گورنر ہاؤس میں میرا زیادہ آنا جانا خالد مقبول صاحب کے دور میں ہوا۔وہ اہلِ قلم سے ملنے کے شوقین تھے۔مختلف معاملات پر اُن سے مکالمہ کرتے۔ اُن سے راہ نمائی لیتے اور اپنا ایک بیانیہ تشکیل دیتے۔کبھی کبھار خالد مقبول صاحب کی تقریروں اور گفتگوؤں کے لیے ان کے پی۔آر۔او عاصم رضوان صاحب بر محل اشعار کی فرمائش کرتے تو مجھے اچھا لگتا تھا۔میرا ہی ایک کالم پڑھ کر خالد مقبول صاحب نے الحمرا ادبی بیٹھک بنوائی تھی اور انھوں نے الحمرا آرٹس کونسل انتظامیہ کو ہر ماہ مشاعرہ کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔ان کے رخصت ہونے کے بعد بھی گورنر ہاؤس جانے کا موقع ملا لیکن پہلے والی بات نہ رہی تھی۔

معروف پاکستانی ٹک ٹاکر کی مبینہ شوہر کیساتھ بیڈ روم کی نجی ویڈیوز اور تصاویر لیک، بہن پر الزام لگا دیا

پنجاب کے موجودہ گورنر محمد بلیغ الرحمن صاحب کے دور میں بھی اس بڑے گھر کی طرف کئی بار جانے کا موقع ملا۔محمد بلیغ الرحمن بھی خالد مقبول کی طرح درد دل رکھنے والے آدمی ہیں۔انسان دوست ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔اہلِ علم سے تعلق پر ناز کرتے ہیں۔انجمن ہلال احمر پاکستان کے سابق چیئرمین، سابق وزیر صحت اور میرے دوست ڈاکٹر سعید الٰہی کی ان سے بہت زیادہ قربت ہے اس لیے گورنر ہاؤس میں علمی اور ادبی تقریبات کے اہتمام میں وہ پیش پیش رہتے ہیں۔چند روز قبل ڈاکٹر صاحب نے فون پر اطلاع دی کہ گورنر صاحب نے کچھ احباب کو چائے پر مدعو کیا ہے، آپ بھی تشریف لائیے اور منظوم اظہار خیال کیجیے۔ مقررہ وقت پر گورنر ہاؤس پہنچا تو پنجاب کے سابق نگران وزیر اوقاف اور راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے موجودہ چیئرمین اظفر علی ناصر اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود بھی پہنچ چکے تھے۔ اظفر علی ناصر صاحب سے میری پہلی ملاقات ان کے دولت کدے میں ان کے بیٹے کی شادی کے موقع پر اور دوسری ملاقات ولیمے میں ہوئی تھی۔چونکہ وہ ایک روایتی علمی اور تہذیبی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے انھوں نے مجھ سے ڈاکٹر سعید الٰہی کی وساطت سے سہرا لکھنے کی فرمائش کی تھی۔میں نے یہ سہرا ان کے تمام اہل خانہ کے روبرو سنایا تو داد دینے کے انداز سے پتا چلا کہ ان کے گھر کا ہر فرد شعر شناس ہے۔پنجاب یونیورسٹی کے وی سی ڈاکٹر خالد محمود صاحب اسی کالج سے پڑھے ہوئے ہیں ہیں جہاں میں تیرہ برس تک پڑھاتا رہا۔ان کا تعلق شرق پور شریف سے ہے۔ایک بار ان سے شرق پور کے گرلز کالج میں مفصل ملاقات ہوئی تھی جہاں انھوں نے اپنی غربت کے قصے مزے لے لے کر سنائے تھے۔

مغربی ہواؤں کا نیا سسٹم آج پاکستان میں داخل ہوگا، غیر معمولی بارش کا امکان

گورنر محمد بلیغ الرحمن صاحب نے چائے سے پہلے اپنے ڈرائنگ روم میں احباب سے مکالمہ کیا۔ مجھے جب منظوم اظہار خیال کے لیے کہا گیا تو میں نے کہا: " گورنر صاحب! آپ نے اچھا کیا کہ یہ تقریب دربار ہال میں نہیں رکھی ورنہ آج میں بھی درباری شاعر کہلاتا"۔ اس پر گورنر صاحب سمیت وہاں موجود ہر شخص نے قہقہہ لگایا اور داد کا راستہ ہموار ہو گیا۔گورنر صاحب نے نہایت نپے تلے الفاظ میں اپنی ڈیڑھ برس کی کارکردگی پر روشنی ڈالی۔محمد بلیغ الرحمن صاحب نے گورنر کا عہدہ نامساعد حالات میں سنبھالا تھا جب پنجاب میں آئینی اور سیاسی بحران عروج پر تھا اور سیاست کی کشتی منجدھار میں ہچکولے کھا رہی تھی لیکن وہ اپنی دانش مندی سے اسے منزل کی طرف رواں دواں کرنے میں کام یاب ہوئے۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے گورنر ہاؤس کے گائیڈڈ ٹوورز کا سلسلہ شروع کیا ہے۔اب یہاں ٹوورازم ڈیپارٹمنٹ کی ڈبل ڈیکر بس گورنر ہاؤس دیکھنے کے لیے شائقین کو لاتی ہے۔ ان سب کو گورنر ہاؤس کا ایک ایک کونا دکھایا جاتا ہے۔اس کی تاریخ بتائی جاتی ہے۔کچھ اداروں نے اعتراض کیا کہ گورنر ہاؤس ایک حساس مقام ہے، اس کا ہر حصہ لوگوں کے لیے نہ کھولا جائے لیکن گورنر صاحب نے کہا کہ یہ عوام بھی ہمارے ہیں۔ان سے زیادہ محب وطن کوئی نہیں ہوسکتا۔ سو یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔لوگ تہذیب اور شائستگی سے گورنر ہاؤس آتے ہیں۔اپنی یادوں کی جھولی میں اسے سمیٹتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔گورنر صاحب نے یہ بھی کہا کہ وہ آنے والے لوگوں سے ملاقات بھی کرتے ہیں تاکہ ملکی سیاسی معاملات اور گورنر ہاؤس کے بارے میں ان کے خیالات جان سکوں۔ان سے مل کر مجھے احساس ہوا ہے کہ اب ہمارے لوگ بہت باشعور ہو گئے ہیں۔اتنے لوگ یہاں آتے ہیں لیکن کبھی ایک گملا ٹوٹنے کی شکایت نہیں آئی۔ ماضی میں بھی ایک گورنر صاحب نے عوام کے لیے گورنر ہاؤس کھولا تھا لیکن تب یہ منصوبہ ہڑبونگ کا شکار ہو گیا تھا۔لوگ بے ترتیبی سے آتے اور گورنر ہاؤس کا نقصان کر کے چلے جاتے تھے۔گورنر صاحب اس لحاظ سے بہت معقول آدمی لگے کہ انھوں نے متوقع گورنر کے بارے میں اپنے حسن ظن کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ ان شااللہ جو بھی نیا گورنر آئے گا وہ مجھ سے بہتر ہی ہو گا۔مزید ہلکی پھلکی گپ شپ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے کی گئی۔رات کے تقریبا ساڑھے گیارہ بجے ہم گورنر ہاؤس کی چوبی سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے تو گورنر محمد بلیغ الرحمن صاحب شاہی سواری کے لیے بنی ہوئی خوب صورت پڑچھتی کے نیچے اس وقت تک کھڑے رہے جب تک آخری مہمان رخصت نہیں ہو گیا۔

پاکستان کا پہلا کریلے و کھیرے بیچنے والا ڈان

QOSHE -    گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن سے ایک ملاقات - ناصربشیر
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

   گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن سے ایک ملاقات

25 0
25.04.2024

گورنر ہاؤس میں میرا زیادہ آنا جانا خالد مقبول صاحب کے دور میں ہوا۔وہ اہلِ قلم سے ملنے کے شوقین تھے۔مختلف معاملات پر اُن سے مکالمہ کرتے۔ اُن سے راہ نمائی لیتے اور اپنا ایک بیانیہ تشکیل دیتے۔کبھی کبھار خالد مقبول صاحب کی تقریروں اور گفتگوؤں کے لیے ان کے پی۔آر۔او عاصم رضوان صاحب بر محل اشعار کی فرمائش کرتے تو مجھے اچھا لگتا تھا۔میرا ہی ایک کالم پڑھ کر خالد مقبول صاحب نے الحمرا ادبی بیٹھک بنوائی تھی اور انھوں نے الحمرا آرٹس کونسل انتظامیہ کو ہر ماہ مشاعرہ کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔ان کے رخصت ہونے کے بعد بھی گورنر ہاؤس جانے کا موقع ملا لیکن پہلے والی بات نہ رہی تھی۔

معروف پاکستانی ٹک ٹاکر کی مبینہ شوہر کیساتھ بیڈ روم کی نجی ویڈیوز اور تصاویر لیک، بہن پر الزام لگا دیا

پنجاب کے موجودہ گورنر محمد بلیغ الرحمن صاحب کے دور میں بھی اس بڑے گھر کی طرف کئی بار جانے کا موقع ملا۔محمد بلیغ الرحمن بھی خالد مقبول کی طرح درد دل رکھنے والے آدمی ہیں۔انسان دوست ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔اہلِ علم سے تعلق پر ناز کرتے ہیں۔انجمن ہلال احمر پاکستان کے سابق چیئرمین، سابق وزیر صحت اور میرے دوست ڈاکٹر سعید الٰہی کی ان سے بہت زیادہ قربت ہے اس لیے گورنر ہاؤس میں علمی اور........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play