ڈاکٹر سلیم اختر11 مارچ 1934ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد قاضی عبدالحمید ملٹری اکاؤنٹس (CMA) میں ملازم تھے،اِس لئے جہاں جہاں ان کا تبادلہ ہوتا رہا فیملی بھی ساتھ رہی۔ قیام پاکستان کے وقت آپ کے والد انبالہ میں مقیم تھے۔ سلیم اختر کو انبالہ، پونہ، لاہور، فورٹ سنڈیمن، (بلوچستان) اور راولپنڈی میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ملے۔ فیض الاسلام ہائی سکول راولپنڈی سے میٹرک کرنے کے بعد آپ نے گریجویشن گورنمنٹ ڈگری کالج لوئر مال راولپنڈی سے کی۔انہوں نے بطور اردو لیکچرار پہلی ملازمت کا آغاز گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان سے کیا۔ وہاں آٹھ سال پڑھانے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور چلے آئے۔ 1994ء میں یہاں سے ریٹائرہوئے تو اگلے گیارہ سال آپ یہاں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر پڑھاتے رہے۔ دو سال تک یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں درس وتدریس کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر ادب برائے ادب کی بجائے ادب برائے زندگی کے قائل تھے۔ ان کے نزدیک ادب کو محض تفریح طبع کا ذریعہ ہی نہیں ہونا چاہئے۔ ادیب، دانشور، صحافی، معلم، مقرر یہ سارے طبقے لوگوں کا ذہن بناتے ہیں۔فرائیڈ اور یونگ کی تحریروں کو اپنے لئے مشعل ِ راہ قرار دینے والے ڈاکٹر سلیم اختر نقاد ہونے کے باوجود اعتراف کرتے تھے کہ تخلیق کو تنقید پر سبقت حاصل ہے۔ اگر تخلیق کم تر درجے کی ہو تو اس پر تنقید بھی اسی معیار کی ہو گی۔ اعلیٰ پائے کا ادب تخلیق ہو تو نقاد کو بھی اس کی بلند سطح پر آنا پڑے گا۔ ان کے مطابق ہمارے ہاں سب سے بڑی خرابی ادبی کتابوں کی تقاریب رونمائی ہے۔اب ان تقریبات میں دیانتدارانہ تعریف کریں تو دوست ناراض ہو جاتے ہیں کہ یہ کم تھی، پھر ان تمام چیزوں کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ تحریریں اور مقالے رسالوں میں چھپتے اور کتب کی شکل میں مرتب بھی ہو رہے ہیں۔

ضمنی انتخابات، پنجاب میں ن لیگ نے صوبائی اسمبلی کی 7 اور قومی اسمبلی کی 2 نشستیں جیت لیں

مدلل مداحی تنقید نہیں مگر اس معاشرے میں یہ سب کرنا پڑتا ہے۔ خود مجھے اس طرح کی تقریبات کے لئے لکھے اپنے ننانوے فیصد مضامین شائع کرنے پڑے جو چھپوانے کے لئے انہیں ازسرنو لکھنا پڑا۔یاد رہے کہ ”اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ“ لکھنے پر ڈاکٹر سلیم اختر کو بے پناہ تنقید اور تعریف سے واسطہ پڑا۔ اب تک اس ادبی جائزے کے 29 ایڈیشن شائع ہوکر فروخت ہو چکے ہیں۔ ہندوستان میں بھی اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اوریجنل کتاب لکھنے پر کم وقت صرف ہوتا ہے، جبکہ اسے اپ ڈیٹ کرنے پر زیادہ وقت لگتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر وزیر آغا کو انشایئے کا بانی ماننے پر قطعاً خود کو آمادہ نہیں پاتے۔ ان کے مطابق معلوم نہیں لوگ اس روش کا شکار کیوں ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے کوئی چیز ایجاد کی ہے۔ جہاں تک انشایئے کی بات ہے تو سر سید سے بھی پہلے ماسٹر رام چندر انگریزی انشائیوں کے تراجم کے ذریعے اِس ضمن میں پیشرفت کر چکے ہیں۔ڈاکٹر سلیم اختر اردو کے ان معدودے چند نقادوں میں شامل ہیں، جو نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین تخلیق کار بھی ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کی پہچان تین حوالوں سے ہوتی ہے۔ بطور نقاد‘ افسانہ نگار اور استاد۔ ان کی کتاب ”اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ“ اردو ادب کی اب تک لکھی گئی تاریخ میں ایک اہم حوالہ ثابت تصور کی جاتی ہے۔ دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کالج لاہور میں انہوں نے ایک عرصہ تک تدریسی فرائض سرانجام دیئے۔ ڈاکٹر سلیم اختر 1977ء سے شروع ہو کر مسلسل تیئس سال اردو ادب کے سالانہ جائزے بھی لکھتے رہے ہیں۔اِس حوالے سے جہاں اُن کی ستائش کی جاتی رہی، وہاں ان پر دشنام طرازیاں بھی ہوتی رہیں۔ان کی خودنوشت ”نشان جگر سوختہ“ کے نام سے چند سال قبل منظر عام پر آئی تھی۔ ان کی دیگر نمایاں کتابوں میں (تنقید) اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ، تنقیدی دبستان،افسانہ، حقیت سے علامت تک، اقبال کا نفسیاتی مطالعہ، ادب اور کلچر، مجموعہ تحقیق وتنقید (افسانہ) کڑوے بادام، مٹھی بھر سانپ، چالیس منٹ کی عورت، کاٹھ کی عورتیں،آدھی رات کی مخلوق‘ (ناولٹ) ضبط کی دیوار (یہ ہندی وعربی میں ترجمہ ہوا)، (نفسیات) عورت جنس اور جذبات‘ ہماری جنسی اور جذباتی اُلجھنیں اور خودشناسی شامل ہیں۔ اپنی زندگی کی آخری سانس تک وہ کل90 کتابیں تحریر کر چکے ہیں۔احمد ندیم قاسمی سے قریبی تعلق کے باعث انہیں قاسمی گروپ کا تنقیدی ترجمان بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر طبعاً کہانی پسند ہیں اور اسی فطری لگن نے انہیں افسانہ نویسی کی جانب مائل کیا ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے افسانوی مجموعوں کے نام درج ذیل ہیں۔

مجھ پر داؤد ابراہیم کی پارٹیوں میں پرفارم کرنے کے الزامات لگائے گئے، ٹوئنکل کھنہ

(1) کڑوے بادام، (2) کاٹھ کی عورتیں، (3) مٹھی بھر سانپ، (4) چالیس منٹ کی عورت، (5) آدھی رات کی مخلوق، (6) نرگس اور کیکٹس (افسانوی کلیات)اس کے علاوہ حال ہی میں ڈاکٹر سلیم اختر کے جو افسانے مختلف رسائل اور جرائد میں شائع ہو کر داد وتحسین وصول کر چکے ہیں ان میں مقدر ساز، جرس غنچہ، کوہِ بے اماں، شکار،خشوع وخضوع، سنڈریلا، بلی اور الزائمر وغیرہ بطور خاص شامل ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے افسانے کے معیارات اور مسائل کے حوالے سے کئی کتب اور مقالات بھی تخلیق کئے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے افسانوں میں موضوعاتی کشادگی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ نہ تو ممتاز مفتی کی طرح نفسیاتی عوارض کی شناخت تک محدود رہتے ہیں اور نہ اشفاق احمد کی طرح روحانیت کو ہی اپنا مطمع نظر بناتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں ایک پرشور سمندر جلوہ گر ہے، جس کے موضوعاتی کنارے اہل بینش کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ انہوں نے علامت سے شعوری اخفا کا کام لیا ہے اور اس سے معنی کی کئی جہتیں پیدا کی ہیں۔ڈاکٹر سلیم اختر کے افسانے معاشرے کے رنگوں سے کشید کئے گئے ہیں تاہم انہوں نے معاشرے کو تخلیق کی بصیرت آموز تیسری آنکھ سے دیکھا ہے۔انہوں نے محض معاشرے کے پیچیدہ مسائل ہی کو پیش نہیں کیا، بلکہ ان کے حل کے لئے مثبت تجاویز بھی پیش کیں، وہ چیزوں کو نئے تناظر میں دیکھنے اور دکھانے کے شوقین ہیں۔ ان کے تجریدی افسانے اردو افسانوی ادب کے لئے بے مثال سرمایہ ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے بہت سے افسانے فلسفیانہ گہرائی اور گیرائی رکھتے ہیں۔ ان افسانوں کی فلسفیانہ سطح بہت بلند ہے اور یہ افسانے ڈاکٹر صاحب کے وسیع المطالعہ ہونے کی دلیل ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے افسانوں کی یہ خودساختہ وضعی تقسیم اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ ان کے افسانوں میں ایک وسعت اور ہمہ گیری ہے، جو انہیں اردو افسانے کی تاریخ میں ایک مستقل مقام عطا کرنے کا موجب ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر کا افسانوی اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔ اس طرح اب یہ بات بلاشک وتردد کہی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر سلیم اختر کے افسانے اپنے رنگارنگ موضوعات اور فکر انگیز اسلوب کے باعث آج بھی قابل قدر اور لائق مطالعہ ہیں۔ یہ امر انتہائی اطمینان کا باعث ہے کہ ڈاکٹر سلیم اختر نے ایک ماہر غزل گو کی طرح اپنے ہر افسانے کی نوک پلک خوب اچھی طرح سنوارنے کی کوشش کی ہے، جب تک اردو افسانے کا نام زندہ ہے ڈاکٹر سلیم اختر کا نام تابندہ،بلکہ پائندہ رہے گا۔

بابر اعظم سابق کپتان عمران خان کا ریکارڈ توڑنے کے قریب

٭٭٭٭٭

QOSHE -         نامور نقاد، افسانہ نگار اور استاد ڈاکٹر سلیم اختر - اسلم لودھی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        نامور نقاد، افسانہ نگار اور استاد ڈاکٹر سلیم اختر

29 0
22.04.2024

ڈاکٹر سلیم اختر11 مارچ 1934ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد قاضی عبدالحمید ملٹری اکاؤنٹس (CMA) میں ملازم تھے،اِس لئے جہاں جہاں ان کا تبادلہ ہوتا رہا فیملی بھی ساتھ رہی۔ قیام پاکستان کے وقت آپ کے والد انبالہ میں مقیم تھے۔ سلیم اختر کو انبالہ، پونہ، لاہور، فورٹ سنڈیمن، (بلوچستان) اور راولپنڈی میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ملے۔ فیض الاسلام ہائی سکول راولپنڈی سے میٹرک کرنے کے بعد آپ نے گریجویشن گورنمنٹ ڈگری کالج لوئر مال راولپنڈی سے کی۔انہوں نے بطور اردو لیکچرار پہلی ملازمت کا آغاز گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان سے کیا۔ وہاں آٹھ سال پڑھانے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور چلے آئے۔ 1994ء میں یہاں سے ریٹائرہوئے تو اگلے گیارہ سال آپ یہاں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر پڑھاتے رہے۔ دو سال تک یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں درس وتدریس کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر ادب برائے ادب کی بجائے ادب برائے زندگی کے قائل تھے۔ ان کے نزدیک ادب کو محض تفریح طبع کا ذریعہ ہی نہیں ہونا چاہئے۔ ادیب، دانشور، صحافی، معلم، مقرر یہ سارے طبقے لوگوں کا ذہن بناتے ہیں۔فرائیڈ اور یونگ کی تحریروں کو اپنے لئے مشعل ِ راہ قرار دینے والے ڈاکٹر سلیم اختر نقاد ہونے کے باوجود اعتراف کرتے تھے کہ تخلیق کو تنقید پر سبقت حاصل ہے۔ اگر تخلیق کم تر درجے کی ہو تو اس پر تنقید بھی اسی معیار کی ہو گی۔ اعلیٰ پائے کا ادب تخلیق ہو تو نقاد کو بھی اس کی بلند سطح پر آنا پڑے گا۔ ان کے مطابق ہمارے ہاں سب سے بڑی خرابی ادبی کتابوں کی تقاریب رونمائی ہے۔اب ان تقریبات میں دیانتدارانہ تعریف کریں تو دوست ناراض ہو جاتے ہیں کہ یہ کم تھی، پھر ان تمام چیزوں کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ تحریریں اور مقالے رسالوں میں چھپتے اور کتب کی شکل میں مرتب بھی ہو........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play