سیاسی مفاہمت،بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟
خوش آئند امر ہے کہ ملک کے حقیقی مسئلے کو مانا اور حل کرنے کی ضرورت پر زور بھی دیا جا رہا ہے۔صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بغیر لگی لپٹی رکھے کہا ہے، ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور اس کے لئے مفاہمت کی راہ اختیار کرنی ہو گی۔یہ وہ بات ہے جو سنجیدہ حلقے بہت پہلے سے کہہ رہے ہیں، مگر سیاست کو زور زبردستی چلانے والے اسے ماننے کو تیار نہیں۔کتنی احمقانہ سوچ ہے کہ آپ ملک کے ایک مقبول لیڈر کو جیل میں ڈال کے یہ سمجھنے لگیں کہ معاملہ ختم ہو گیا ہے اور اب گلیاں سنجیاں ہو گئی ہیں،جن میں مرزا یار آسانی سے تن تنہا لڈیاں ڈال سکتا ہے۔انتخابات جیسے تیسے ہو گئے،نتائج جس طرح حاصل کرنے تھے کر لئے گئے،حکومتیں بنانا تھیں سو بن گئیں،اِس کے بعد آپ یہ بھی چاہیں کہ اِس ملک میں اپوزیشن بھی نہ رہے تو اس خواہش کو دیوانے کی خواہش ہی قرار دیا جائے گا۔صدرِ مملکت آصف علی زرداری چونکہ ایک سیاستدان ہیں اور مفاہمت کے بادشاہ بھی سمجھے جاتے ہیں،اِس لئے انہوں نے اپنے خطاب میں موجود سیاسی بحران کا ایک سادہ حل تجویز کر دیا ہے،مسئلہ اِس وقت یہ بھی ہے کہ فیصلے کرنے کا اختیار کہیں اور ہے جہاں غیر سیاسی سوچ ہو گی،طاقت کے ذریعے معاملات کو چلانے کی راہ اختیار کی جائے گی،وہاں استحکام نہیں آ سکتا۔پہلے بھی یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف مل بیٹھیں اور مفاہمت کی کوئی ر اہ نکالیں،بڑا دِل کر کے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے کہ تحریک انصاف اور بلوچستان کی جماعتوں کو مفاہمت کی سنجیدہ........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website