتا ہے پاکستان میں بے روزگاری غربت اور افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں طلبا یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لیکر مارے مارے پھرتے ہیں اور پروفیشنل ڈگریوں کا بھی اب بُرا حال ہے ریاستی امور اور ادارے چلانے کے لئے ملازمین اور افسر شاہی ملک کو ترقی اور خوشحالی کے ساتھ حکومتی پالیسیوں اور منصوبوں پر عملدرآمد کرواتے ہیں ان ملازمین کا انتخاب وفاقی پبلک سروس کمیشن اور صوبائی پبلک سروس کمیشن محکموں کی ریکوزیشن پر میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر کرتا ہے جس سے ملک کو با صلاحیت اور اعلی ذہن کے مالک کے افراد میسر آتے ہیں اور حکومتی امور موثر طریقہ سے چلتے ہیں، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ وفاقی پبلک سروس کمیشن سے امیدواروں کو بہت سی شکایات ہیں پولیس اور ایکسائز کی متعدد آسامیوں کو اعتراضات لگا کر واپس محکوں کو بھجوایا گیا ہے اور ان آسامیوں پر بھرتی کا عمل صوبائی پبلک سروس کمیشن پنجاب نے تعطل میں رکھا ہوا ہے، جس سے ہزاروں بے روزگار نوجوانوں میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے اور امیدوار پریشان ہیں، وفاق میں بھی کچھ صورتحال اسی قسم کی ہے اور ریکروٹمنٹ کے پراسس میں تین سے چار سال لگا دئے جاتے ہیں جس سے پاکستان کی کریم یوتھ بیرون ممالک کا رخ کرنے پر مجبور ہے حکومت کو صوبائی اور وفاقی ریکروٹمنٹ کے اداروں کی خامیوں کو دور کرنا چاہیے اور اصلاحات کے عمل کو بھی ان کمیشن........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play