کھو گئے ہیں ہم سوالوں میں
عجیب سر زمین تھی اور حماقت کاشت کرنے پر مصر سوالات سے لبریز معاشرہ۔ جہاں ہر طرف سوال ہی سوال تھے۔ سوال گندم تھے اور سوال ہی چنا تھے۔ سوال ٹھونس ٹھونس کر نصاب میں بھرے جاتے تھے۔ بے سر پیر کے سوال کتابیں تخلیق کرتے۔ سوال سے خبر بنتی اور سوال سے ہی ہر خبر کی تردید کی جاتی۔ حد تو یہ تھی کہ ہر سانحہ پر مذمت کی تہہ میں بھی سوال خراٹے لے رہا ہوتا۔ درختوں، شاخوں اور جڑ میں بھی سوال کی کھاد اور پانی دیا جاتا۔ پودوں پر پھول نہیں، سوال اگتے۔ ہر موسم میں سوالات کی فصل تیار کرنے پر وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جاتا۔لیکن جدت سے لبریز سوالات کی گندم سے آٹا اور پھر روٹی بھی سوال کی ہی پکتی۔بادشاہ نے اعلان کر رکھا تھا کہ سوال کی روٹی کا وزن بڑھنے نہ پائے۔ روٹی کی قیمت اتنی ہی رکھی جائے کہ جواب کی طلب برقرار رہے۔ شکم میں کم زور اور بیمار سوالات ہضم کرنا صحت کے لیے بہترین قرار دیا گیا۔ صحت کارڈ سے راشن اور دیگر بلوں میں صرف سوالات جمع تھے جن کی ادائیگی میں لوگ گھر کا سامان بیچنے پر مجبور تھے۔اس صورتحال میں کسی نے ”محنت پسند خرد مند“ کا رستہ نہیں تلاشا۔ خلقت تھی تو سوالات کی گرسنگی سے بے نیاز۔ عوام کا ایک ہی مشغلہ تھا۔سوالات کی تصاویر بنائی جاتیں۔ سوالات کی........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website