پیغمبروں کی سرزمیں کے امیں
سب عید کی خریداری کے لیے جا رہے تھے بہت بھیڑ تھی لوگ اپنے بچوں کو لئے بازاروں مارکیٹوں کا رخ کیے ہوئے تھے ہر کوئی بھاگتا ہوا ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں آگے بڑھ رہا تھا اور اس دوڑ میں کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے راستوں میں کوئی مجبور لاچار شخص بھی عید کی خوشیاں سمیٹنے کے لیے آنکھوں میں ان گنت خواہشیں لیے کھڑا ہے وہ شخص بہت سارے آنسو لیے گلی کے ایک کونے پہ کھڑا تھا اس کا معصوم اور مغموم چہرہ بتا رہا تھا کہ محرومیوں کا ایک گرداب ہے جس نے اسے آ لیا ہے ایک مجبور لاچار باپ اپنے گھر کی طرف قدم اٹھاتا ہے رک جاتا ہے گھر میں اس کے بچے اس کے آنے کے منتظر ہیں کہ اس کے بابا آئیں گے اور انہیں عید کی خریداری کے لیے لے جائیں گے باپ بوجھل قدموں کے ساتھ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوتا ہے اس کے قدموں کے ساتھ جیسے کسی نے بھاری پتھر باندھ دیئے ہیں وہ قدم اٹھاتا ہے لیکن اس سے قدم اٹھ نہیں رہے اس کے پاؤں میں بھاری پتھر ہی تو بندھے ہوئے ہیں غربت کے پتھر محرومیوں اور مجبوریوں کے پتھر اور یہ مجبوریاں اسے راستے میں گلی کی ایک نکڑ پہ کھڑا کیے ہوئے تھیں گلی کی نکڑ پہ کھڑے آنکھوں میں آنسوؤں کی برسات لیے اس شخص کی طرف آنے جانے والوں کا دھیان بھی نہیں جارہا تھا کہ آنے جانے والوں کو تو اپنے بچوں کی خریداری کی جلدی تھی کہ وہ جتنی جلدی ہو سکے اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے اور جوتے خرید لائیں میں اس شخص کی جانب بڑھتا ہوں اس سے اس کی اداسی کا سبب نہیں پوچھتا میں اس کے حالات سے واقف ہوں اس کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ اس کے اندر کون سا الاؤ دہک رہا ہے میں اس سے پوچھ کر اس کے دل پر چوٹ نہیں کرنا چاہتا تھا وہ شخص اس کشمکش میں تھا کہ وہ خالی ہاتھ اپنے گھر کیسے جائے اور میں اس مسئلے کا شکار تھا کہ میں اس کی مدد کیسے کروں کہ سفید پوش یہ شخص اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے تھا میری........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website