خوش آئند امر ہے کہ ملک کے حقیقی مسئلے کو مانا اور حل کرنے کی ضرورت پر زور بھی دیا جا رہا ہے۔صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بغیر لگی لپٹی رکھے کہا ہے، ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور اس کے لئے مفاہمت کی راہ اختیار کرنی ہو گی۔یہ وہ بات ہے جو سنجیدہ حلقے بہت پہلے سے کہہ رہے ہیں، مگر سیاست کو زور زبردستی چلانے والے اسے ماننے کو تیار نہیں۔کتنی احمقانہ سوچ ہے کہ آپ ملک کے ایک مقبول لیڈر کو جیل میں ڈال کے یہ سمجھنے لگیں کہ معاملہ ختم ہو گیا ہے اور اب گلیاں سنجیاں ہو گئی ہیں،جن میں مرزا یار آسانی سے تن تنہا لڈیاں ڈال سکتا ہے۔انتخابات جیسے تیسے ہو گئے،نتائج جس طرح حاصل کرنے تھے کر لئے گئے،حکومتیں بنانا تھیں سو بن گئیں،اِس کے بعد آپ یہ بھی چاہیں کہ اِس ملک میں اپوزیشن بھی نہ رہے تو اس خواہش کو دیوانے کی خواہش ہی قرار دیا جائے گا۔صدرِ مملکت آصف علی زرداری چونکہ ایک سیاستدان ہیں اور مفاہمت کے بادشاہ بھی سمجھے جاتے ہیں،اِس لئے انہوں نے اپنے خطاب میں موجود سیاسی بحران کا ایک سادہ حل تجویز کر دیا ہے،مسئلہ اِس وقت یہ بھی ہے کہ فیصلے کرنے کا اختیار کہیں اور ہے جہاں غیر سیاسی سوچ ہو گی،طاقت کے ذریعے معاملات کو چلانے کی راہ اختیار کی جائے گی،وہاں استحکام نہیں آ سکتا۔پہلے بھی یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف مل بیٹھیں اور مفاہمت کی کوئی ر اہ نکالیں،بڑا دِل کر کے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے کہ تحریک انصاف اور بلوچستان کی جماعتوں کو مفاہمت کی سنجیدہ دعوت دیئے بغیر بات نہیں بنے گی،اس کے لئے بہت سے اقدامات کرنا ہوں گے۔ عمران خان سے سنجیدہ رابطہ کرنا ہو گا،عوام نے انہیں آٹھ مئی کے انتخابات میں جتنے ووٹ دیئے ہیں، کم از کم اتنی اہمیت تو انہیں دینی ہو گی،یہاں تو معاملہ اُلٹ چل رہا ہے۔اُن کی جیل میں بھی زباں بندی کے لئے دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں اور پنجاب میں تحریک انصاف کو جلسہ تک کرنے کی اجازت نہیں مل رہی۔گویا خود ایسے اسباب پیدا کئے جا رہے ہیں جو سیاسی کشیدگی کو ہوا دیں اور عدم استحکام کا باعث بنیں۔

پاکستان کو بیلسٹک میزائلوں کے آلات فراہم کرنے کے الزام میں 4 کمپنیوں پر امریکی پابندیاں لگ گئیں

سوال تو یہ بھی ہے کہ جو بات صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے کی ہے،وہ وزیراعظم شہباز شریف کیوں نہیں کرتے، ایک ٹی وی پروگرام میں مسلم لیگ(ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کہہ رہے تھے ہم مفاہمت کرنا چاہتے ہیں، مگر عمران خان تیار نہیں ہیں۔ یہ بیوقوف بنانے والی بات ہے۔ اول تو کوئی ایسی مثال نہیں کہ کوئی ذمہ دار حکومتی شخصیت ملاقات کے لئے عمران خان کے پاس اڈیالہ جیل گئی ہو۔ دوسری اہم ترین بات یہ ہے کوئی ایسا قدم بھی نہیں اُٹھایا گیا، جس سے اندازہ ہو سکے حکومت سیاسی کشیدگی کو کم کرنا چاہتی ہے۔تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن سال ہونے آیا ہے جیلوں میں بند ہیں۔خود عمران خان بھی عرصہ ہوا اپنے کارکنوں میں موجود نہیں۔ظاہر ہے اس سے یہ تاثر تو اُبھرے گا کہ ملک میں سیاسی تناؤ ہے، وہ کام جو آمروں نے اِس ملک میں نہیں کیا وہ اس دور میں ہو رہا ہے۔اس سے بے یقینی تو پھیلے گی اور بے یقینی ملکی ترقی کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ جب ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر متمکن شخصیت کی طرف سے سب سے بڑے نمائندہ ایوان میں تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام اور مفاہمت کی ضرورت ہے تو پھر دیر کس بات کی ہے۔ پھر رکاوٹ کیا ہے؟ کون روک رہا ہے کہ ملک میں استحکام نہ آئے۔دو بڑے آئینی عہدیدار یعنی صدرِ مملکت اور وزیراعظم میں مثالی ہم آہنگی ہے۔دونوں کی سیاسی جماعتیں بھی اس اتحاد میں شامل ہیں،جو حکومت کر رہا ہے،پھر دونوں مل کر بڑے فیصلے کیوں نہیں کرتے۔حالت یہ ہے کہ اسمبلیوں کے اندر بھی انتشار نظر آتا ہے اور باہر بھی کشیدگی ہے۔صدرِ مملکت کے خطاب کو بھی اگر اطمینان سے نہیں سنا جاتا تو پھر اندازہ کیا جا سکتا ہے،کتنی بے چینی موجود ہے۔یہ کسی اور نے نہیں سیاستدانوں نے سوچنا ہے کہ انہوں نے ملک کو بحران سے کیسے نکالنا ہے۔کٹھ پتلی انداز سے نظام چلتا ہے اور نہ بڑے فیصلے ہوتے ہیں۔آئندہ چند ہفتوں میں کئی دھرنے اور احتجاج ہونے جا رہے ہیں۔ایک طرف گرینڈ الائنس سرگرم ہے تو دوسری طرف جمعیت العلمائے اسلام(ف) نے کمر کس رکھی ہے،جبکہ تحریک انصاف تو مسلسل جہاں موقع ملتا ہے اپنا بڑا احتجاج ریکارڈ کرا دیتی ہے، بات سمجھنے کی ضرورت ہے،جو بالا دست قوتیں نہیں سمجھنا چاہتیں۔ ماضی میں ایک کو نکالنے اور دوسرے کو لانے کے لئے فارمولے پر اس لئے کامیابی سے عمل ہوتا رہا کہ جسے نکالا جاتا تھا وہ ملک سے ہی نکل جاتا تھا اور باقی پیچھے امن و سکون ہی رہ جاتا،اِس بار حالات مختلف ہیں،جسے نکالا گیا وہ ملک چھوڑنے کو تیار نہیں۔اڈیالہ جیل میں موجود ہے اور اپنا سیاسی اثر برقرار رکھے ہوئے ہے،ایسے میں کچھ تو ایسا کرنا پڑے گا جو حالات کو نارمل کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔

ایران ، اسرائیل کشیدگی اور کئی سوالات

ضرورت اِس امر کی ہے جب پارلیمنٹ صدر کے خطاب پر بحث کرے تو سب سے زیادہ توجہ اس نکتے پر دے کہ ملک میں سیاسی استحکام کیسے لایا جا سکتا ہے۔سیاسی استحکام اور سیاسی مفاہمت درحقیقت جمہوریت کے دو ستون ہیں،ان پر جمہوریت کی عمارت قائم رہتی ہے۔ملک کے معاشی حالات اِس امر کے متقاضی ہیں کہ سیاسی استحکام آئے،حکومت کے بارے میں دنیا کو یہ پیغام ملے اُسے قوم کی حمایت حاصل ہے۔پیوند لگانے سے مضبوطی نہیں آتی،مضبوطی کے لئے ضروری ہے بنت ہی مضبوط کی جائے۔مفاہمت کے لئے ہمیش حکومت کو قدم آگے بڑھانا پڑتا ہے۔یہ نہیں ہو سکتا آپ اپوزیشن کو دیوار سے لگا دیں اور توقع بھی رکھیں وہ آپ کے لئے تالیاں بجائے گی۔اگر اِس تھیوری کو مان بھی لیا جائے کہ عمران خان مفاہمت نہیں چاہتے تو پھر بھی کوشش تو کی جانی چاہئے،اس کے لئے ضروری ہے ایسے اقدامات ہوں جو اِس بات کا اشارہ ہو کہ حکومت کشیدگی سے نکل کر مفاہمت کی طرف جانا چاہتی ہے،صرف خالی خولی بیانات سے تو مفاہمت کی فضاء قائم نہیں ہو سکتی،بہتر ہے صدرِ مملکت آصف علی زرداری خود اس سمت میں کوئی عملی قدم اٹھائیں۔ کوئی ایسی راہ نکالیں جو بند گلی سے نکلنے میں ہماری مدد کر سے۔وگرنہ یہ رائیگانی کا سفر ہمیں مزید تہی داماں کر سکتا ہے۔

اصفہان کی سیٹلائٹ تصاویر سے نقصان واضح نہیں: امریکہ

QOSHE - سیاسی مفاہمت،بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

سیاسی مفاہمت،بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟

14 0
20.04.2024

خوش آئند امر ہے کہ ملک کے حقیقی مسئلے کو مانا اور حل کرنے کی ضرورت پر زور بھی دیا جا رہا ہے۔صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بغیر لگی لپٹی رکھے کہا ہے، ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور اس کے لئے مفاہمت کی راہ اختیار کرنی ہو گی۔یہ وہ بات ہے جو سنجیدہ حلقے بہت پہلے سے کہہ رہے ہیں، مگر سیاست کو زور زبردستی چلانے والے اسے ماننے کو تیار نہیں۔کتنی احمقانہ سوچ ہے کہ آپ ملک کے ایک مقبول لیڈر کو جیل میں ڈال کے یہ سمجھنے لگیں کہ معاملہ ختم ہو گیا ہے اور اب گلیاں سنجیاں ہو گئی ہیں،جن میں مرزا یار آسانی سے تن تنہا لڈیاں ڈال سکتا ہے۔انتخابات جیسے تیسے ہو گئے،نتائج جس طرح حاصل کرنے تھے کر لئے گئے،حکومتیں بنانا تھیں سو بن گئیں،اِس کے بعد آپ یہ بھی چاہیں کہ اِس ملک میں اپوزیشن بھی نہ رہے تو اس خواہش کو دیوانے کی خواہش ہی قرار دیا جائے گا۔صدرِ مملکت آصف علی زرداری چونکہ ایک سیاستدان ہیں اور مفاہمت کے بادشاہ بھی سمجھے جاتے ہیں،اِس لئے انہوں نے اپنے خطاب میں موجود سیاسی بحران کا ایک سادہ حل تجویز کر دیا ہے،مسئلہ اِس وقت یہ بھی ہے کہ فیصلے کرنے کا اختیار کہیں اور ہے جہاں غیر سیاسی سوچ ہو گی،طاقت کے ذریعے معاملات کو چلانے کی راہ اختیار کی جائے گی،وہاں استحکام نہیں آ سکتا۔پہلے بھی یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف مل بیٹھیں اور مفاہمت کی کوئی ر اہ نکالیں،بڑا دِل کر کے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے کہ تحریک انصاف اور بلوچستان کی جماعتوں کو مفاہمت کی سنجیدہ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play