میرے سامنے دو بڑے لیڈروں کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں کتنے پیچ و خم ہیں اس کا تو مجھے علم نہیں تاہم اتنا ضرور ہے کہ ہماری سیاست کے کئی سردو گرم گوشے اس کہانی سے ضرور واضح ہوتے ہیں میری مراد نوازشریف اور عمران خان سے ہے۔ آپ پاکستان میں کتنے ہی مقبول ہو جائیں ایک دن اچانک ہیرو سے زیرو بنا دیئے جاتے ہیں۔ پھر آپ کی کوئی آواز، کوئی جدوجہد کوئی کامیابی کام نہیں آتی۔ کل ایک معاصر اخبار نے خبر دی کہ نوازشریف پنجاب تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں میں سوچنے لگا محدود ہو گئے ہیں یا کر دیئے گئے ہیں؟ یہ بھی اپنی طرز کی شاید پہلی مثال ہے ایک سیاستدان نے جہاں سے سفر شروع کیا ہو تیس سال بعد وہ وہیں واپس آ جائے۔ ایسا لڈو کے کھیل میں تو ہوتا ہے مگر حقیقت میں بھی ایسا ہو سکتا ہے، اس کا نظارہ پہلی مرتبہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کل جب نوازشریف مریم نواز کے ہمراہ سستی روٹی کا جائزہ لینے تندوروں پر جا رہے تھے تو مجھے میاں صاحب پر بڑا پیار آیا مجھے یہ بھی خیال آیا واقعی بیٹیاں ہی انسان کا آخر تک ساتھ نبھاتی ہیں۔ مریم نواز وزیر اعلیٰ ہیں مگر وہ اپنے والد کے لئے مرکزی نشست چھوڑ دیتی ہیں۔ فیصلے ان کے مانتی ہیں اور رہنمائی کے لئے انہی کی طرف دیکھتی ہیں۔ یہ کام تو شہباز شریف کو بھی کرنا چاہئے۔ نوازشریف کا تجربہ تو ان سے بہت زیادہ ہے، مگر لگتا ہے وزیر اعظم ہاؤس کے دروازے پر پہرے بٹھا دیئے گئے ہیں۔ یہ پہرے شہباز شریف نے ہرگز نہیں بٹھائے ہوں گے۔ کیونکہ جب وہ جاتی عمرہ آتے ہیں تو نوازشریف کے گھٹنوں کو چھو کر ملتے ہیں، بظاہر با اختیار نظر آنے والے بھی کتنے بے اختیار ہوتے ہیں، اس کا اندازہ موجودہ زمانے کے واقعات اور کرداروں سے لگایا جا سکتا ہے۔

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ٹی ٹوئنٹی سیریز کے کمنٹری پینل کے نام سامنے آگئے

دوسرے بڑے لیڈر عمران خان ہیں عوامی حمایت آج بھی انہیں حاصل ہے دبنگ سیاست بھی ان کا حوالہ ہے مگر انہیں اڈیالہ جیل تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ان کی جماعت زرد پتوں کی طرح بکھری ہوئی ہے جو باہر ہیں وہ اپنی مرضی کر رہے ہیں اور کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا جو عمران خان کو جیل سے باہر لا سکے۔ سائفر کیس میں ان کے وکلاء پورا زور لگا رہے ہیں مگر یقین سے نہیں کہا جا سکتا، اس کیس کا فیصلہ کیا ہوگا پھر یہ بھی یقینی نہیں کہ سائفر کیس سے رہائی کے بعد عمران خان کو کلین چٹ مل جائے گی، 2 سو کیسوں کی ایک لمبی قطار ان کے راستے میں دیوار بنی کھڑی ہے اب بعض لوگ کہتے ہیں عمران خان نے بہت غلطیاں کیں۔ حالات کو سمجھنے اور ان کے مطابق فیصلے کرنے کی بجائے جوش و جذبات میں بہہ گئے، سائفر کو لہرا دیا اور پھر اس نظام کو چیلنج کر دیا جو اس ملک کی جڑوں تک موجود ہے یہ بھی نہ سوچا ان سے پہلے کے وزرائے اعظم پر اسی غلطی کی پاداش میں کیا بیتی تھی، زیادہ دور نہ جاتے تو نوازشریف کی مثال ہی سامنے رکھ لیتے۔ جو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے کی غلطی کر بیٹھے تھے صرف لفظوں کا ہی فرق تھا وگرنہ باتیں تو نوازشریف اور عمران خان دونوں نے ایک جیسی کی تھیں۔ جرنیلوں، ججوں کو مجھے کیوں نکالا کا سوال کرتے ہوئے نوازشریف نے بھی کٹہرے میں کھڑا کیا تھا اور عمران خان بھی انہی سے یہ سوال پوچھ رہے تھے کہ میری حکومت کیوں ختم کی۔ حالات کا ادراک کئے بغیر جذباتی فیصلے کئے جائیں تو الٹا رنگ دکھاتے ہیں عمران خان تو کچھ زیادہ ہی اس رو میں بہہ گئے۔ بلا شبہ حکومت ختم ہونے کے بعد انہوں نے نوازشریف کی نسبت بڑے جلسے کئے، حالات کو خوب گرمایا۔ حالانکہ یہ وہ موقع تھا جب تدبر سے کام لینے کی ضرورت تھی۔ وہ باد مخالف کے ان جال کا اندازہ نہ کر سکے جو ان کے اردگرد بنا جا چکا تھا۔

اقراء عزیز کے پھر سے ماں بننے کی افواہوں پر یاسر حسین پھٹ پڑے، بیان سامنے آگیا

اس سارے منظر نامے میں نوازشریف اس لئے زیادہ مظلوم نظر آتے ہیں کہ انہیں آزاد رہ کر بھی ایک پابند لیڈر کا کردار ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ عمران خان تو جیل میں ہیں اس سے اور کچھ نہیں تو ان کی عوامی مقبولیت برقرار ہے۔ وہ ایک باغی لیڈر کے طور پر اپنا تاثر قائم کئے ہوئے ہیں نوازشریف تو نجانے کیا کیا مان کر واپس آئے تھے۔ بڑا جشن منایا گیا تھا کہ ملک کے چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے لئے نوازشریف کی واپسی ہو چکی ہے۔ خود شہباز شریف کہتے نہیں تھکتے تھے، نوازشریف وزیر اعظم بن کر ملک کی ترقی کا سفر وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے رکا تھا۔ ایک بڑا لیڈر ہونے کے باوجود نوازشریف نے یہ الزام بھی اپنے سر لیا کہ وہ ڈیل کے تحت پاکستان آئے ہیں۔ مقصد یہی تھا کہ پاکستان کی دوبارہ خدمت کریں اور اس تاثر کو دھو ڈالیں کہ ان پر کرپشن کے جو الزامات لگائے گئے وہ غلط اور انتقامی نوعیت کے تھے، ایک تجزیہ کار کہہ رہے تھے نوازشریف سخت ذہنی دباؤ میں ہیں اور لاوا کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے وہ اس نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کر سکتے ہیں ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ نوازشریف کے لئے سب سے بڑی ڈھارس یہ ہے کہ مریم نواز ملک کا سب سے بڑا صوبہ چلا رہی ہیں وہ غالباً ان کے ساتھ میٹنگز بھی اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں تجربے سے کامیاب بنائیں۔ اگرچہ اتنے بڑے لیڈر کے لئے صوبے کی حکومت کوئی معنی نہیں رکھتی مگر معاملہ اس بیٹی کا ہے، جس نے ان کی غیر موجودگی میں نہ صرف پارٹی کو متحرک رکھا بلکہ دباؤ بھی ڈالتی رہیں یہ غالباً مریم نواز کی بھی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہے کہ اپنے لیڈر اور والد کو تنہائی کا شکار نہ ہونے دیں اور اپنے ساتھ رکھیں۔ سلیم کوثر اردو غزل کے بڑے معروف شاعر ہیں۔ ان کی ایک مشہور غزل کا مطلع کچھ اس طرح ہے۔

قرض کیلئے ایک خاتون اپنے ”مردہ انکل“ کی لاش سمیت بینک پہنچ گئی

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے

سرِ آئینہ میرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے

یہ ویسے تو خالصتاً ایک رومانی شعر ہے۔ تاہم ہمارے حالات پر بھی فٹ بیٹھتا ہے اس وقت جو نظامِ حکومت چل رہا ہے اس کے بارے میں اگر کہا جائے کہ سرِ آئنہ کوئی اور، اور پسِ آئینہ کوئی اور ہے تو بے جا نہیں ہوگا۔ لوگوں کو تو اب تک یہ بات ہضم نہیں ہو رہی ملک کے ویزر خزانہ اور وزیر داخلہ اچانک کہاں سے برآمد ہو گئے۔ دونوں کا تعلق کسی حکومتی جماعت کے لئے اور نہ ماضی کا کوئی تجربہ ہے پھر کچھ ایسے لوگ بھی سینٹرز بن گئے، جنہیں شاید تجویز اور تائید کنندہ بھی عام حالات میں دستیاب نہ ہوتے۔ غالباً ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نوازشریف کو وزارت عظمیٰ تک نہیں پہنچنے دیا گیا۔ وہ شاید اسحاق ڈار کے سوا کسی کو وزیر خزانہ تسلیم نہ کرتے اور وزیر داخلہ کے لئے بھی ان کا انتخاب کوئی اور ہوتا۔ شہباز شریف میں چونکہ لچک موجود ہے اس لئے پسِ آئینہ والوں نے سرِ آئینہ رہنے کے لئے ان کا انتخاب کیا۔

پشاور پریس کلب نے خیبرپختونخوا حکومت کی تقریبات کی کوریج کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا

QOSHE - دو لیڈروں کی کہانی اور پنجرے میں بند چڑیا - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

دو لیڈروں کی کہانی اور پنجرے میں بند چڑیا

20 0
18.04.2024

میرے سامنے دو بڑے لیڈروں کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں کتنے پیچ و خم ہیں اس کا تو مجھے علم نہیں تاہم اتنا ضرور ہے کہ ہماری سیاست کے کئی سردو گرم گوشے اس کہانی سے ضرور واضح ہوتے ہیں میری مراد نوازشریف اور عمران خان سے ہے۔ آپ پاکستان میں کتنے ہی مقبول ہو جائیں ایک دن اچانک ہیرو سے زیرو بنا دیئے جاتے ہیں۔ پھر آپ کی کوئی آواز، کوئی جدوجہد کوئی کامیابی کام نہیں آتی۔ کل ایک معاصر اخبار نے خبر دی کہ نوازشریف پنجاب تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں میں سوچنے لگا محدود ہو گئے ہیں یا کر دیئے گئے ہیں؟ یہ بھی اپنی طرز کی شاید پہلی مثال ہے ایک سیاستدان نے جہاں سے سفر شروع کیا ہو تیس سال بعد وہ وہیں واپس آ جائے۔ ایسا لڈو کے کھیل میں تو ہوتا ہے مگر حقیقت میں بھی ایسا ہو سکتا ہے، اس کا نظارہ پہلی مرتبہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کل جب نوازشریف مریم نواز کے ہمراہ سستی روٹی کا جائزہ لینے تندوروں پر جا رہے تھے تو مجھے میاں صاحب پر بڑا پیار آیا مجھے یہ بھی خیال آیا واقعی بیٹیاں ہی انسان کا آخر تک ساتھ نبھاتی ہیں۔ مریم نواز وزیر اعلیٰ ہیں مگر وہ اپنے والد کے لئے مرکزی نشست چھوڑ دیتی ہیں۔ فیصلے ان کے مانتی ہیں اور رہنمائی کے لئے انہی کی طرف دیکھتی ہیں۔ یہ کام تو شہباز شریف کو بھی کرنا چاہئے۔ نوازشریف کا تجربہ تو ان سے بہت زیادہ ہے، مگر لگتا ہے وزیر اعظم ہاؤس کے دروازے پر پہرے بٹھا دیئے گئے ہیں۔ یہ پہرے شہباز شریف نے ہرگز نہیں بٹھائے ہوں گے۔ کیونکہ جب وہ جاتی عمرہ آتے ہیں تو نوازشریف کے گھٹنوں کو چھو کر ملتے ہیں، بظاہر با اختیار نظر آنے والے بھی کتنے بے اختیار ہوتے ہیں، اس کا اندازہ موجودہ زمانے کے واقعات اور کرداروں سے لگایا جا سکتا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play