ہوا میں تیر نہ چلائیں
کل مارننگ واک میں ملازمت پیشہ دوستوں میں یہ مسئلہ زیر بحث تھا کہ اب عید کے بعد باقی مہینہ کیسے گزرے گا، اکثریت نے اپنی تنخواہ عید کی تیاری اور پھر عیدی دینے میں خرچ کر دی، اب بیس دن گزارنا انہیں مشکل نظر آ رہا تھا۔ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا نے کہا ہے پہلے کون سی تنخواہ پورے مہینے چلتی تھی،یہ تو محلے کے کریانہ فروشوں،دودھ دینے والوں اور دیگر ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے والے افراد کی مہربانی،اُدھار پر نظام چلائے رکھتے ہیں،اُس کے بعد تنخواہ آتے ہی اپنا حساب برابر کر کے آگے کا شروع کر دیتے ہیں۔ایک زمانہ تھا عیدیں اتنی سخت گیر نہیں ہوتی تھیں،اُن کے اخراجات بھی پورے ہو جاتے تھے اور باقی معمولات بھی چلتے رہتے تھے اب تو عید آتی ہے تو سارے کس بل نکال دیتی ہے،مسئلہ یہ ہے عید پر کوئی اُدھار بھی نہیں کرتا، کپڑے، چوڑیاں، جوتے، غرض ہر چیز نقد لینی پڑتی ہے۔مہنگائی نے عذاب طاری کیا ہوا ہے،ویسے بھی رمضان میں دکاندار چھریاں تیز کر لیتے ہیں،جس بھاؤ اِس ماہ رمضان میں لوگوں نے اشیائے خوردو نوش خریدی ہیں کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں،اُس کے بعد عید کے اخراجات شروع ہو جاتے ہیں،اس پر ایک روپے کی چیز تین روپے کی بیچی جاتی ہے،اس موقعہ پر حکومتیں بھی ہاتھ کھڑے کر دیتی ہیں کہ عید پر مہنگائی تو ہوتی ہی ہے۔خیر عید تو ایک خوشیوں بھرا تہوار ہے، اس پر جو خرچ ہوتا ہے اُس کا اتنا دُکھ نہیں ہوتا،البتہ دُکھ اُن کو ضرور ہوتا ہے جن کے پاس عید کی تیاری تو کیا روٹی کھانے کے پیسے نہیں ہوتے،پھر عید پر مظفر گڑھ کے ایک ناہنجار نے غربت کو........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website