ملا نصیر الدین کے نام کے ساتھ چونکہ ملا لگا ہوا تھا،لہٰذا وہ خود کو بہت ہی عقلمند سمجھتے تھے، کیونکہ ”ملا“ کسی دور میں بلکہ عرب دنیا میں آج بھی ڈاکٹر اور استاد سے بڑی ڈگری سمجھی جاتی ہے۔ معاشرے میں چونکہ انہیں ملا کا درجہ حاصل تھا لہٰذا وہ جو کچھ کرتے رہتے لوگ یہی سمجھتے تھے کہ وہ ٹھیک ہو رہا ہے، کیونکہ ان سے ”چول“ کا صدور ممکن ہی نہیں۔ اسی عزت نے ملا کو بگاڑ دیا تھا اور وہ ہر جگہ سینگ اڑانے کو اپنا حق سمجھنے لگے تھے۔

اسی زعم میں ایک روز نہ جانے ان کے دِل میں کیا سمائی کہ انہوں نے اپنے کھوتے کی رسی پکڑی اور اسے اپنے پیارے گھر کی چھت پر لے گئے۔ وہ کھوتا،جس کی عزت اس سے پہلے صرف ”کھوتیوں“ میں تھی، جب چھت پر پہنچا تو وہ اس بات پر پھولے نہیں سما رہا تھا کہ آج پوری دنیا اس کے قدموں میں ہے۔شام کے وقت جب ملا نے اسے نیچے اتارنے کی کوشش کی تو اس نے انکار کر دیا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ ملا کھوتے کو نیچے اتارنا چاہ رہے تھے، لیکن کھوتا ہلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ تنگ آ کر ملا نے اپنا ڈنڈا اٹھایا اور کہنے لگا:ارے او ناہنجار کھوتے آرام سے نیچے اتر!۔کھوتے نے ترنت سے جواب دیا: میں نیچے اتر آیا تو مجھے کھوتا کون کہے گا۔ یہ سن کر ملا نے ڈنڈے کو ہوا میں لہرایا اور گرج کر کہا: میں نے تجھ جیسے کئی کھوتے نیچے اتارے ہیں تو کس کھیت کی مولی ہے؟ گدھے نے اپنا اگلا پاؤں زور سے چھت پر مارا اور ایک لمبی سی ہنہناہٹ بھرتے ہوئے کہا: اگر مجھے نیچے اتارا تو یہ چھت بھی اوپر نہیں رہے گی۔ میں اوپر ہی رہوں گا۔ لوگوں کا ہجوم بھی لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا تھا۔ گھمبیر ہوتی ہوئی صورت حال دیکھ کر ملا نے کہا: دیکھ کھوتے تیر ا مزید اوپر رہنا اب چھت کے لئے خطر ناک بھی ہے لہٰذا تجھے نیچے آنا ہی ہوگا۔ کھوتے نے چھت کے کنارے سے ایک نظر بڑھتے ہوئے ہجوم پر ڈالی اور کہا: ملا جی ڈنڈے کے زعم میں نہ رہنا، کیونکہ ڈنڈے کی طاقت بجا، لیکن میں نیچے اتر کر بہت خطرناک بن جاؤں گا۔لہٰذا بہتر یہی ہے کہ مجھے نیچے نہ اتارا جائے۔ ملا نے بہتیری کوشش کی، لیکن نتیجہ ندارد۔

ایرانی صدر کے دورہ پاکستان اور معاہدوں پر امریکہ کا ردعمل بھی آگیا، خبردار کردیا

تنگ آ کر ملا نے ”مذاق رات“ کا ڈراما ترک کیا اور نیچے اتر کر صحن میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا کہ شاید کھوتا خود ہی نیچے اتر آئے۔کھوتے کو کیا پڑی تھی کہ نیچے اترتا اور ویسے بھی نیچے اس کے لئے کون سا اطلس و کمخواب کے بستر لگے تھے۔ نیچے آ کر اس کے لئے وہی گھاس نما بھیک تھی جو لینی بھی خود تھی اور وہ بھی ”پگڈنڈی پگڈنڈی“ گھوم کر۔ قصہ مختصر کھوتے نے نیچے نہیں اترنا تھا لہٰذا وہ نہ اترا۔ انتطار کرتے کرتے ملا کی آنکھ لگ لگی ہی تھی کہ اچانک ”دھک دھک“ کی آوازیں آنے لگیں۔ اس نے گھبراہت کے عالم میں دِل پر ہاتھ رکھا تو اس کی دھڑکن کو درست پایا۔ حواس مکمل بحال ہوئے تو محسوس کیا کہ یہ آوازیں چھت سے آ رہی ہیں۔ ڈنڈا اٹھایا اور فوراً چھت کی طرف دوڑا۔دیکھا تو کھوتا چھت پر کود پھاند کر رہا تھا۔ ملا نے چیخ کر کہا: رک جا ارے او کھوتے رک جا، چھت گر جائے گی۔جوں جوں ملا کی چیخوں کی آواز بلند ہو رہی تھی توں توں کھوتے کی اچھل کود مزید ”خطرے ناک“ ہوتی جا رہی تھی۔ اچانک تماش بین میں سے ایک کثیر تعداد کھوتے کی ہمنوا نظر آنے لگی۔ یہ وہ لوگ تھے، جنہوں نے کسی دور میں کھوتے سے مالی اور ”جسمانی“ فوائد اٹھائے تھے اور اس وقت بھی وہ اس کی بیجا حمایت کر رہے تھے، کیونکہ وہ کھوتے کی ویڈیو بنا کر کمائی کرتے تھے۔ خیر ملا نے ان تماش بینوں سے کہا: چھت بھی میری اور کھوتا بھی میرا،لہٰذا مرضی بھی میری ہی چلے گی۔ تماش بین بھی اچھل اچھل کر پوچھنے لگے: لیکن ملا جی کھوتا تو کہہ رہا ہے کہ چھت میری ہے۔ ملا نے زچ ہو کر پوچھا: تم میری بات کا اعتبار کرو گے یا کھوتے کی بات کا؟اس سے پہلے کہ لوگوں کی سوچ کا ریلا اس کارآمد سوال کی جانب مڑتا، مفاداتیوں نے اچانک شور بلند کیا: ہم کوئی ملا کے غلام ہیں کہ جو اس نے کہا وہ مان لیں گے۔ خیر ملا نے تماش بینوں کو وہاں سے بھگایا اور ایک بار کھوتے کو نیچے اتارنے کی کوشش کی۔ ملا بھی زور لگا رہا تھا اور کھوتا بھی پاؤں جمائے کھرا تھا۔ اسی دھکم پیل میں گھر کی کمزور چھت گر گئی۔ملا اور کھوتا تو سلامت رہے، لیکن کچھ ”چیونٹیاں“ جان کی بازی ہار گئیں۔

چین کی موبائل فون ساز کمپنی نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا اعلان کردیا

آخر میں میری ایک تازہ غزل:

مری چشمِ تر کا ہنر دیکھیے گا

ثمر بار ہوتا شجر دیکھیے گا

مگر کہہ کے ٹالا ہے کب سے انھوں نے

مگر اب ہمارا اگر دیکھیے گا

بنا کر تمھیں اپنا لوتا ہے کس نے؟

جدھر دل کو رہ ادھر دیکھیے گا

نشانہ ستم گر کا دیکھا تو ہو گا

وفا کیش کا اب جگر دیکھیے گا

اجالوں پہ اپنے فخر کرنے والو!

مری تیرہ شب کی سحر دیکھیے گا

یہ بادہ یہ جام اور مستی سی کیوں ہے؟

جو ممکن ہو تشنہ نظر دیکھیے گا

ذرا لو خدا سے لگا ئیے تو کوثر

اسلام آباد کی الیونتھ ایونیو شاہراہ کا نام ایران ایونیو رکھ دیاگیا

زمانے میں اپنی قدر دیکھیے گا

QOSHE -  کھوتا…………! - کوثر عباس
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 کھوتا…………!

21 0
23.04.2024

ملا نصیر الدین کے نام کے ساتھ چونکہ ملا لگا ہوا تھا،لہٰذا وہ خود کو بہت ہی عقلمند سمجھتے تھے، کیونکہ ”ملا“ کسی دور میں بلکہ عرب دنیا میں آج بھی ڈاکٹر اور استاد سے بڑی ڈگری سمجھی جاتی ہے۔ معاشرے میں چونکہ انہیں ملا کا درجہ حاصل تھا لہٰذا وہ جو کچھ کرتے رہتے لوگ یہی سمجھتے تھے کہ وہ ٹھیک ہو رہا ہے، کیونکہ ان سے ”چول“ کا صدور ممکن ہی نہیں۔ اسی عزت نے ملا کو بگاڑ دیا تھا اور وہ ہر جگہ سینگ اڑانے کو اپنا حق سمجھنے لگے تھے۔

اسی زعم میں ایک روز نہ جانے ان کے دِل میں کیا سمائی کہ انہوں نے اپنے کھوتے کی رسی پکڑی اور اسے اپنے پیارے گھر کی چھت پر لے گئے۔ وہ کھوتا،جس کی عزت اس سے پہلے صرف ”کھوتیوں“ میں تھی، جب چھت پر پہنچا تو وہ اس بات پر پھولے نہیں سما رہا تھا کہ آج پوری دنیا اس کے قدموں میں ہے۔شام کے وقت جب ملا نے اسے نیچے اتارنے کی کوشش کی تو اس نے انکار کر دیا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ ملا کھوتے کو نیچے اتارنا چاہ رہے تھے، لیکن کھوتا ہلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ تنگ آ کر ملا نے اپنا ڈنڈا اٹھایا اور کہنے لگا:ارے او ناہنجار کھوتے آرام سے نیچے اتر!۔کھوتے نے ترنت سے جواب دیا: میں نیچے اتر آیا تو مجھے کھوتا کون کہے گا۔ یہ سن کر ملا نے ڈنڈے کو ہوا میں لہرایا اور........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play