سب عید کی خریداری کے لیے جا رہے تھے بہت بھیڑ تھی لوگ اپنے بچوں کو لئے بازاروں مارکیٹوں کا رخ کیے ہوئے تھے ہر کوئی بھاگتا ہوا ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں آگے بڑھ رہا تھا اور اس دوڑ میں کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے راستوں میں کوئی مجبور لاچار شخص بھی عید کی خوشیاں سمیٹنے کے لیے آنکھوں میں ان گنت خواہشیں لیے کھڑا ہے وہ شخص بہت سارے آنسو لیے گلی کے ایک کونے پہ کھڑا تھا اس کا معصوم اور مغموم چہرہ بتا رہا تھا کہ محرومیوں کا ایک گرداب ہے جس نے اسے آ لیا ہے ایک مجبور لاچار باپ اپنے گھر کی طرف قدم اٹھاتا ہے رک جاتا ہے گھر میں اس کے بچے اس کے آنے کے منتظر ہیں کہ اس کے بابا آئیں گے اور انہیں عید کی خریداری کے لیے لے جائیں گے باپ بوجھل قدموں کے ساتھ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوتا ہے اس کے قدموں کے ساتھ جیسے کسی نے بھاری پتھر باندھ دیئے ہیں وہ قدم اٹھاتا ہے لیکن اس سے قدم اٹھ نہیں رہے اس کے پاؤں میں بھاری پتھر ہی تو بندھے ہوئے ہیں غربت کے پتھر محرومیوں اور مجبوریوں کے پتھر اور یہ مجبوریاں اسے راستے میں گلی کی ایک نکڑ پہ کھڑا کیے ہوئے تھیں گلی کی نکڑ پہ کھڑے آنکھوں میں آنسوؤں کی برسات لیے اس شخص کی طرف آنے جانے والوں کا دھیان بھی نہیں جارہا تھا کہ آنے جانے والوں کو تو اپنے بچوں کی خریداری کی جلدی تھی کہ وہ جتنی جلدی ہو سکے اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے اور جوتے خرید لائیں میں اس شخص کی جانب بڑھتا ہوں اس سے اس کی اداسی کا سبب نہیں پوچھتا میں اس کے حالات سے واقف ہوں اس کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ اس کے اندر کون سا الاؤ دہک رہا ہے میں اس سے پوچھ کر اس کے دل پر چوٹ نہیں کرنا چاہتا تھا وہ شخص اس کشمکش میں تھا کہ وہ خالی ہاتھ اپنے گھر کیسے جائے اور میں اس مسئلے کا شکار تھا کہ میں اس کی مدد کیسے کروں کہ سفید پوش یہ شخص اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے تھا میری حالت بھی اس شخص سے کچھ مختلف نہ تھی کہ وہ اپنے بچوں کا سامنا کرنے سے ڈر رہا تھا کہ اس کے بچے تو اس کے گھر پہنچتے ہی اس سے لپٹ جائیں گے اور اس سے بازار جانے کی خواہش کریں گے اور میری مجبوری یہ تھی کہ میں اس شخص کی مدد کا کوئی بہانہ ڈھونڈ رہا تھا جو مجھے مل نہیں رہا تھا میں سوچتا ہوں کہ معاشرے میں کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اس شخص کی طرح آنکھوں میں آنسوؤں کا ذخیرہ لیے کسی گلی کے نکر پہ کھڑے ہیں گھر کے کسی کونے میں پڑے ہیں یا آنکھوں میں اشکوں کی سوغات لیے کہیں گرتے پڑتے اپنی مجبوریوں کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ایسے کتنے ہی لوگ ہیں جو ہماری اک نگاہ کے منتظر ہیں میں جانتا ہوں کہ پاکستان میں درد دل رکھنے والے کتنے ہی لوگ بستے ہیں جو کتنے ہی لوگوں کی امداد بھی کرتے ہیں لیکن ان سفید پوشوں کا کیا کیجئے کہ جو کسی کے آگے دستِ طلب بھی دراز نہیں کرتے میں انہی سوچوں میں گم ہوں کہ یہ لوگ دن بھر خود کو محنت کی بھٹی میں جلاتے ہیں پہاڑ دن کی مشقت کاٹتے ہیں سورج کو اپنی پیٹھ پر ڈھوتے ہیں اور دن بھر کی مشقت کے بعد یہ اتنا بھی کما نہیں پاتے کہ صرف اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے کے علاوہ ان کی کسی دوسری خواہش کو بھی پورا کر سکیں عید یا عید کے علاوہ کسی تہوار پر وہ اپنے بچوں کو نئے جوتے یا کپڑے لا کر دے سکیں میں ان سوچوں میں گم ہوں کہ میرا تصور یہاں سے مجھے غزہ میں جلتے ہوئے بچوں کٹتے ہوئے جوانوں مرتی ہوئی خواتین اور جھلستے ہوئے جسموں کی طرف لے جاتا ہے کہ فلسطین جو پیغمبروں کی سرزمین ہے کہ جس کا تقدس مسلمانوں کے لیے کسی طور کم نہیں ہے ہمارا قبلہ اول کہ جس پر یہودی مسلط ہیں اور فلسطینی کہ جو کتنے نفیس۔ وضع دار لوگ ہیں جن کی ایک تاریخ ہے جن کی ایک تہذیب ہے جن کا ایک تمدن ہے جن کا ایک وقار ہے معیار ہے جن کی کچھ روایات ہیں جن کے پاس اخلاق اور کردار کی دولت ہے وہ لوگ جنہوں نے ان یہودیوں کو پناہ دی دنیا کے ٹھکرائے ہوئے یہودیوں کو جگہ دی یہ دنیا کے ٹھکرائے ہوئے یہودی کہ جنہیں دنیا کا کوئی ملک اپنے ہاں رکھنے پہ آمادہ نہیں تھا برطانیہ نے انہیں ایک سازش کے تحت فلسطین میں آباد کرنے کا منصوبہ بنایا یہودیوں کو تو یورپ یا دنیا کا کوئی دوسرا ملک رکھنے کا روادار نہیں تھا برطانیہ بھی یہودیوں کی شرارتوں سے آگاہ تھا برطانیہ چاہتا تھا کہ دنیا کی ٹھکرائی ہوئی یہ قوم کہیں ان کے ہاں آباد ہو کر ان کا مستقبل تباہ نہ کر دے یہی وجہ ہے کہ برطانیہ نے یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کا منصوبہ بنایا وہ جانتے تھے کہ مسلمان نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات سے استفادہ کئے ہوئے ہیں مسلمان جو کسی کو دکھ میں نہیں دیکھ سکتا مسلمان جو دوسروں کے کام آنے کا جذبہ رکھتا ہے جن کی اسلامی تعلیمات نے ان کو خدمت خلق کے جذبے سے مالامال کر دیا ہے یہ مسلمان کسی کو تکلیف میں دیکھنا قبول نہیں کرتے فلسطینی بخوشی یہودیوں کو رہنے کو جگہ دے دیں گے سو فلسطینیوں نے ان پر احسان کیا اور پھر ازل سے ٹھکرائے ہوئے ان یہودیوں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا یہودی وہاں پر آباد ہونا شروع ہوئے ساتھ ہی انہوں نے فلسطینیوں پر مظالم ڈھاناشروع کر دئیے اور یہودیوں کا ظلم دراز ہوتا یہاں تک آپہنچا ہے کہ چھ ماہ سے زائد کا عرصہ ہونے کو آیا کہ روزانہ کی بنیادوں پر اسرائیلی درندے غزہ پر آگ اور بارود برسا رہے ہیں آگ اور بارود کو پھانکتے ہوئے غزہ کے شہری یہودیوں کے آگے سر نگوں نہیں بلکہ سینہ سپر ہیں یہ مہینوں کے بھوکے پیاسے فلسطینی انہیں سحر و افطار کے لیے کھانے کو تو کیا کچھ ملتا ہوگا انہیں پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں کہ آج غزا قحط کا شکار ہے جہاں بچے بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں لیکن پھر بھی جذبہ ایمانی سے سرشار قحط میں بھی یہ روزہ رکھتے ہیں اور خدا کا شکر ادا کرتے ہیں ایسے حالات میں جب فلسطینیوں کے لیے پاکستان میں امداد کے لیے صدقہ و خیرات کی اپیل کی جاتی ہے تو میرے دل کے ٹکڑے ہو جاتے ہیں کہ وہ فلسطینی وہ غیور لوگ وہ جذبہ ایمانی سے سرشار لوگ پیغمبروں کی سرزمیں کے امیں لوگ جنہوں نے کسی کو سکھ دینا سیکھا ہے جن کی مسکراہٹوں پر پھول بھی قربان ہوتے ہیں ایسے خوبصورت چہروں والے ایسے خوبصورت کردار والے لوگ کہ جن کی آنکھیں دوسروں کی خیر خواہی سے روشن ہیں جن کی آنکھوں میں انسانوں کی محبت کا نور بھرا ہے جن کا دل خدا کی مخلوق سے محبت سے لبریز ہے جو سچائیوں کے پیکر ہیں جو دوسروں کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں ایسے لوگوں پر آگ برسا دینی تو حیوانیت ہے بلکہ حیوانیت سے بھی آگے کی بات حیوان بھی کچھ اصولوں کے پابند ہوں گے کچھ دل رکھتے ہوں گے کچھ جذبہ رکھتے ہوں گے کہ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ ایک خونخوار جنگلی جانور بھی کسی جانور کے بچے پر حملہ آور نہیں ہوتا لیکن ان جانوروں سے گئے گزرے یہودیوں نے تو فلسطینیوں کے بچوں کو بھی نہیں بخشا کہ بچے جو زندگی کی علامت ہوتے ہیں بچے کہ جن کی آنکھوں میں محبتوں کی تتلیاں رقص کرتی نظر آتی ہیں پھولوں سے نازک بچے جن کی مسکراہٹوں سے کتنے مایوس دل تسکین پاتے ہیں اور عید کے جو ہے ہی بچوں کی مسکراہٹوں کا نام جو عید بچوں کے ہنسنے میں پنپتی ہے عید جو بچوں کی آنکھوں سے محبت کا نور لے کر خوشیاں تقسیم کرتی ہے عید جو بچوں کی معصومیت میں پرورش پاتی ہے ایسی خوبصورت عید اور ایسے خوبصورت بچوں پر عرصہ حیات تنگ کر دینا یہ درندگی ہے حیوانیت ہے ایسے درندہ صفت لوگوں کو ایسے خونخواروں کو کسی جگہ رہنے کا حق نہیں، دنیا ایسے لوگوں سے محفوظ نہیں ہے دنیا کو ایسے لوگوں سے محفوظ رکھنے کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (بدھ) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE -  پیغمبروں کی سرزمیں کے امیں  - ندیم اختر ندیم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 پیغمبروں کی سرزمیں کے امیں 

13 1
10.04.2024

سب عید کی خریداری کے لیے جا رہے تھے بہت بھیڑ تھی لوگ اپنے بچوں کو لئے بازاروں مارکیٹوں کا رخ کیے ہوئے تھے ہر کوئی بھاگتا ہوا ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں آگے بڑھ رہا تھا اور اس دوڑ میں کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے راستوں میں کوئی مجبور لاچار شخص بھی عید کی خوشیاں سمیٹنے کے لیے آنکھوں میں ان گنت خواہشیں لیے کھڑا ہے وہ شخص بہت سارے آنسو لیے گلی کے ایک کونے پہ کھڑا تھا اس کا معصوم اور مغموم چہرہ بتا رہا تھا کہ محرومیوں کا ایک گرداب ہے جس نے اسے آ لیا ہے ایک مجبور لاچار باپ اپنے گھر کی طرف قدم اٹھاتا ہے رک جاتا ہے گھر میں اس کے بچے اس کے آنے کے منتظر ہیں کہ اس کے بابا آئیں گے اور انہیں عید کی خریداری کے لیے لے جائیں گے باپ بوجھل قدموں کے ساتھ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوتا ہے اس کے قدموں کے ساتھ جیسے کسی نے بھاری پتھر باندھ دیئے ہیں وہ قدم اٹھاتا ہے لیکن اس سے قدم اٹھ نہیں رہے اس کے پاؤں میں بھاری پتھر ہی تو بندھے ہوئے ہیں غربت کے پتھر محرومیوں اور مجبوریوں کے پتھر اور یہ مجبوریاں اسے راستے میں گلی کی ایک نکڑ پہ کھڑا کیے ہوئے تھیں گلی کی نکڑ پہ کھڑے آنکھوں میں آنسوؤں کی برسات لیے اس شخص کی طرف آنے جانے والوں کا دھیان بھی نہیں جارہا تھا کہ آنے جانے والوں کو تو اپنے بچوں کی خریداری کی جلدی تھی کہ وہ جتنی جلدی ہو سکے اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے اور جوتے خرید لائیں میں اس شخص کی جانب بڑھتا ہوں اس سے اس کی اداسی کا سبب نہیں پوچھتا میں اس کے حالات سے واقف ہوں اس کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ اس کے اندر کون سا الاؤ دہک رہا ہے میں اس سے پوچھ کر اس کے دل پر چوٹ نہیں کرنا چاہتا تھا وہ شخص اس کشمکش میں تھا کہ وہ خالی ہاتھ اپنے گھر کیسے جائے اور میں اس مسئلے کا شکار تھا کہ میں اس کی مدد کیسے کروں کہ سفید پوش یہ شخص اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے تھا میری........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play