ایران کے صدر محترم ابراہیم رئیسی پاکستان کا سہ روزہ دورہ کرنے کے بعد واپس وطن پہنچ چکے ہیں۔ ان کی پاکستان میں آمد پر خوشی و انبساط کا اظہار کیا گیا اور پرجوش خیر مقدم اور الوداع ہوا۔ صدر ایران کے ساتھ اعلیٰ سطحی وفد بھی تھا اور اس دوران ایران اور پاکستان کے برادرانہ تعلقات کا اعادہ کیا گیا۔ عوامی سطح پر بھی اطمینان کا اظہار ہوا۔ یہ دورہ ایسے وقت ہوا جب ایران اور اسرائیل کے درمیان راکٹ بازی (میزائل داغے گئے) ہو چکی تھی اور ہر دو کے درمیان تناؤ میں بھی شدت آ چکی ہے۔ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کا موقف بھی بہت واضح ہے اور صدر رئیسی کی طرف سے تعریف بھی کی گئی، ان کو یہ بھی یقین ہے کہ غزہ کے محاذ پر بالآخر اسرائیل کو شکست اور فلسطینیوں کو فتح حاصل ہوگی۔

معروف پاکستانی ٹک ٹاکر کی مبینہ شوہر کیساتھ بیڈ روم کی نجی ویڈیوز اور تصاویر لیک، بہن پر الزام لگا دیا

صدر ایران کے اس دورے کے دوران تجارتی بہاؤ پر بھی بات چیت ہوئی اور اس امر پر اتفاق پایا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم دس ارب ڈالر تک لے جایا جائے گا۔ اس کے علاوہ گیس پائپ لائن جیسے حساس معاملے پر بھی تبادلہ خیال ہوا اور یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ گیس پائپ لائن کی تکمیل کا تعلق پاکستان کی معیشت سے جڑا ہوا ہے اس لئے عالمی سطح پر اس کا احترام کیا جائے گا۔

ایرانی صدر کے دورے اور تجارتی روابط بڑھانے کی بات چیت کے دوران یقینی طور پر اس امر پر غور کر لیا گیا ہوگا کہ ”عالمی تھانیدار“ ایران کے حوالے سے کیسے ردعمل کا مظاہرہ کرے گا۔ ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت کا سلسلہ تو جاری ہے تاہم اس دورے اور اس دوران مذاکرات اور اظہار خیال نے دنیا بھر کو چونکا یاضرور، تاہم توقع کے مطابق پہلا ردعمل ہی عالمی تھانیدار امریکہ کی طرف سے آیا ان کے دو مختلف ترجمانوں میتھیوملر اور ویدانت پٹیل نے ایک ہی نوعیت کا ردعمل دیا جو ڈپلو میٹک زبان میں، خطرے سے آگاہی ہے، ہر دوترجمانوں کے مطابق ایران سے تجارت کرنے والے ممالک کو ممکنہ پابندیوں کے حوالے سے بھی خیال رکھنا چاہیے، ہر دو کے ردعمل میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اور روابط کا ذکر کیا گیا اور بتایا گیا کہ ہر دوممالک کے درمیان تعلقات اچھے ہیں، امریکہ پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کا حامل ہے۔ سفارتی زبان والی دھمکی کے ساتھ ساتھ ہمدردی بھی ظاہر کی گئی کہ امریکہ پاکستان کی معیشت کو مضبوط دیکھنے کے حق میں ہے۔

مغربی ہواؤں کا نیا سسٹم آج پاکستان میں داخل ہوگا، غیر معمولی بارش کا امکان

اس طرح جو خواہشات اور ان کے حوالے سے خدشات تھے وہ دونوں سامنے آ گئے ہیں، یقینا حالات حاضرہ اور ایران پر پابندیوں کے حوالے سے دورہ کے پروگرام کے وقت ہی غو رکرلیا گیا ہوگا اور حکومت کے پاس کوئی ایسا منصوبہ یا پروگرام ضرور ہوگا جس کے حوالے سے مستقبل کی رکاوٹوں پر غور کیاگیا ہوگا، بہرحال امریکہ کی طرف سے بھی ابھی خبردار کیا گیا ہے اور اس کی وجہ سے اب تک گیس پائپ لائن کی تکمیل نہیں ہو رہی حالانکہ یہ منصوبہ اس وقت پاکستانی معیشت کے لئے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے، اس کی تکمیل سے معیشت پر ایک بڑے دباؤ میں کمی بھی آ جائے گی۔ میں اس وقت اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ کوئی حتمی بات کر سکوں تاہم یہ توقع کر سکتا ہوں کہ حکومت نے اگر یہ قدم اٹھایا ہے تو نتائج و عواقب پر بھی نظر ہوگی ہمیں انتظار کرلینا چاہیے۔

پاکستان کا پہلا کریلے و کھیرے بیچنے والا ڈان

پاکستان کی معاشی حالت کے حوالے سے ہم تو مسلسل یہ عرض کرتے چلے آئے ہیں کہ آپس میں اقتدار کی کشمکش اپنی جگہ لیکن یہ سب تو ملک کے وجود سے ہے کہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں (مراد جو یہاں ہی رہنے پر مجبور ہیں) اس لئے اکابرین سیاست کو اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلقات کار برقرار رکھنا چاہئیں اور تمام تر تحفظات کے باوجود ملکی معیشت کی بحالی اور ترقی کے لئے مشترکہ نکات پر اتفاق رائے کر لینا چاہیے۔ لیکن ابھی تک یہ نقارخانے میں طوطی کی آواز ہی کے مترادف ہے تاہم ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے کے مطابق توقع تو یہی ہے اس کے لئے میں سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور قائد حزب اختلاف عمر ایوب کی تعریف کروں گا کہ ان حضرات نے ایرانی صدر کی آمد پر فراخدلی اور عالی ظرفی کا مظاہرہ کیا، ایاز صادق جب پارلیمانی گروپ کے ساتھ صدر ایران سے ملے تو ان کے ساتھ لیڈرآف اپوزیشن بھی تھے۔ ایاز صادق نے ان کو مدعو کیا اور انہوں نے انکار نہ کیا اس کے علاوہ اس حوالے سے پارلیمان میں بھی سکون رہا، قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے اور اب حالات بہتری کی طرف مائل ہیں۔ اپوزیشن کی طرف سے بہتر رویے کا مظاہرہ شروع ہو گیا، توقع ہے کہ تمام تر تحفظات کے باوجود تحریک انصاف والے جمہوری طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اپنے تحفظات کے ازالے کے لئے عدلیہ اور پارلیمان کو اپنا محور بنائیں گے اور زیادہ بہتر طرزعمل کے ساتھ ہی اپنا حق اختلاف و احتجاج استعمال کریں گے۔ اس سلسلے میں اپنے پیشہ صحافت کے بعض ”باخبر اور اہم“ ساتھیوں کی اس اطلاع پر بھی غور کررہا ہوں کہ فریقین کے درمیان ملکی مفاد کے حوالے سے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی بھی فکر کی جا رہی ہے اگرچہ میری ذاتی اطلاع کے مطابق سابق وزیراعظم اپنے وکلاء کی کارکردگی کے حوالے سے بہت ہی مطمئن ہیں اور یہ یقین کئے بیٹھے ہیں کہ جلد ہی عدلیہ سے مکمل ریلیف مل جائے گی۔ اس حوالے سے مثبت فیصلوں پر کس کو اعتراض ہو سکتا ہے تاہم اگر عدلیہ پر اتنا ہی یقین اور انحصار ہے تو پھر دھمکی آمیز بیانات کو چھوڑ کر طرزعمل بھی مثبت ہو جانا چاہیے لہٰذا ماحول کو تلخی سے بچائیں اورمعاشی حالت کی صورت حال کے پیش نظر اپنے اپنے نظریات اور پروگرام پر مضبوط رہتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی امور کی حد تک حالات بہتر بنا لیں، اگر امن و سکون کی فضا ہوگی تو عدالتوں کے فیصلے بھی تسلیم ہو جائیں گے اور ملک کے لئے بھی بہتری ہوگی۔ یوں بھی ان دنوں درون خانہ کسی کوشش کا ذکر ہے،اللہ کرے درست ہو، ضد اور انا چھوڑ دی جائے۔ اس حوالے سے عرض کروں گا اور یہ میں اپنے رپورٹنگ کے تجربے کی بناء پر کہہ رہا ہوں، تھوڑی ہو تو زیادہ بنتی ہے، اس لئے بہتر عمل یہ ہے کہ جو ہو وہ سچ کے طور پر بتا دیا جائے کہ رپورٹر تو سونگھنے کے بعد ہی بھاگ دوڑ شروع کرتے ہیں ان کی تسلی صاف بات سے ہی ممکن ہے۔

مسلم لیگ (ن) سندھ کے رہنماؤں کی وزیر اعظم سے ملاقات ، کراچی میں طویل غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور پانی کے بحران کی شکایت کردی

جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے تو اس آزار سے چھٹکارا ممکن نہیں، البتہ اس محاذ پر جواب دیا جا سکتا ہے۔ آئی ایس پی آر سے گزارش ہے کہ وہ مانیٹرنگ کرتے ہیں تو حالات کے مطابق وضاحت بھی کریں ہمارے سوشل میڈیا کے کہے کو دوسرے ممالک خصوصاً بھارتی میڈیا ایک کی سو بناتا ہے۔ آئی ایس پی آر کو بروقت فیصلہ لینا چاہیے، حکومت پاکستان کی طرف سے حال ہی میں سعودی وفد اور ایرانی صدر کے دوروں کے حوالے سے باخبر رکھنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن سوشل میڈیا سے متاثر ہو کر اچھے ہوش مند الیکٹرونک میڈیا والے مقابلے کی دوڑ میں خود تحقیق کئے بغیر بحث شروع کرا دیتے ہیں۔ سعودی عرب کے حوالے سے حکومت بتا چکی کہ برادر اسلامی ملک سے سرمایہ کاری ہوگی اور اس کی تفصیل ولی عہد سعودی عرب کے دورے پر معلوم ہوگی توقع کی جا رہی ہے کہ یہ سرمایہ کاری 25ارب ڈالرتک ہو سکتی ہے، ابھی گاؤں بسا نہیں اور…… تیار ہو گئے ہیں اور الزام لگا دیا کہ 25 ارب ڈالر کے دعوے کے جواب میں صرف 5ارب ڈالر کی گیم ہوئی ہے۔ حکومت پاکستان پر وضاحت فرض ہے تاہم ہمارے بھائیوں کو بھی احتیاط کرنا چاہیے۔ کم از کم خارجی تعلقات اور معاشی پروگرام کے حوالے سے خبروں کی تصدیق کرلیا کریں، دوسری صورت میں مخالف موقف ضرور لیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE - ہم، ہمارے حالات، رویے اور بیرونی سرمایہ کاری - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ہم، ہمارے حالات، رویے اور بیرونی سرمایہ کاری

19 14
25.04.2024

ایران کے صدر محترم ابراہیم رئیسی پاکستان کا سہ روزہ دورہ کرنے کے بعد واپس وطن پہنچ چکے ہیں۔ ان کی پاکستان میں آمد پر خوشی و انبساط کا اظہار کیا گیا اور پرجوش خیر مقدم اور الوداع ہوا۔ صدر ایران کے ساتھ اعلیٰ سطحی وفد بھی تھا اور اس دوران ایران اور پاکستان کے برادرانہ تعلقات کا اعادہ کیا گیا۔ عوامی سطح پر بھی اطمینان کا اظہار ہوا۔ یہ دورہ ایسے وقت ہوا جب ایران اور اسرائیل کے درمیان راکٹ بازی (میزائل داغے گئے) ہو چکی تھی اور ہر دو کے درمیان تناؤ میں بھی شدت آ چکی ہے۔ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کا موقف بھی بہت واضح ہے اور صدر رئیسی کی طرف سے تعریف بھی کی گئی، ان کو یہ بھی یقین ہے کہ غزہ کے محاذ پر بالآخر اسرائیل کو شکست اور فلسطینیوں کو فتح حاصل ہوگی۔

معروف پاکستانی ٹک ٹاکر کی مبینہ شوہر کیساتھ بیڈ روم کی نجی ویڈیوز اور تصاویر لیک، بہن پر الزام لگا دیا

صدر ایران کے اس دورے کے دوران تجارتی بہاؤ پر بھی بات چیت ہوئی اور اس امر پر اتفاق پایا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم دس ارب ڈالر تک لے جایا جائے گا۔ اس کے علاوہ گیس پائپ لائن جیسے حساس معاملے پر بھی تبادلہ خیال ہوا اور یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ گیس پائپ لائن کی تکمیل کا تعلق پاکستان کی معیشت سے جڑا ہوا ہے اس لئے عالمی سطح پر اس کا احترام کیا جائے گا۔

ایرانی صدر کے دورے اور تجارتی روابط بڑھانے کی بات چیت کے دوران یقینی طور پر اس امر پر غور کر لیا گیا ہوگا کہ ”عالمی تھانیدار“ ایران کے حوالے سے کیسے ردعمل کا مظاہرہ کرے گا۔ ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت کا سلسلہ تو جاری ہے تاہم اس دورے اور اس دوران مذاکرات اور اظہار خیال نے دنیا بھر کو چونکا یاضرور، تاہم توقع کے مطابق پہلا ردعمل ہی عالمی تھانیدار امریکہ کی طرف سے آیا ان کے دو مختلف ترجمانوں میتھیوملر اور ویدانت پٹیل نے ایک ہی نوعیت کا ردعمل دیا جو ڈپلو میٹک زبان میں،........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play