جماعت اسلامی کے نئے امیر سے توقعات؟
بلاشبہ جماعت اسلامی ایک منظم سیاسی جماعت ہے اور ملک بھر کی دیگر جماعتوں میں ایک منفرد مقام کی حامل بھی ہے،اس کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط و مربوط ہے اور جمہوریت بھی جماعت کی مثالی ہے جس کے لئے ریاست ِ مدینہ سے رہنمائی لی گئی۔ جماعتی اراکین کی تعداد محدود ہی سہی،لیکن ہمدرد اور ہم خیال افراد کی بہتات ہے۔جماعت میں جو جمہوریت ہے اس کے تحت جماعتی انتخابات ہوتے ہیں،اور ہر پانچ سال بعد مرکزی امیر بھی چنا جاتا ہے۔اِس منصب کے لئے کوئی بھی رکن خود سے امیدوار نہیں ہوتا،مجلس شوریٰ تین نام تجویز کرتی ہے اور اراکین کو بھیج دیتی ہے اور یہ اراکین اپنی رائے دیتے ہیں، اکثریت کی رائے کے مطابق الیکشن کمیشن/ الیکشن کمیٹی کامیابی کا اعلان کرتی ہے اور پھر مقررہ روز حلف برداری کے بعد منتخب امیر فرائض سنبھالتے ہیں،اور پھر پانچ سال تک ان کی اطاعت ہوتی ہے اور عہدیدار بھی انہی کی طرف سے نامزد کئے جاتے ہیں۔جماعت اسلامی کے اصولوں میں سے ایک بہتر طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کے اہم (خصوصاً) عہدیدار کل وقتی ہوتے ہیں، رہائش اور وظائف کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ ان کو فکر ِ روزگار نہ ہو اور وہ ہمہ وقتی جماعتی فرائض انجام دیں۔ ریاست ِ مدینہ کی بات تو کی جاتی ہے، عمل کے حوالے سے ٹھوس طریقہ اگر کہی نظر آتا ہے تو وہ بھی اِسی جماعت میں ہے۔اگرچہ معترض حضرات کے لئے بھی بہت کچھ کہنے کو ہے،تاہم جماعت اسلامی کے ایک منظم تر جماعت ہونے سے انکار ممکن نہیں،ہمارا تعلق طویل ہے جو نرم و گرم رہا اور ادب و احترام بھی شامل ہے۔
آصف زرداری حکومت کے لیے تقویت ہیں، رہنما ن لیگ خرم دستگیرجماعت اسلامی کے حوالے سے اعتراضات کی بات سے گریز کروں گا کہ رات گئی بات گئی والا........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website