ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی تین روزہ دورہ پاکستان مکمل کرنے کے بعد گزشتہ روز واپس اپنے وطن چلے گئے۔ ایک غیر معمولی جغرافیائی صورت حال کے تناظر میں یہ دورہ نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ وہ غیر معمولی صورت حال یہ ہے کہ ایک جانب حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ جاری ہے اور دوسری جانب اسرائیل اور ایران کے مابین کشیدگی بھی عروج پر ہے۔ یہ کشیدگی کیسے پیدا ہوئی؟ اسرائیل نے یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پہ حملہ کیا جس کے نتیجے میں سات اہم ایرانی اہلکار جاں بحق ہو گئے۔ اس کے جواب میں ایران نے دو ہفتے بعد کم و بیش 300 ڈرون اور میزائل اسرائیل کی جانب داغے۔ چند روز بعد اسرائیل نے جوابی حملہ کیا‘ ایران کے شہر اصفہان پر‘ یعنی اس شہر پر جہاں ایران کی نیوکلیئر تنصیبات موجود ہیں۔ ایران کا دعویٰ تھا کہ حملے میں کوئی جانی مالی نقصان نہیں ہوا۔ یہ صرف تین ڈرون تھے‘ اور تینوں کو مار گرایا گیا۔ اس کی وجہ سے پورے خطے میں کشیدگی عروج پہ پہنچ گئی اور کچھ دن کے لیے تیل کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہو گیا۔ یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ یہ جنگ کہیں مزید پھیل نہ جائے۔ اس تناظر میں ایران کے صدر کا دورہ پاکستان یقیناً اہمیت کا حامل ہے۔

اسلام آباد سے مبینہ طور پر اغوا ہونے والی سعودی خاتون کراچی سے بازیاب

پاکستان اور ایران کے مابین تین چار اہم ایشوز یا مسائل ہیں۔ پہلا ہے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ۔ یہ اوریجنل معاہدہ 1994ء میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے زمانے میں ہوا تھا۔ اس کے بعد ایران نے اپنے حصے کی پائپ لائن تعمیر کر رکھی ہے لیکن پاکستان اس پہ عملدرآمد نہیں کر سکا۔ وجہ ہے امریکی خوف اور ایران پر امریکی پابندیاں۔ ایران اگر انٹرنیشنل کورٹ آف آربٹریشن یعنی ثالثی کے عالمی ادارے میں چلا جائے تو وہ اٹھارہ انیس ارب ڈالر کے تاوان کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ ابھی تک اس نے ایسا نہیں کیا‘ لیکن ممکن ہے آئندہ چلا جائے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تجارت بڑھانے کی بھی بار بار بات ہوتی ہے کہ ہم پانچ ارب ڈالر تک اس تجارت کو پہنچائیں گے‘ لیکن آج تک یہ خواب پورا نہیں ہو سکا۔ اب دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دیکھیں اس پر بھی عمل درآمد ہوتا ہے یا نہیں۔ تیسرا بڑا نکتہ وہ پراکسی ٹیررسٹ گروپ ہیں جن کو دونوں ملکوں میں اختلافات پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک اور مسئلہ سمگلنگ بھی ہے جو بڑھتی جا رہی ہے حالانکہ قانونی طریقے سے تجارت کی جائے تو اس سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو گا۔

معروف پاکستانی ٹک ٹاکر کی مبینہ شوہر کیساتھ بیڈ روم کی نجی ویڈیوز اور تصاویر لیک، بہن پر الزام لگا دیا

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ہم نے پہلے مرحلے میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایرانی صدر کے دورے کے دوران پاکستان اور ایران کے مابین مختلف شعبوں میں تعاون کی متعدد مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط بھی ہوئے۔ اس حوالے سے منعقدہ تقریب میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی شرکت کی۔ تقریب میں پاکستان اور ایران نے 8 سمجھوتوں پر دستخط کیے۔ معاہدے اور یادداشتیں یہ ہیں: سول معاملات میں تعاون کے لیے عدالتی معاونت کا معاہدہ‘ دونوں ممالک کے درمیان ویٹرنری و حیوانات کی صحت کے شعبے میں تعاون کا معاہدہ‘ پاکستان اور ایران کے درمیان جوائنٹ فری اکنامک زون‘ سپیشل اکنامک زون کے قیام کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے‘ ایران کی وزارت کوآپریٹو لیبر اینڈ سوشل ویلفیئر اور وزارت سمندر پار پاکستانیز و پاکستان کی انسانی وسائل کی ترقی‘ کے مابین تعاون کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے‘ پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور ایران کی نیشنل سٹینڈرڈ آرگنائزیشن کے مابین تعاون کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے۔ پاکستان اور ایران نے میوچل لیگل کوآپریشن کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر بھی دستخط کیے ہیں۔ پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات اور ایران کی آرگنائزیشن آف سینما اینڈ آڈیو ویژوئل افیئرز کے درمیان دونوں ممالک میں فلموں کے تبادلے اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔ اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ایران کے ساتھ ہمارے دیرینہ برادرانہ تعلقات ہیں، ایرانی صدر سے سکیورٹی اور تجارت سمیت دوطرفہ پہلوؤں پر تبادلہ خیال ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان جو باہمی رشتے ہیں مذہب، تہذیب‘ تجارت کے‘ اس حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی۔ انہوں نے کہا: اس میں شک نہیں کہ 1947ء میں ایران ان چند ممالک میں سر فہرست تھا جنہوں نے پاکستان کو تسلیم کیا، ہمارے رشتے صدیوں پر محیط ہیں، یہ ہے وہ تعلق جس کو آج ہم نے ترقی و خوش حالی اور عوام کی بہتری کے لیے استعمال کرنا ہے۔

مغربی ہواؤں کا نیا سسٹم آج پاکستان میں داخل ہوگا، غیر معمولی بارش کا امکان

پہلے سعودی وزیر خارجہ کا یہاں آنا‘ اس کے بعد ایران کے صدر کا دورہ پاکستان ظاہر کرتا ہے کہ جہاں عالمی سطح پر کچھ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں وہاں اس خطے میں بھی معاملات کو از سر نو مرتب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر ان دوروں کے نتیجے میں پاکستان کے مشرق وسطیٰ کے ساتھ معاملات‘ جو کہ پہلے ہی اچھے ہیں‘ میں مزید بہتری آتی ہے تو اس کے نتیجے میں علاقائی تجارت کو فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ تجارت کے بارے میں پہلے ہی غور کر رہا ہے جبکہ افغانستان کے ساتھ بھی تجارت بڑھانے کے حوالے سے حال ہی میں کچھ پیش رفت سامنے آئی۔ یہ مثبت اور خوش آئند ہیں اور اگر ان کو آگے بڑھایا جائے تو یہ بارآور ثابت ہو سکتی ہیں‘ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا ہونے دیا جائے گا؟ یہ سوال اس لیے ذہن میں آتا ہے کہ ایران کے ساتھ نئے معاہدے کرنے پر امریکہ نے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر پابندیاں عائد کرنے کا اشارہ دے دیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ایران کے ساتھ کاروباری معاہدوں کو بڑھاوا دینے والوں کو وارننگ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاک ایران نئے معاہدوں میں اگر پیش رفت ہوئی تو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان سارے حالات میں آج کا سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ عالمی طاقتیں اس خطے میں باہمی تجارت کے فروغ اور خطے کے تمام ممالک کی انفرادی کے بعد اجتماعی ترقی کے خواب کو پورا ہونے دیں گی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے سب کو مل بیٹھ کر غور کرنا ہو گا۔

پاکستان کا پہلا کریلے و کھیرے بیچنے والا ڈان

QOSHE -  ایرانی صدرکا دورہ پاکستان - محمد معاذ قریشی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 ایرانی صدرکا دورہ پاکستان

16 0
25.04.2024

ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی تین روزہ دورہ پاکستان مکمل کرنے کے بعد گزشتہ روز واپس اپنے وطن چلے گئے۔ ایک غیر معمولی جغرافیائی صورت حال کے تناظر میں یہ دورہ نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ وہ غیر معمولی صورت حال یہ ہے کہ ایک جانب حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ جاری ہے اور دوسری جانب اسرائیل اور ایران کے مابین کشیدگی بھی عروج پر ہے۔ یہ کشیدگی کیسے پیدا ہوئی؟ اسرائیل نے یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پہ حملہ کیا جس کے نتیجے میں سات اہم ایرانی اہلکار جاں بحق ہو گئے۔ اس کے جواب میں ایران نے دو ہفتے بعد کم و بیش 300 ڈرون اور میزائل اسرائیل کی جانب داغے۔ چند روز بعد اسرائیل نے جوابی حملہ کیا‘ ایران کے شہر اصفہان پر‘ یعنی اس شہر پر جہاں ایران کی نیوکلیئر تنصیبات موجود ہیں۔ ایران کا دعویٰ تھا کہ حملے میں کوئی جانی مالی نقصان نہیں ہوا۔ یہ صرف تین ڈرون تھے‘ اور تینوں کو مار گرایا گیا۔ اس کی وجہ سے پورے خطے میں کشیدگی عروج پہ پہنچ گئی اور کچھ دن کے لیے تیل کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہو گیا۔ یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ یہ جنگ کہیں مزید پھیل نہ جائے۔ اس تناظر میں ایران کے صدر کا دورہ پاکستان یقیناً اہمیت کا حامل ہے۔

اسلام آباد سے مبینہ طور پر اغوا ہونے والی سعودی خاتون کراچی سے بازیاب

پاکستان اور ایران کے مابین تین چار اہم ایشوز یا مسائل ہیں۔ پہلا ہے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ۔ یہ اوریجنل معاہدہ 1994ء میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے زمانے میں ہوا تھا۔ اس کے بعد ایران نے اپنے حصے کی پائپ لائن تعمیر کر رکھی ہے لیکن پاکستان اس پہ عملدرآمد نہیں کر سکا۔ وجہ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play