تازہ ترین خبروں کے مطابق اسرائیل نے بھی ایران کے خلاف جوابی حملہ کیا اور ایئر فورس استعمال کی۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی طیاروں نے دمشق کے ساتھ ساتھ ایران کے کئی ہوائی اڈوں کو کامیابی سے ہدف بنایا ہے تاہم ایران کے اپنے ذرائع نے تردید کی اور کہا کہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اس کے ساتھ ہی نئی وارننگ دی کہ اسرائیل نے تجاوز کیا تو جواب ایسے زبردست اور طاقت ور میزائلوں سے دیا جائے گا جو اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، ہمارے اپنے دفاعی امور کے حوالے سے رائے دینے والے حضرات کے مطابق اسرائیل کے پاس نہ صرف امریکی طیارے، اسلحہ، ٹیکنالوجی اور افرادی قوت ہے بلکہ سمندر میں موجود دو بحری بیڑے بھی اسرائیل ہی کے معاون ہیں اور امکانی طور پر ان بحری اڈوں سے بھی طیاروں نے پرواز کی ہوگی۔ دوسرے معنوں میں امریکہ اب عملی طور پر مشرق وسطیٰ کی اس لڑائی میں ملوث ہو گیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کے امن پرچار کا راز بھی خود امریکی نمائندوں ہی نے کھول دیا ہے، امریکہ کا سرکاری موقف یہ بیان کیا جاتا رہا ہے کہ اسرائیل کے تحفظ اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لئے فلسطین کا دو ریاستی حل ضروری ہے، اس سلسلے میں عمل نے راز فاش کر دیا ہے کہ فلسطین کی اقوام متحدہ میں نمائندگی تو ہے لیکن عبوری ہے۔ ہمدرد ممالک کی طرف سے سلامتی کونسل میں تحریک پیش کی گئی کہ اس عبوری نمائندگی کومستقل کر دیا جائے تاکہ فلسطین کے دو ریاستی حل میں معاونت ہو، لیکن اس قرارداد کو امریکی مندوب نے ویٹو کا حق استعمال کرتے ہوئے مسترد کر دیا، یوں یہاں بھی امریکی ”یوٹرن“ واضح ہو گیا ہے، بہرحال اس کے بعد ہمدرد ممالک ایسی قرارداد جنرل اسمبلی کے اجلاس میں منظور کرانے پر مجبور ہوں گے تاہم وقتی طور پر تو کامیابی نہیں ہوئی۔

پاکستان کو بیلسٹک میزائلوں کے آلات فراہم کرنے کے الزام میں 4 کمپنیوں پر امریکی پابندیاں لگ گئیں

گزشتہ کالم میں معروضات پیش کیں، ان میں مزید کسی اضافے کی گنجائش نہیں کہ ایک بار پھر عالم اسلام سے عرض کروں کہ وہ (حاکم) پھر سے ارشادات نبویؐ پر غور فرمائیں، احادیث کا مطالعہ کریں، قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھیں تو ان پر واضح ہو جائے گاکہ اعمال صالح نہ ہوئے تو ایسا ہوتا رہے گا اور بچت کوئی نہیں۔ صیہونی اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب ہوں گے اور یہی کامیابی قیامت کی آمد والی ہوگی۔ پیارے نبیؐ نے فرمایا تھا جب امت کے اعمال ایسے ہو جائیں تو ان کو قیامت کا منتظر رہنا چاہیے۔

مشرق وسطیٰ کے ان سنگین حالات اور دنیا کے ردعمل کے حوالے سے یہ بھی واضح ہے کہ ایسے جنگی نوعیت کے ہنگامی حالات کے اثرات براہ راست پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر پڑتے ہیں اور ایسا شروع ہو گیا۔۔ عالمی بازار میں نرخ بڑھنا شروع ہو گئے، اس سے پاکستان براہ راست متاثر ہوگا اور یہاں دو روز قبل قیمتوں میں جو اضافہ ہوا وہ مزید ہوگا اس وقت ہی پٹرول 295روپے لیٹر ہے اگلے پندرہ روزہ جائزہ کے بعد یہ نرخ تین سو روپے سے زائد ہوجانے کا خدشہ ہے۔ ہمارے معاشرے کا مزاج یہ ہے کہ حالیہ اضافے کے بعد ٹرانسپورٹر حضرات نے کرایوں میں پانچ فیصد اضافہ کر دیا اور بازار میں کپڑے استری کرنے والوں نے بھی نرخ بڑھا دیئے۔ ایک عام شلوار قمیض کی دھلائی تو رہی ایک طرف گھر سے دھو کر استری کے لئے دی تو سو روپے مانگ لئے گئے، عید کے بعد آج دوسرے (تحریر کے وقت) جمعہ کی نماز ادا کی گئی بازار میں بڑھی ہوئی قیمتوں میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے بلکہ برائلر مرغی کے اجارہ داروں نے نئی لوٹ مار مچا دی اور مرغی فروخت کرنے والوں کی ایک روزہ ہڑتال (میرے خیال میں ڈرامہ) کے بعد اب گوشت کے نرخ 800روپے فی کلو سے زیادہ ہو گئے ہیں، تنوروں پر روٹی تاحال 16روپے کی نہیں ملتی اگر کوئی خوفزدہ ہو کر ایسا کرتا ہے تو وزن کم کرلیتا ہے، میں اس تمام تر صورت حال پر الگ بات کروں گا، آج ان تمام اثرات کے حوالے سے مجھے اپنے قومی شعور کا جائزہ لینا ہے۔

ایران ، اسرائیل کشیدگی اور کئی سوالات

میں اکثر معاشرے کی تقسیم کا ذکر کرتا ہوں اور اب اس کے مظاہر قومی سلامتی کے حوالے سے ظاہر ہونے لگے ہیں، دہشت گردی میں اضافہ اور دہشت گرد حضرات نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر دی ہے۔ ہماری مسلح افواج مجبور ہیں کہ وہ ملکی سلامتی کے لئے شہادتیں قبول کریں اور اس ناسور کا خاتمہ کریں حال ہی میں کورکمانڈرز کے ماہانہ اجلاس ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ اس دہشت گردی کو نیست و نابود کیا جائے گا، اس کے بعد ہی پاک فوج کو بعض کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں لیکن دہشت گردوں نے واربھی کئے۔ بلوچستان خصوصی علاقہ ہے جہاں کی جغرافیائی حالت ان کے لئے سازگار ہوتی ہے۔

اصفہان کی سیٹلائٹ تصاویر سے نقصان واضح نہیں: امریکہ

اس صورت حال کی روشنی میں اب میں بھی مجبور ہو گیا کہ سوال کروں، کیا ہماری اپوزیشن ملکی سلامتی کے حوالے سے اپنے دعوؤں میں سچی ہے! اگر ایسا ہے تو پھر اسے بھی ملکی معیشت کی بُری حالت کا ادراک ہونا چاہیے جس کا یہ حضرات دعویٰ بھی کرتے ہیں معذرت کہ عمل بالکل مختلف ہے، حتیٰ کہ ان کے عملی اقدامات سے جگ ہنسائی ہو رہی ہے، ابھی جمعرات کو نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر صدارتی خطاب کے دوران ہماری اپوزیشن نے جو ہنگامہ کیا اور بعدازاں فخر کا اظہار بھی کیا تو کیا یہ حالات سیاسی استحکام کی طرف لے جائیں گے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں، اب اگرچہ پوچھا جائے کہ یہ اپوزیشن کیا چاہتی ہے؟ تو جواب ملے گا ”جمہوریت“ اور یہ ”جمہوریت“ معنوی طور پر کیا ہوگی، اس کے لئے محترم قائد حزب اختلاف گوہر ایوب خان سے پوچھنا چاہیے، کیا 1962ء کے صدارتی آئین والی جمہوریت درست تھی؟ اورکیا 1958ء کا فوجی انقلاب درست تھا اور کیا ضیاء الحق اور پھر جنرل پرویز مشرف کے اقدامات بھی درست تھے؟اب تو عدالت سے جنرل مشرف آرٹیکل 6کے مجرم ہیں اور ان کی سزا بحال ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (ہفتے) کا دن کیسا رہے گا؟

یہ صرف معمولی سی بات ہے، ورنہ جو عمل اپوزیشن کا ہے تو اس کے سارے اعتراضات عمل سے غلط ثابت ہو جاتے ہیں کہ اگر جمہوریت پر یقین ہے اور احتجاج کا حق ہے تو پھر احتجاج کی آئینی اور قانونی حدود کا بھی خیال رکھنا لازم ہے اور پارلیمانی روایات پر عمل ہونا ضروری ہے، اپوزیشن کو اپنے دونوں حقوق استعمال کرنا چاہئیں، احتجاج کریں اور اس کی پارلیمانی حدود کا خیال رکھیں، پھر پارلیمان میں اپنا حصہ ڈالیں، سوال و اعتراض کریں اور جواب بھی حاصل کریں یہ نہیں کہ کارروائی کو معطل یا ایوان کو مچھلی منڈی بنا کر فخر کریں، جہاں تک ان حضرات کے تحفظات کا تعلق ہے تو یہ عدلیہ پر مکمل اعتماد کا اظہار کررہے ہیں اور عدلیہ سے ان کو ریلیف بھی مل رہی ہے تو یہ اپنی حکمت عملی اس کے مطابق مرتب کریں، امن و استحکام میں حصہ دار بنیں۔

مانیٹری پالیسی اجلاس: 8 ممبران نے شرح سود برقرار رکھنے کیلئے ووٹ دیدیا

QOSHE - آئین اور پارلیمانی روایات پر عمل لازم! - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

آئین اور پارلیمانی روایات پر عمل لازم!

16 12
20.04.2024

تازہ ترین خبروں کے مطابق اسرائیل نے بھی ایران کے خلاف جوابی حملہ کیا اور ایئر فورس استعمال کی۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی طیاروں نے دمشق کے ساتھ ساتھ ایران کے کئی ہوائی اڈوں کو کامیابی سے ہدف بنایا ہے تاہم ایران کے اپنے ذرائع نے تردید کی اور کہا کہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اس کے ساتھ ہی نئی وارننگ دی کہ اسرائیل نے تجاوز کیا تو جواب ایسے زبردست اور طاقت ور میزائلوں سے دیا جائے گا جو اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، ہمارے اپنے دفاعی امور کے حوالے سے رائے دینے والے حضرات کے مطابق اسرائیل کے پاس نہ صرف امریکی طیارے، اسلحہ، ٹیکنالوجی اور افرادی قوت ہے بلکہ سمندر میں موجود دو بحری بیڑے بھی اسرائیل ہی کے معاون ہیں اور امکانی طور پر ان بحری اڈوں سے بھی طیاروں نے پرواز کی ہوگی۔ دوسرے معنوں میں امریکہ اب عملی طور پر مشرق وسطیٰ کی اس لڑائی میں ملوث ہو گیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کے امن پرچار کا راز بھی خود امریکی نمائندوں ہی نے کھول دیا ہے، امریکہ کا سرکاری موقف یہ بیان کیا جاتا رہا ہے کہ اسرائیل کے تحفظ اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لئے فلسطین کا دو ریاستی حل ضروری ہے، اس سلسلے میں عمل نے راز فاش کر دیا ہے کہ فلسطین کی اقوام متحدہ میں نمائندگی تو ہے لیکن عبوری ہے۔ ہمدرد ممالک کی طرف سے سلامتی کونسل میں تحریک پیش کی گئی کہ اس عبوری نمائندگی کومستقل کر دیا جائے تاکہ فلسطین کے دو ریاستی حل میں معاونت ہو، لیکن اس قرارداد کو امریکی مندوب نے ویٹو کا حق استعمال کرتے ہوئے مسترد کر دیا، یوں یہاں بھی امریکی ”یوٹرن“ واضح ہو گیا ہے، بہرحال اس کے بعد ہمدرد ممالک ایسی قرارداد جنرل اسمبلی کے اجلاس میں منظور کرانے پر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play