بہارکے دن ہیں اس لئے آج پھولوں کی بات کرتے ہیں۔ ایک جا پا نی کسا ن کی نوجوان بیٹی نے ایک رات عجیب خواب دیکھا۔عجیب اس لیے کہ پھو لو ں سے بھر ے اس سپنے کا مرکزی نقطہ سبز رنگ کا گلا ب تھا۔ گلا ب کی دنیا بھر میں سینکڑوں اقسا م پائی جا تی ہیں اور بیسیوں رنگ اس کلاسیکی پھو ل کو زیبائی بخشتے ہیں، مگر سبز رنگ کا گلا ب تو آج تک اس عالم رنگ و بو میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ دو شیزہ کے خواب کا دلچسپ حصہ یہ تھا کہ سبز رنگ کا یہ ایک پھول با زار میں ایک ہزار روپے میں فروخت ہورہا ہے۔لڑکی نیند سے جا گی تو اس نے اپنا یہ خواب من و عن اپنے کسان باپ کو سنا دیا جو کئی دہائیوں سے پھو لو ں کی کا شت سے منسلک تھا۔حیرت انگیز با ت یہ ہے کہ اس کسا ن نے اپنی بیٹی کا یہ خواب،اپنے چا ر کاشتکا ر دوستوں سے مل کر سچ کر دکھایا، سالہا سال کی سخت مشقت، محنت اور تجربا ت سے گزرنے کے بعد کسانو ں کی یہ پا نچ رکنی ٹیم سبز رنگ کا گلا ب پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔اس ما ہ سبز گلا ب کونا صرف نما ئش کے لئے پیش کیا گیا،بلکہ تجارتی پیما نے پر اس کی فروخت بھی شروع کر دی گئی ہے۔تقریباًہر رنگ کے گلا ب کے ساتھ دنیا بھر میں اساطیر وابستہ ہیں۔جتنی کہانیاں،مفروضے،تو اہم اور اظہارئیے اس پھول سے منسلک ہیں شاید ہی کسی اور گل سے جڑے ہو ں۔ زرد رنگ کا گلاب بیزار ی جدائی کی خواہش کا اظہا ر بھی ہو سکتا ہے۔ سرخ گلا ب ہر دیس میں محبت اور خو شی کا رنگ سمجھا جاتا ہے۔گلابی اور سفید گلاب نیک خواہشا ت،پاک جذبات اور روحانیت کے لئے، ہمارے کلاسیکی ادب میں محبوب کے لبوں کی تازگی کو گلا ب کی پنکھڑی سے تشبیہ دی جاتی رہی ہے۔میرا خیال ہے کہ سبز رنگ کا گلاب شاید امارت،خوشحالی اور ترقی کی علامت کہلا ئے گا۔

چین کی موبائل فون ساز کمپنی نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا اعلان کردیا

یو رپ کا رواج بھی خوب ہے کہ گلاب کے پھول ہمیشہ طاق تعداد میں تحفتاً پیش کیے جاتے ہیں،ایک،تین،پانچ،سات، جفت تعداد میں گلابوں کا تحفہ منحو س خیا ل کیا جاتا ہے۔ مرنے والوں کے جنازے اور آخری رسومات میں شرکت کرتے ہوے ہمیشہ جفت تعداد میں گلاب کے پھو ل ہدیہ کیے جا تے ہیں۔ پھو ل تو چا ہے دنیا کے کسی بھی ملک کے ہوں، خو بصو ر ت ہی لگتے ہیں مگر یہاں کے پھولو ں میں ایک خرابی ہے۔ان میں خوشبو نہیں ہو تی، آپ سبزیا ں اور درختو ں کے پتے سو نگھ لیں یاگلا ب اور دیگر پھو ل، آپ کو انیس اور بیس کا فرق بھی معلو م نہیں ہو گا۔پا کستان جیسے خوشبودار پھو ل مجھے کہیں بھی نہیں ملے۔اس سے بڑا ظلم بھلا کیا ہو گا کہ یہا ں مندروں، معبدوں اور قبروں پر چڑھا ئے جا نے والے پھولوں پر خوشبودار پر فیوم چھڑکا جا تا ہے۔میر ے خیا ل میں یہ بھگوان کے سا تھ کھلا دھوکا اور مردوں کے ساتھ فراڈ ہے۔با ر دیگر عرض کرتا ہوں کہ پھول پھر پھو ل ہیں،خو بصورت تو لگتے ہی ہیں۔ عام لوگو ں کا تو خیر ذکر ہی کیا۔تاریخ بتاتی ہے کہ ہٹلر جیسے ظالم شخص کو بھی پھو ل پسند تھے اور و ہ بچوں سے بہت پیار کر تا تھا۔روسی کمیو نسٹ انقلا ب کا معما ر لینن سخت گیر مشہور ہے، مگر اس کے کو ٹ پر ہمیشہ ایک پھول سجا ہو تا تھا، بعدازاں یہ جنگلی پھول یورپی سو شلسٹ کا رکنو ں کے یو نیفا رم کا ضروری حصہ بن گیا،یہ پھو ل لینن کے سا تھ اس طرح نتھی ہوا کہ اب بھی میں نے دیکھا ہے کہ کمیونزم کے مخالف روسی نژاد لو گ اس پھول کو دیکھ کر اکثر چڑ جا تے ہیں اور سو شلسٹ خیا ل رکھنے والے لو گ اب بھی اسے سینو ں پر ٹا نکتے ہیں۔

اسلام آباد کی الیونتھ ایونیو شاہراہ کا نام ایران ایونیو رکھ دیاگیا

جا رج برنا رڈشا کی اس با بت ا پنی منطق تھی۔پھولوں سے اسے بے حد پیا ر تھا،مگر تو ڑنا وہ گوارا نہیں کرتا تھا۔جس گھر میں وہ رہتا تھا اس کے لا ن میں پھول ہی پھول اگے ہوے تھے۔ایک دن اس کا ایک دوست اس کے گھر ملنے آیا برنارڈ شا اسے لینے کے لیے خو د دروازے پر آیا اور اپنا سا را مکان اندر سے دکھایا۔دونو ں جب سٹڈی روم میں بیٹھے چائے پی رہے تھے تو عزیز دوست برنارڈ شا سے کہنے لگا کہ ایک چیز دیکھ کر میں بہت حیران ہواہوں،تمہار ا با غیچہ تو پھولوں سے لدا پڑا ہے، لیکن تمہا رے گھر کے کسی گلدان میں ایک بھی پھول نہیں سجا ہے۔برنا رڈ شا نے جواب دیا کہ مجھے توبچے بھی بہت پیا رے لگتے ہیں، لیکن میں ان کا گلا کا ٹ کر میز پر نہیں سجا سکتا،تزئین وآرائش کا یہ طریقہ مجھے پسند نہیں۔ یہ وضاحت کرتا چلو ں کہ برنا رڈ شا سے مراد یہا ں برطانو ی دانشور،مصنف اور فلسفی ہے۔ اس وضا حت کی ضرور ت یو ں پیش آئی ہے کہ ہمارے دوست عدنا ن شیرازی کے بقول، سیالکو ٹ ڈگری کا لج میں انگریزی کے ایک فاضل پروفیسر نے ایک ہو نہا ر طالب علم سے پوچھا کہ برنا رڈ شا کو ن ہے؟ طا لب علم کا جواب تھا ”سرجی وہ ضرور علی پو ر سیدا ں کے سادات میں سے ہی کو ئی ہو گا“۔ جو کہ ہما رے شاہ جی کا آبائی علاقہ بھی ہے۔

سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے سب سے زیادہ زر مبادلہ پاکستان بھیجا : خالد مجید

خوا ب کی با ت ہو رہی تھی، متذکرہ جواں سالہ کسا ن زادی نے اپنے خواب میں جو سبز رنگ کا گلا ب دیکھا اس کا ایک نام بھی تھا ”کو نکو سارے“جو ایک ہزار روپے کے عوض با زار میں ایک عدد پھو ل فروخت ہو رہا تھا۔تا زہ ترین احوال یہ ہے کہ لڑکی کے والد نے دیگر چا ر کسانو ں کے سا تھ مل کر جنہوں نے سبز رنگ کے گلا ب کو خوا ب سے حقیقت میں تبدیل کر دیا۔ وزارت زراعت میں اس پھول کو ”کو نکو سارے“ کے نام سے رجسٹرڈ کرنے کی درخواست دائر کردی ہے۔گو یا اس کا خوا ب حرف بہ حرف حقیقت بننے جا رہا ہے۔ سبز لبا س پہن کر پیدا ہو نے والی گلا ب کی یہ قسم ”سپرے گلاب“کہلا تی ہے۔جس میں نو ک شا خ پر ہما رے دیسی گلاب کی طرح واحد پھول کی بجا ئے پھولو ں کا ایک گچھا لگتا ہے۔سبز رنگ کے گلا ب کا تصور پیش کرنے والی خا تو ن کے والد کا کہنا ہے کہ جب میں نے مذکو رہ خواب سنا تو میرے ذہن میں فوراً یہ خیال آیا کہ اگر میں اسے پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ پھول بہت زیا دہ فروخت ہو گا کیو نکہ میں نے بھی اپنی زندگی میں سبز گلاب نہیں دیکھا تھا۔آج یہ سبز گلاب حقیقت بن کر ٹو کیو سمیت کئی شہروں میں پھولو ں کی دکانوں پر دستیاب ہے۔اور عا م پھولو ں سے دگنی قیمت پر فروخت بھی ہو رہا ہے۔پھو ل کی کا میا بی ہی غا لباً اس کی گراں قیمت کی وجہ ہے۔چو نکہ ابھی تک ضلع آٹیچی کے فقط مذکو رہ پا نچ کا شتکا ر ہی تجا رتی بنیا دوں پر اسے کا شت کر رہے ہیں۔میر ا شکوہ نما اعترا ض تو اس پھو ل پر بس یہ ہی ہے کہ یہ بھی یہاں کے دیگر پھولوں کی طرح خوشبو سے عا ری ہے۔

شنگھائی الیکٹرک پاور کمپنی نے کے الیکٹرک کے شیئرز خریدنے سے معذرت کرلی

QOSHE - نئے رنگ کے گلاب - عامر بن علی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

نئے رنگ کے گلاب

18 0
23.04.2024

بہارکے دن ہیں اس لئے آج پھولوں کی بات کرتے ہیں۔ ایک جا پا نی کسا ن کی نوجوان بیٹی نے ایک رات عجیب خواب دیکھا۔عجیب اس لیے کہ پھو لو ں سے بھر ے اس سپنے کا مرکزی نقطہ سبز رنگ کا گلا ب تھا۔ گلا ب کی دنیا بھر میں سینکڑوں اقسا م پائی جا تی ہیں اور بیسیوں رنگ اس کلاسیکی پھو ل کو زیبائی بخشتے ہیں، مگر سبز رنگ کا گلا ب تو آج تک اس عالم رنگ و بو میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ دو شیزہ کے خواب کا دلچسپ حصہ یہ تھا کہ سبز رنگ کا یہ ایک پھول با زار میں ایک ہزار روپے میں فروخت ہورہا ہے۔لڑکی نیند سے جا گی تو اس نے اپنا یہ خواب من و عن اپنے کسان باپ کو سنا دیا جو کئی دہائیوں سے پھو لو ں کی کا شت سے منسلک تھا۔حیرت انگیز با ت یہ ہے کہ اس کسا ن نے اپنی بیٹی کا یہ خواب،اپنے چا ر کاشتکا ر دوستوں سے مل کر سچ کر دکھایا، سالہا سال کی سخت مشقت، محنت اور تجربا ت سے گزرنے کے بعد کسانو ں کی یہ پا نچ رکنی ٹیم سبز رنگ کا گلا ب پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔اس ما ہ سبز گلا ب کونا صرف نما ئش کے لئے پیش کیا گیا،بلکہ تجارتی پیما نے پر اس کی فروخت بھی شروع کر دی گئی ہے۔تقریباًہر رنگ کے گلا ب کے ساتھ دنیا بھر میں اساطیر وابستہ ہیں۔جتنی کہانیاں،مفروضے،تو اہم اور اظہارئیے اس پھول سے منسلک ہیں شاید ہی کسی اور گل سے جڑے ہو ں۔ زرد رنگ کا گلاب بیزار ی جدائی کی خواہش کا اظہا ر بھی ہو سکتا ہے۔ سرخ گلا ب ہر دیس میں محبت اور خو شی کا رنگ سمجھا جاتا ہے۔گلابی اور سفید گلاب نیک خواہشا ت،پاک جذبات اور روحانیت کے لئے، ہمارے کلاسیکی ادب میں محبوب کے لبوں کی تازگی کو گلا ب کی پنکھڑی سے تشبیہ دی جاتی رہی ہے۔میرا خیال ہے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play