بھارت کی آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1975ء میں اپنے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی جو 21 مہینے جاری رہی، ان کم و بیش پونے دو برسوں میں انسانی حقوق کو بری طرح پامال کیا گیا، اپوزیشن رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور بھارتی پریس کو شدید اور سنگین ترین پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا، ان حالات میں بھارت کے یوم آزادی پر 15 اگست کو نئی دہلی کے لال قلعہ میں ایک تقریب کا اہتمام بھی کیا گیا، مشاعرہ بھی جس کا حصہ تھا۔ اس مشاعرے میں بھارت کے نامور شعرا نے حصہ لیا تھا، وزیر اعظم اندرا گاندھی اس مشاعرے میں بہ نفس نفیس موجود تھیں، مشاعرے کے شعرا میں سے جب کلیم عاجز کی باری آئی تو انہوں نے مائیک کے سامنے بیٹھ کر اپنی غزل سنانا شروع کی:

معروف پاکستانی ٹک ٹاکر کی مبینہ شوہر کیساتھ بیڈ روم کی نجی ویڈیوز اور تصاویر لیک، بہن پر الزام لگا دیا

میرے ہی لہو پہ گزر اوقات کرو ہو

مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو

دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو

وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو

واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ کلیم عاجز صاحب کی مخاطب ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے اندرا گاندھی تھیں اور جب وہ اس شعر پر پہنچے کہ

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

تو انہوں نے خاص طور پر اندرا گاندھی کی طرف اشارہ کیا تھا، اس شعر پر کلیم عاجز صاحب کو داد تو بہت ملی لیکن مشاعرے کے منتظمین کا خون خشک ہو گیا تھا۔

مغربی ہواؤں کا نیا سسٹم آج پاکستان میں داخل ہوگا، غیر معمولی بارش کا امکان

معاملات سرحد کے اِس پار بھی سرحد کے اْس پار سے مختلف نہیں رہے،یہاں اب ایمرجنسی نافذ نہیں لیکن انتخابات میں کرامات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور انتخابات کے دنوں میں تو یہ کرامات چمتکار میں تبدیل ہو جاتی ہیں، بس انتخابات ہونے چاہئیں،چاہے وہ ضمنی ہی کیوں نہ ہوں، ایسے ایسے شعبدے اور ایسی ایسی قلابازیاں مشاہدے میں آتی ہیں کہ کلیم عاجز صاحب ہوتے تو کرامات کا قافیہ لے کر اس سے بھی اچھی، عمدہ اور تیر بہدف غزل کہتے۔

ہمارے ہاں کے انتخابات کسی چیستاں سے کم نہیں، دعوے بھی بہت کیے جاتے ہیں اور بظاہر نظر یہ آتا ہے کہ انتخابات صاف، شفاف، عادلانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے والے ہیں لیکن پھر ہوتا وہی ہے جو وہ چاہتے ہیں اور پتا اس وقت چلتا ہے جب ہارنے والے یہ واویلا شروع کر دیتے ہیں کہ الیکشن نہ تو صاف اور شفاف تھے اور نہ ہی عادلانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تو بندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کس کی بات سنے اور کس کی مسترد کرے۔ 21 اپریل کو جو کچھ ہوا وہ آٹھ فروری کا ری پلے ہی محسوس ہوتا ہے لیکن کچھ تبدیلیوں کے ساتھ، آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد فارم 45 اور فارم 47 کا بہت شور اٹھا تھا، الزام لگانے والے کہتے ہیں کہ اس بار معاملہ فارم 45 اور فارم 47 تک پہنچنے ہی نہیں دیا گیا اس سے پہلے پہلے ہی نمٹا لیا گیا تھا اور بندوبست اتنے تگڑے تھے کہ پولنگ والے عملے اور باقی سب نے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ ہمارے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ سننے میں آیا کہ اس بار پولنگ کے آغاز سے پہلے ہی اکثر ایجنٹوں سے فارم 45 پر دستخط کروا لیے گئے تھے، بہانہ یہ بنایا گیا کہ دستخط کرواتے ہوئے نتائج آگے پہنچانے میں دیر ہو جاتی ہے۔ حیرت ہے کہ دستخط کرنے والوں نے بھی دستخط کر دیے یہ سوچے بغیر کہ دستخط کرنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔،اب جب فارم 45 پر دستخط ہو گئے تو پھر اگلوں کی مرضی کہ وہ اس میں جو دل چاہے فگر ڈالتے رہیں لکھتے رہیں، اسی طرح متبادل پولنگ سٹیشن کا تصور بھی سامنے لایا گیا۔

پاکستان کا پہلا کریلے و کھیرے بیچنے والا ڈان

یوں تو انتخابات کسی بھی ملک میں کوئی آسان معاملہ نہیں رہا لیکن اس خطے خصوصاً بر صغیر میں اور اس سے بھی زیادہ تخصیص کی جائے تو ہمارے ملک میں الیکشن کا معاملہ پیچیدہ تر درجے سے نکل کر اب پیچیدہ ترین کی منزل تک پہنچ چکا ہے۔ بہت کوشش کی گئی کہ الیکشن صاف شفاف ہوں سب کی مرضی کے مطابق ہوں اور سبھی اس کے نتائج تسلیم کریں،اس کے لیے نگران حکومتوں کا انوکھا اور نرالا سیٹ اپ بھی قائم کیا جاتا رہا تاکہ وہ ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہو کر انتخابی عمل کی تکمیل کر سکیں، لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ پہلی بات یہ کہ ہمارے ہاں انتخابات نگران حکومتوں کی اولین ترجیح نظر ہی نہیں آتے، وہ تاخیر کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور نگران حکومتیں کچھ اور ہی معاملات میں مصروف نظر آتی ہیں، جب نگران حکومتوں کے دور میں ہونے والے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جاتے رہے تو کیسے ممکن تھا کہ اب ایک منتخب سیٹ اپ کے تحت ہونے والے ضمنی انتخابات میں غیر جانب داری کا مظاہرہ کیا جاتا؟

مسلم لیگ (ن) سندھ کے رہنماؤں کی وزیر اعظم سے ملاقات ، کراچی میں طویل غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور پانی کے بحران کی شکایت کردی

نتیجہ وہی ہے جس کا اندیشہ یا خدشہ تھا عام انتخابات کے نتائج کا رونا ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ اب ضمنی انتخابات کے نتائج کو لے کر اگلے جمعہ سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہے، بانی پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ پنجاب کے الیکشن پہلے سے پلانٹڈ تھے ضمنی انتخابات میں پہلے ہی ڈبے بھرے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کا ضمنی الیکشن پولیس نے لڑا ہے،چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے قرار دیا کہ ضمنی الیکشن کا دن جمہوریت کا سیاہ دن تھا، عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا، الیکشن کمیشن اپنی ساکھ کھو بیٹھا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہوں اور چیف جسٹس ضمنی انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کا نوٹس لیں، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے بتایا کہ گجرات میں پولیس نے ریٹرننگ آفیسر سے ملنے نہیں دیا، سنی اتحاد کونسل کے اراکین قومی اسمبلی کا استحقاق مجروح ہوا، وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ اتوار کے ضمنی الیکشن کے نتائج نے آٹھ فروری کے الیکشن پر چھائے شبہات ختم کر دیئے ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنے ایک بیان میں ضمنی انتخابات میں فاتح امیدواروں کو مبارک باد پیش کی اور دعویٰ کیا کہ ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کی کامیابی عوام کے اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے اور یہ بھی کہ عوام جان چکے ہیں کہ اس ملک کی ترقی کے لیے محمد نواز شریف کی قیادت ضروری ہے۔ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ دو مہینے میں حکومت نے ایسی کیا کارکردگی دکھا دی کہ ضمنی الیکشن میں ووٹرز نے 80 درجے کا یْو

ٹرن لے لیا ہے، پہلے دو مہینے تو معاملات کو دیکھنے اور سمجھنے میں ہی لگ جاتے ہیں کارکردگی پتا نہیں کہاں سے آ گئی؟

ہمایوں سعید اور صبور علی کی بےتکلفی دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین برس پڑے

قصہ مختصر یہ کہ انتخابات کو قتل کرنے کا معاملہ مبینہ طور پر بڑی کرامات کے ساتھ کیا گیا ہے، اس سے جمہوریت کو کیا فائدہ ہوا؟ یہ 'کرامات دکھانے والے جانیں، فی الحال تو یہ اندیشہ سر اٹھانے لگا ہے کہ اگر الیکشن کے عمل پر عدم اعتماد اسی طرح بڑھتا رہا تو ملک میں جمہوریت اور جمہوری عمل کی کیا ساکھ باقی رہ جائے گی؟ اور یہی کچھ جاری رہا تو پھر اس ساکھ کو کسی بھی طرح کی کرامات سے بھی ٹھیک نہیں کیا جا سکے گا۔

QOSHE -  تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو - محسن گواریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

33 0
25.04.2024

بھارت کی آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1975ء میں اپنے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی جو 21 مہینے جاری رہی، ان کم و بیش پونے دو برسوں میں انسانی حقوق کو بری طرح پامال کیا گیا، اپوزیشن رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور بھارتی پریس کو شدید اور سنگین ترین پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا، ان حالات میں بھارت کے یوم آزادی پر 15 اگست کو نئی دہلی کے لال قلعہ میں ایک تقریب کا اہتمام بھی کیا گیا، مشاعرہ بھی جس کا حصہ تھا۔ اس مشاعرے میں بھارت کے نامور شعرا نے حصہ لیا تھا، وزیر اعظم اندرا گاندھی اس مشاعرے میں بہ نفس نفیس موجود تھیں، مشاعرے کے شعرا میں سے جب کلیم عاجز کی باری آئی تو انہوں نے مائیک کے سامنے بیٹھ کر اپنی غزل سنانا شروع کی:

معروف پاکستانی ٹک ٹاکر کی مبینہ شوہر کیساتھ بیڈ روم کی نجی ویڈیوز اور تصاویر لیک، بہن پر الزام لگا دیا

میرے ہی لہو پہ گزر اوقات کرو ہو

مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو

دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو

وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو

واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ کلیم عاجز صاحب کی مخاطب ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے اندرا گاندھی تھیں اور جب وہ اس شعر پر پہنچے کہ

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

تو انہوں نے خاص طور پر اندرا گاندھی کی طرف اشارہ کیا تھا، اس شعر پر کلیم عاجز صاحب کو داد تو بہت ملی لیکن مشاعرے کے منتظمین کا خون خشک ہو گیا تھا۔

مغربی ہواؤں کا نیا سسٹم آج پاکستان میں داخل ہوگا، غیر معمولی بارش کا امکان

معاملات سرحد کے اِس پار بھی سرحد کے اْس پار سے مختلف نہیں رہے،یہاں اب ایمرجنسی نافذ نہیں لیکن انتخابات میں کرامات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور انتخابات کے دنوں میں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play