بات کو آگے بڑھائیں
پنجاب میں سرکاری سکولوں کا ایک تابناک ماضی ہے۔ ویسے تو حال بھی کوئی خوفناک نہیں لیکن پھر بھی ایک وقت تھا جب سکول عددی لحاظ سے بہت کم تھے دو تین گاؤں کے لئے ایک پرائمری سکول تھا، دس بارہ دیہاتوں کے لئے ایک مڈل سکول اور دس بارہ میل کے فاصلے پر ایک ہائی سکول تھا اور کالج تو ضلع بھر میں بمشکل ایک ہوتا تھا۔زیادہ ترسکولوں میں انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر تھا، آج اُن سکولوں کو ٹاٹ سکول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، مزے کی بات ہے ٹاٹ بھی پورے نہیں ہوتے تھے، ہر بچہ بیٹھنے کے لئے بوری ساتھ لاتا تھا اور کلاس بھی درختوں کے نیچے ہوتی تھی، بچوں کی ایک ایسی یونیفارم تھی،جس کو روز دھلانے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ اساتذہ بھی نہ ہونے کے برابر تھے،تاہم جتنے تھے وہ مکمل طور پر مکمل استاد تھے، اُن کی صلاحیت، اہلیت اور اپنے پیشے سے وابستگی پر کوئی مائی کا لال انگلی نہیں اُٹھا سکتا تھا، وہ انفرادی طور پر ہر بچے پر توجہ دیتے تھے، خوشخطی اور ریڈنگ پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی، پڑھائی میں کمزور بچوں کے لئے اضافی جماعتوں کا بندوبست کیا جاتا تھا،اس وقت کے اساتذہ بھی اپنے گھروں میں بچوں کو پڑھاتے تھے، لیکن ٹیوشن نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ وہ شخصیت اور کردار سازی پرخصوصی توجہ دیتے تھے تاکہ طلباء ان سے خوف بھی کھائیں اور مرعوب ہو کر ان کی شخصیت اور ان کی گفتگو میں دلچسپی بھی لیں۔
ضمنی انتخابات، پنجاب میں ن لیگ نے صوبائی اسمبلی کی 7 اور قومی اسمبلی کی 2 نشستیں جیت لیں مزید ہر استاد کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا ہوتا تھا اور یہ تھی اس کے پروگرام کے پیچھے کارفرما قوت نافذہ۔ اس طریقہ تدریس سے کند ذہن بچوں کے ذہنوں کی گرہیں کھل جاتی تھیں۔ خوفزدہ بچوں میں ہمت اور حوصلہ پیدا ہو جاتا تھا غریب اور نادار بچوں پر فیسوں کا کوئی بوجھ نہیں ہوتا تھا، بلکہ جن بچوں کے والدین فیس........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website