فرمایا ہے عزت مآب وزیر خزانہ اورنگزیب نے کہ عوام کو اب ٹیکسز دینے پڑیں گے اس کے بغیر گزارا نہیں، چونکہ وزیر خزانہ نئے نئے پاکستان میں وارد ہوئے ہیں اور انہوں نے پاکستانی قومیت ِ بھی تازہ تازہ اختیار کی ہے،اِس لئے اُنہیں شاید یہ غلط فہمی ہے کہ پاکستانی عوام ٹیکس نہیں دیتے۔سنا ہے وہ خود تین کروڑ روپے ماہانہ تنخواہ پر آئے ہیں اس لئے بھی شاید سمجھتے ہیں اِس ملک ِ خداد اد میں عوام کروڑوں میں کھیل رہے ہیں،مگر ٹیکسز دینے سے انکاری ہیں،عوام کا ٹیکسز دے دے کر گزارہ نہیں ہو رہا اور وزیر خزانہ انہیں کہہ رہے ہیں، ٹیکس دیئے بغیر گزارہ نہیں ہو گا۔وزیر خزانہ کو بجلی فری ملتی ہے اِس لئے انہوں نے شاید پاکستانی بجلی کا بل بھی نہ دیکھا ہو، اگر وہ یہ بل ہی دیکھ لیں تو انہیں اندازہ ہو جائے صرف بجلی کے بل پر عوام تیرہ قسم کے ٹیکس دے رہے ہیں۔مجھے لگتا ہے وہ خواص کو کہنا چاہتے تھے کہ اب انہیں ٹیکس دینا پڑے گا،لیکن مصلحت آڑے آ گئی اور وہ آسان ہدف سمجھتے ہوئے عوام کا نام لے گئے۔اس لئے انہیں اب کون یہ بتانے کی جرأت کرے۔حضور اِس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے یہاں غریبوں سے ٹیکس لیا جاتا ہے اور امیروں کو چھوٹ دی جاتی ہے،کسی نے مجھے ایک پوسٹ بھیجی، جس میں درج تھا پاکستان میں سات چیزیں عوام کے لئے مہنگی اور اشرافیہ جس میں سیاستدان،بیورو کریٹس، جرنیل اور جج صاحبان شامل ہیں،اُن کے لئے مفت ہیں، ان میں بجلی، گیس، پٹرول، علاج، گھر، سفر اور گاڑی شامل ہیں صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ انہیں ٹیکسوں میں بھی چھوٹ حاصل ہے،ایسے میں عوام کو یہ کہہ کر خوفزدہ کرنا کہ انہیں اب ٹیکسز دینے پڑیں گے،اس کے بغیر گزارہ نہیں،مرے کو مارے شاہ مدار والی بات ہے۔

اسلام آباد سے مبینہ طور پر اغوا ہونے والی سعودی خاتون کراچی سے بازیاب

78سال ہو گئے ہاری معیشت کا قبلہ ہی درست نہیں ہو سکا، دنیا بھر کا معاشی نظام اس نکتے پر استوار ہے کہ جو جتنا زیادہ کماتا ہے اُسے اتنا ہی زیادہ ٹیکس دینا پڑے گا۔ہمارے ہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے، جو سب سے کمزور ہے وہ اپنی آمدنی کی شرح کے لحاظ سے زیادہ ٹیکس دے رہا ہے۔آئی ایم ایف بھی اس ملی بھگت میں غالباً شریک ہے کہ بڑے طبقوں پر ٹیکس نہیں لگانا۔سارا نزلہ غریبوں پر گرانا ہے۔آپ آئی ایم ایف کے پچھلے معاہدے اُٹھا کر دیکھ لیں اُس کا سارا زور اِس بات پر ملے گا کہ عوام کو دی گئی سبسڈی کا خاتمہ کیا جائے،کبھی اُس نے یہ شرط عائد نہیں کی کہ شاہانہ زندگی گزارنے والوں پر بھی اُن کی آمدنی اور رہن سہن کے لحاظ سے ٹیکس نافذ کیا جائے۔ابھی چند ہفتے پہلے یہ اعداد و شمار سامنے آئے تھے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس تنخواہ دار طبقہ دیتا ہے،یعنی آپ اندازہ کریں، جس ملک میں مضبوط صنعتی شعبہ ہو، رئیل اسٹیٹ میں کھربوں روپے کی سرمایہ کاری ہوتی ہو،بڑے بڑے بزنس ٹائیکون عام پائے جاتے ہوں، بیس بیس کروڑ روپے والی کوٹھیوں، بنگلوں پر مشتمل ہزاروں ہاؤسنگ کالونیاں ہوں،وہاں ٹیکس کی حالت یہ ہے کہ تنخواہ دار طبقہ خزانے کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے،جس معیشت کو چلانے کے لئے سیلز ٹیکس کا آسان راستہ اختیار کر لیا گیا ہو، وہ اپنے پاؤں پر کیسے کھڑی ہو سکتی ہے۔سیلز ٹیکس ایک ایسا ظالم ہتھیار ہے،جو سب پر ایک ہی رفتار سے چلتا ہے۔اس سے وہ طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے جسے عوام کہتے ہیں۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ بجلی، گیس، پٹرول میں ضروری مدات پر بھی عوام سے سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے،حالانکہ وہ اِن اشیاء کو فروخت نہیں کرتے،خریدتے ہیں بلواسطہ ٹیکسوں سے معیشت کو کبھی پاؤں پر کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔بلاواسطہ ٹیکسوں کے نظام کو رائج کیا جائے تو ایف بی آر کی کرپشن میں بھی کمی آ سکتی ہے۔آج کل وزیراعظم کی ہدایت پر عدالتوں میں موجود ٹیکس کیسوں کے مقدمات کو نمٹانے پر زور دیا جا رہا ہے۔اس ضمن میں کوتاہی برتنے پر چیف کمشنر اسلام آباد ان لینڈ ریونیو کو معطل بھی کر دیا گیا ہے یہ اچھی خبریں ہیں تاہم جب تک غریب عوام سے توجہ ہٹا کر اس ملک کے شاہانہ طبقے پر توجہ مرکوز نہیں کی جاتی اور وزیر خزانہ یہ نہیں کہتے کہ اب اِس ملک میں کسی کو ٹیکس استثنا نہیں ملے گا، خاص طور اُس طبقے کو بھی اب ٹیکس دینا پڑے گا جو ملک کے80 فیصد وسائل پر قابض ہے، مگر اس تناسب سے قومی معیشت میں اپنا حصہ نہیں ڈالتا، اُس وقت تک بہتری نہیں آ سکتی۔

معروف پاکستانی ٹک ٹاکر کی مبینہ شوہر کیساتھ بیڈ روم کی نجی ویڈیوز اور تصاویر لیک، بہن پر الزام لگا دیا

دنیا میں حکمران عوام سے ڈرتے ہیں، کیونکہ ذرا سی بے انصافی اور زیادتی اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیتی ہے اُن ممالک میں اگر ایسا بے انصافی پر مبنی نظام رائج ہو جیسا ہمارے ہاں ہے تو شاید کاخِ امراء کے درو دیوار ہلا دیئے جائیں۔مہذب جمہوریتوں کے عوام اس لئے پُرامن اور پُرسکون رہتے ہیں کہ انہیں اس امر کا یقین ہوتا ہے وہاں ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق ٹیکس ادا کرتا ہے،جو جتنا امیر ہے وہ اتنا ہی بڑا ٹیکس گزار ہے۔ہماری طرح نہیں کہ ابھی تک ہماری معیشت اِس بات کا کھوج بھی نہیں لگا سکی کہ اِس ملک میں کتنے امیر ایسے ہیں جو ٹیکس نہیں دے رہے۔آج بھی دقیانوسی انداز سے ایف بی آر کام کر رہا ہے۔کبھی سم بند کرنے کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے اور کبھی ایسی ہی کوئی لایعنی دھمکی دی جاتی ہے۔گرفت اتنی کمزور ہے کہ اربوں روپے کے ٹیکس چور عدالتوں سے حکم امتناعی لے کر اپنا دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور محکمہ کے کرپٹ افسران انہیں سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔وزیر خزانہ اگر واقعی بااختیار ہیں تو انہیں مکھی پر مکھی مارنے کی بجائے غیر روایتی اقدامات کا راستہ اپنانا ہو گا،ٹیکس نیٹ بڑھانا ہے تو لاکھو نئے ٹیکس گزار نظام میں شامل کرنے ہوں گے جو مشل کام اِس لئے نہیں کہ سب کچھ سامنے ہے بس اس دوہرے نظام نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

مغربی ہواؤں کا نیا سسٹم آج پاکستان میں داخل ہوگا، غیر معمولی بارش کا امکان

QOSHE - حضور عوام کے سوا ٹیکس دیتا کون ہے؟ - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

حضور عوام کے سوا ٹیکس دیتا کون ہے؟

56 0
25.04.2024

فرمایا ہے عزت مآب وزیر خزانہ اورنگزیب نے کہ عوام کو اب ٹیکسز دینے پڑیں گے اس کے بغیر گزارا نہیں، چونکہ وزیر خزانہ نئے نئے پاکستان میں وارد ہوئے ہیں اور انہوں نے پاکستانی قومیت ِ بھی تازہ تازہ اختیار کی ہے،اِس لئے اُنہیں شاید یہ غلط فہمی ہے کہ پاکستانی عوام ٹیکس نہیں دیتے۔سنا ہے وہ خود تین کروڑ روپے ماہانہ تنخواہ پر آئے ہیں اس لئے بھی شاید سمجھتے ہیں اِس ملک ِ خداد اد میں عوام کروڑوں میں کھیل رہے ہیں،مگر ٹیکسز دینے سے انکاری ہیں،عوام کا ٹیکسز دے دے کر گزارہ نہیں ہو رہا اور وزیر خزانہ انہیں کہہ رہے ہیں، ٹیکس دیئے بغیر گزارہ نہیں ہو گا۔وزیر خزانہ کو بجلی فری ملتی ہے اِس لئے انہوں نے شاید پاکستانی بجلی کا بل بھی نہ دیکھا ہو، اگر وہ یہ بل ہی دیکھ لیں تو انہیں اندازہ ہو جائے صرف بجلی کے بل پر عوام تیرہ قسم کے ٹیکس دے رہے ہیں۔مجھے لگتا ہے وہ خواص کو کہنا چاہتے تھے کہ اب انہیں ٹیکس دینا پڑے گا،لیکن مصلحت آڑے آ گئی اور وہ آسان ہدف سمجھتے ہوئے عوام کا نام لے گئے۔اس لئے انہیں اب کون یہ بتانے کی جرأت کرے۔حضور اِس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے یہاں غریبوں سے ٹیکس لیا جاتا ہے اور امیروں کو چھوٹ دی جاتی ہے،کسی نے مجھے ایک پوسٹ بھیجی، جس میں درج تھا پاکستان میں سات چیزیں عوام کے لئے مہنگی اور اشرافیہ جس میں سیاستدان،بیورو کریٹس، جرنیل اور جج صاحبان شامل ہیں،اُن کے لئے مفت ہیں، ان میں بجلی، گیس، پٹرول، علاج، گھر، سفر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play