ریاستی رِٹ کا مسئلہ
ریاستی ادارے کام کر رہے ہیں خوب کررہے ہیں۔ پاکستان اگر دودہائیوں سے جاری، دہشت گردی کے خلاف امریکی عالمی جنگ سے بخیر و خوبی نکل آیا ہے تو یہ کمال نہیں ہے ویسے بظاہر تو امریکی اتحادی، ناٹو اور ایساف کی افواج افغانستان سے نکلی ہیں۔ امریکہ جو طالبان کو ”چوہے“ کہتا تھا انہی کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے پر مجبور ہوا۔ کسی کو نہیں معلوم کہ طالبان کسی طور بھی امریکیوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار نہیں تھے۔ امریکہ جب بھی مسئلہ افغانستان حل کرنے کے لئے مذاکرات کی اہمیت کا ذکر کرتا تو طالبان جواب دیتے کہ مسئلہ امریکی اتحادی افواج کے افغانستان پر حملہ آور ہونے کے باعث پیدا ہوا ہے۔ امریکی اتحادی افواج اپنے اپنے ملک واپس چلی جائیں، افغانستان سے نکل جائیں، افغان مسئلہ حل ہو جائے گا۔ طالبان نے ایسا ثابت بھی کر دکھایا۔ امریکی ترلے منتیں کرتے رہے کہ مذاکرات ہونے چاہئیں ویسے امریکی پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے۔ امریکی قائدین بارہا اعلان کر چکے تھے کہ افغانستان میں عسکری فتح ممکن نہیں ہے۔ پشتونوں سے جنگ جیتنا ممکن نہیں ہے۔ امریکیوں نے یہ سبق سوویت افواج کے خلاف برسرپیکار رہنے والے مجاہدین سے سیکھا تھا۔ افغان مجاہدین نے دنیا کی دوسری بڑی عسکری قوت کو ناکوں چنے چبوا کر 1989ء میں فوجی شکست سے دوچار کر دیا تھا۔ اشتراکی افواج کی اپنی 70سالہ تاریخ میں پہلی شکست تھی اور روسی استعماریت کی پانچ سو سالہ تاریخ کا یہ پہلا واقع تھا کہ روسیوں نے کسی علاقے پر قبضہ کیا ہو اور پھر اسے چھوڑا بھی ہو۔ ماسکووی قصبے سے شروع ہونے والی روسی پھیلاؤ کی پانچ سو سالہ تاریخ کا سبق یہی تھا کہ وہ جب کسی علاقے پر قابض ہو جاتے تو اسے اپنے اندر جذب کرلیتے،........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website