دلوں میں چھپی سفاک خواہشوں کی مورتیں جب عمل کے رنگ میں ڈھلتی ہیں تو انتہائی ڈراؤنی صورت اختیار کر کے خونی مناظر پیش کرتی ہیں۔ میں ایک عرصے سے ان خواہشوں کے بتوں کی پرچھائیوں کا پیچھا کرتا رہا ہوں تاکہ ان مذموم خواہشوں کی پیدائش کا سبب معلوم کر کے ان کا تدارک تجویز کیا جا سکے۔ اسباب کا تو کافی حد تک پتہ چل گیا لیکن اس کے مکمل اظہار کی جرأت نہ ہو سکی۔ بوجوہ لپیٹ لپیٹ کر بات کرتا رہا ہوں کہ قبولیت نہ ہونے کے سبب روندہئ درگاہ نہ ہو جاؤں۔

اس سارے عمل میں میں کامیابیوں اور ناکامیوں کے درمیان لٹکا رہا۔ ہاتھ آنے والی دھندلی دھندلی سی پرچھائیاں اپنی ہئیت اور رنگت بدلتی رہیں اور پہچان کے بیچ چوراہے مجھے حیران پریشان چھوڑ کر غائب ہو جاتیں۔ برسوں کی ریاضت کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہ مورتیں واضح ہونا شروع ہوئیں۔ اس وقت تک میں تلاش سے تھک ہار چکا تھا۔ یہ مورتیں اتنی ڈراؤنی تھیں کہ میں جو نڈھال تو پہلے ہی تھا خوف زدہ ہو کر دبک کر بیٹھ گیا۔ آج ڈرتے ڈرتے یہ ذکر پھر چھیڑ بیٹھا ہوں۔

ایرانی صدر کے دورہ پاکستان اور معاہدوں پر امریکہ کا ردعمل بھی آگیا، خبردار کردیا

اب میں خوف کی سرحد سے آگے نکل آیا ہوں یہ صورتیں بالآخر اپنے اصل رنگ روپ میں میرے سامنے موجود ہیں۔ یہ سراب کے دائرے سے نکل کر حقیقت کے مدار میں داخل ہو چکی ہیں۔ یہ الگ بات ہے میں انہیں حقیقت ماننے سے انکار کرتا رہا۔ لیکن حقیقت تو حقیقت ہے۔ اپنے آپ کو فریب دینے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ایک نہ ایک دن تو اس کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑتے ہیں۔ تاہم اس حقیقت کے اعتراف کے بعد اگر آپ سمجھ بیٹھے ہیں کہ میں یہ ڈراؤنی مورتیں اٹھا کر ایک دم آپ کے سامنے رکھ دوں تو شاید میں ایسا نہ کر سکوں۔ میں نے پاکستانی رائے عامہ کی بنیادیں تلاش کرنے میں دو عشرے گزارے تھے۔ اتنے طویل عرصے کے تجربے کا نچوڑ اتنی جلدی کیسے بتایا جا سکتا ہے۔

چین کی موبائل فون ساز کمپنی نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا اعلان کردیا

البتہ فوری طور پر میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ مجھے اپنا یہ طویل ذہنی سفر آج ایک مرتبہ پھر کیوں یاد آیا۔ جب بھی پاکستان میں دہشت گردی کی لہر زور پکڑتی ہے تو یہ تکلیف دہ یاد بھی سر اٹھا لیتی ہے۔ میں افغان سرحد پر پاکستانی پوسٹ پر دہشت گرد حملے کے شکار ہونے والے متعدد شہیدوں کے تابوتوں کی تصاویر دیکھ رہا تھا۔ ان میں شہید لیفٹیننٹ کرنل سید کاشف علی کا تابوت بھی شامل تھا جسے آرمی چیف جنرل عاصم منیرا ور چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے اٹھا رکھا تھا۔ یہ تصویر دیکھ کر میری آنکھوں کے سامنے 16 دسمبر 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک سکول کا الم ناک سانحے کا منظر گھوم گیا جس میں 149 افراد شہید ہو گئے تھے جن میں آٹھ سے اٹھارہ سال کے درمیان کی عمر کے معصوم طلباء بھی شامل تھے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ اذیت اس لئے بھی زیادہ محسوس ہوئی تھی کہ اسی شہر میں میں نے اس سکول کے آس پاس کے علاقے میں ورلڈ بنک کی ایک Assignement پر آٹھ سال قبل 2006ء کا پورا ایک سال گزارا تھا۔

اسلام آباد کی الیونتھ ایونیو شاہراہ کا نام ایران ایونیو رکھ دیاگیا

پاکستان سمیت ہمارے خطے میں جب دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوا تو ابتداء ہی سے اس پر ایک ایسا لیبل لگ گیا جس پر ایک مسلمان اور پاکستانی ہونے کی وجہ سے مجھے تکلیف بھی ہوئی اور شرمندگی بھی۔ بلا شک اس کی بنیاد بڑی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ کے نتیجے میں افغانستان میں پڑی۔ لیکن بعد ازاں افغانستان کے علاوہ پاکستان، عراق، شام اور افریقہ سمیت دیگر ممالک میں جتنے بھی دہشت گرد وجود میں آئے وہ سب مسلمان تھے۔ ان کا عمل اسلامی تقاضوں کے مطابق تھا یا نہیں لیکن وہ کم از کم نام کے مسلمان ضرور تھے۔ مطلب یہ ہے کہ انہوں نے جتنی بدنامی کمائی وہ صرف مسلمان ہونے کی بناء پر ان مسلمانوں کے حصے میں بھی آ گئی جن کا اس دہشت گردی سے دور کا تعلق بھی نہیں تھا۔

سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے سب سے زیادہ زر مبادلہ پاکستان بھیجا : خالد مجید

اسلام کا نام لے کر جرم تو یہ دہشت گرد کرتے تھے اور ابھی تک کر رہے ہیں لیکن باقی دنیا نے بے جا طور پر اسے ”اسلامی دہشت گردی“ یا ”مذہبی دہشت گردی“ قرار دے کر صحیح العقیدہ مسلمانوں کو بھی رگڑا لگا دیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان سے جنم لینے والی یہ دہشت گرد تنظیمیں پاکستان سمیت دیگر ممالک میں پھیل گئیں اور پھلنے پھولنے لگیں۔ تمام تر انسدادی کارروائیوں کے باوجود ان کا فروغ جاری رہا۔ انسانی خون بہانا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا اور ابھی تک ہے۔ مدرسوں کے غریب اور ضرورت مند نوجوانوں کی نرسری انہیں میسر تھی۔ اسلام سے محبت رکھنے والے امیر لوگ انجانے میں نیکی کا کام سمجھ کر خاموشی سے انہیں فنڈ فراہم کرتے رہے۔

شنگھائی الیکٹرک پاور کمپنی نے کے الیکٹرک کے شیئرز خریدنے سے معذرت کرلی

آج بھی اسلام کی خدمت سمجھ کر انجانے میں ان کو سرمایہ اور سہولتیں فراہم کرنے والے سہولت کاروں کی کمی نہیں ہے۔ سفاک خواہشوں کی ڈراؤنی مورتیں ان سہولت کاروں کے دلوں میں موجود ہیں جو خون بہا کر اپنی مرضی کا نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان پرچھائیوں کا پیچھا کر کے گمراہی کے شکار افراد کے اندر موجود یہ ڈراؤنی مورتیاں توڑ دی جائیں۔ ورنہ اللہ ہی حافظ ہے۔

QOSHE -  ڈراؤنی مورتیں  - اظہر زمان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 ڈراؤنی مورتیں 

15 0
23.04.2024

دلوں میں چھپی سفاک خواہشوں کی مورتیں جب عمل کے رنگ میں ڈھلتی ہیں تو انتہائی ڈراؤنی صورت اختیار کر کے خونی مناظر پیش کرتی ہیں۔ میں ایک عرصے سے ان خواہشوں کے بتوں کی پرچھائیوں کا پیچھا کرتا رہا ہوں تاکہ ان مذموم خواہشوں کی پیدائش کا سبب معلوم کر کے ان کا تدارک تجویز کیا جا سکے۔ اسباب کا تو کافی حد تک پتہ چل گیا لیکن اس کے مکمل اظہار کی جرأت نہ ہو سکی۔ بوجوہ لپیٹ لپیٹ کر بات کرتا رہا ہوں کہ قبولیت نہ ہونے کے سبب روندہئ درگاہ نہ ہو جاؤں۔

اس سارے عمل میں میں کامیابیوں اور ناکامیوں کے درمیان لٹکا رہا۔ ہاتھ آنے والی دھندلی دھندلی سی پرچھائیاں اپنی ہئیت اور رنگت بدلتی رہیں اور پہچان کے بیچ چوراہے مجھے حیران پریشان چھوڑ کر غائب ہو جاتیں۔ برسوں کی ریاضت کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہ مورتیں واضح ہونا شروع ہوئیں۔ اس وقت تک میں تلاش سے تھک ہار چکا تھا۔ یہ مورتیں اتنی ڈراؤنی تھیں کہ میں جو نڈھال تو پہلے ہی تھا خوف زدہ ہو کر دبک کر بیٹھ گیا۔ آج ڈرتے ڈرتے یہ ذکر پھر چھیڑ بیٹھا ہوں۔

ایرانی صدر کے دورہ پاکستان اور معاہدوں پر امریکہ کا ردعمل بھی آگیا، خبردار کردیا

اب میں خوف کی سرحد سے آگے نکل آیا ہوں یہ صورتیں بالآخر اپنے اصل رنگ روپ میں میرے سامنے موجود ہیں۔ یہ سراب کے دائرے سے نکل........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play